نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی، حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش یا….||سارہ شمشاد

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کہ جب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس وقت جب دشمن چہار سو پاکستان کو ناکام بنانے کی تیاریوں میں ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھے گی جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ گھی، کوکنگ آئل کی قیمت میں 50روپے فی کلو کمی کریں گے۔ ادھر حکومت نے چینی اور گندم کی خریداری میں مبینہ گھپلے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی جانب سے پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان تو جیسے عوام پر بجلی بند کر گرا ہے کہ وہ عوام جو پہلے ہی زندگی کی ڈور بڑی مشکل سے جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کے لئے یہ خبر کسی زلزلے سے کم نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تو انہیں دسمبر میں مہنگائی کنٹرول کرنے کی خوشخبری سنائی تھی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو کے مصداق حسرت ان غنچوں پر جو جو بن کھلے مرجھاگئے اس لئے تو عوام اب حکومت کی کسی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں کہ حکومت نہ تو عوام کو کوئی ریلیف فراہم کرنے میں سنجیدہ ہے اور نہ اسے عوام کی کوئی فکر ہے۔ تاہم ان حالات میں ایک رپروٹ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سرمایہ داروں کے ذریعے اشیائے خورونوش مہنگی کرکے حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، یہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایشو کا ہی حصہ ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے سکیورٹی ایشو کا بہانہ کرکے سیریز ہی منسوخ کردی اور پھر اب انگلینڈ نے بھی پاکستان کے دورہ سے انکار کرکے پاکستان کے امیج کو مزید خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورہ پاکستان سے انکار اور حقیقت میں اسے تنہا کرنے کی ایک سازش ہی تو ہے جبکہ ادھر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رأ‘‘ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائی کی پلاننگ میں مصروف ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کا مقصد ’’اپنے دوستوں‘‘ کو حکومت میں لانا ہے۔
اگر یہ رپورٹ سچ ہے تو پاکستان کے خفیہ اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے اور دشمنوں کی چالیں ان پر ہی الٹ دینی چاہئیں خاص طور پر اس وقت جب پاکستان اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کررہا ہے چاہے وہ سیاسی، سفارتی تعلقات ہوں یا پھر کھیل کے میدان ، آج پاکستان ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے اصول پر سختی سے کاربند ہے۔ یقیناً یہ چند ملک دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہی کیونکہ وہ کسی طور نہیں چاہیں گے کہ پاکستان مضبوط ہو اور ترقی کرے۔ ایک ایسے وقت میں جب برطانیہ کا وزیراعظم بورسن جانسن دنیا کے سب سے بڑے فورم پر کھڑے ہوکر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی بلین ٹری سونامی منصوبے کی نہ صرف تائید کرتا ہے بلکہ اس سے سیکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ بحیثیت ملک ہماری تو ڈائریکشن درست ہے اسی لئے تو اب پاکستان مخالف صحافی بھی برملا پاکستان کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کہ جب ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس وقت جب دشمن چہار سو پاکستان کو ناکام بنانے کی تیاریوں میں ہے۔ ابھی چند روز قبل پاکستانی پرچم کی افغانستان میں بے حرمتی دیکھنے میں آئی۔ اگرچہ اس پر افغان طالبان حکومت نے پاکستان سے معافی طلب کی ہے لیکن دوسری طرف یہ رپورٹس بھی سامنے آرہی ہیں کہ طالبان کا پاکستان بارے رویہ مثبت ہے اسی لئے اب وہ لوگ جو افغان پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف بولتے تھے اور اس کا بھارتی سفارت خانے سے نہ صرف دارو بلکہ کیش انعام بھی وصول کرتے تھے اور اب یہ شرپسند عناصر طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستانی پرچم اتارنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ پاکستان کے خلاف یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب ہم نے انسانی ہمدردی کے تحت افغانستان کو خوراک، ادویات کی صورت میں امداد بھجوائی تاکہ وہاں کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے یہی نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان وہ سربراہ ہیں جو ہر فورم پر افغان طالبان کی بات کررہے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ امریکہ کو Absolutely No بھی کہہ چکے ہیں۔
پاکستان مخالف قوتوں کو ایک مستحکم اور توانا پاکستان چونکہ کبھی Suit نہیں کرتا اسی لئے تو وہ ہر وقت اسے کمزور بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے ایک علیحدہ ڈیسک قائم کررکھا ہے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں ہمہ وقت جُتا رہے۔ ویسے پاکستان میں میر جعفر اور میر صادق کی بھی کمی نہیں کہ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ عند ٹکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں۔ ان حالات میں جب عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے اپنے تمام تر کارڈز استعمال کررہی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان پر ہر محاذ سے حملہ آور ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ان حالات میں جہاں ہماری ایجنسیوں اور فورسز پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں ہمارے پالیسی سازوں کو بھی اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام کیسے بنانا ہے لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ سبز پاسپورٹ رکھنے والے تو خود ہی اس کی بے توقیری کی وجہ بننے لگے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور نائب صدر کی جانب سے جس طرح اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے اس کے باوجود ان کے خلاف قانون کا حرکت میں نہ آنا ہی درحقیقت پاکستان مخالفین کو شہہ دیتا ہے کہ وہ وطن عزیز کو بے جا تنقید کا نشانہ بنائیں۔
اگر وطن عزیز اور اداروں کے خلاف تنقید کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے تو دوسروں کو ایسی جرات نہ ہوسکے مگر چونکہ ہمارے ہاں قانون کی حیثیت موم کی گڑیا کی سی ہے اسی لئے تو جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور اگر کوئی سوال اٹھائے تو اسے آزادی اظہار رائے کا چورن قرار دے کر مہنگے داموں بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ 3بار کا وزیراعظم برملا اداروں کے خلاف بول رہا ہے جبکہ اسی کی بیٹی نیوزی لینڈ کے دورہ کی منسوخی پر بھی طنز سے باز نہیں آرہی اور وہ بغضِ عمران میں یہ تک بھول چکی ہے کہ اس کی ایسی بے جا اور بے وقت کی راگنی سے عمران خان کا نہیں بلکہ میرے وطن کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وطن عزیز کے خلاف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑدیا جائے اور ہر زبان کو کاٹ دیا جائے مگر نجانے وہ کون سی مجبوریاں ہیں جن کے باعث ان کو اس کے خلاف ہرزہ سرائی کی اجازت ہے۔ یہی نہیں بلکہ اربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے باوجود ضمانت اور نہ صرف رہائی ملتی ہے بلکہ ساتھ شاید یہ سرٹیفکیٹ بھی پکڑا دیا جاتا ہے کہ جس کا جو دل چاہے میرے پیاےر وطن کے خلاف بولو اور ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو تقویت پہنچائو۔
وزیراعظم عمران خان اس بات کا تو اعتراف کرتے ہیں کہ الیکشن ترقیاتی فنڈز نہیں کارکردگی کی بنیاد پر جیتے جاتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کب کارکردگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں گے کیونکہ وہ جس بھی چیز کا نوٹس لیتے ہیں وہاں تو فوراً ہی معاملہ یکسر الٹ ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے ارکان اسمبلی چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن دونوں کو ایوان سے دلچسپی نہیں۔ وہاں تو وہ صرف عوام کی بجائے اپنے مسائل کے حل اور تنخوہیں اور الائونسز بڑھوانے کے لئے آتے ہیں ۔ وطن اور عوام کے کیا مسائل ہیں ان سے ان کو کوئی سرکار بھی تو نہیں اسی لئے تو چاہے الیکشن اصلاحات کا معاملہ ہو یا کوئی اور کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نہیں کیا جارہا کہ عوام تو بہت دور کی بات ہے۔ اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان کے خلاف انٹرنیشنل ایونٹس سے پہلے ہرزہ سرائی بھارتی میڈیا کا معمول ہے تو اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حکومت نے بین الاقوامی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے کیا حکمت عملی تیار کی ہے کیونکہ روایتی پالیسی سے تو ہائبرڈ وار اور ففتھ جنریشن کے شکار ملک کے مسائل حل نہیں ہونگے اس کے لئے پاکستان کو اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور اگر اس بات میں صداقت ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سرمایہ داروں کے ذریعے اشیائے خورونوش مہنگی کرکے حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی سازش کررہی ہے تو اس کو ناکام بنانے کے لئے ہر طرح کے اقدامات کو ترجیح اس لئے دینی چاہیے کہ ہم کسی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی کسی کی مرضی کے حکمران خود پر اب مسلط ہونے دیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ بحیثیت قوم بھی ہمارے کچھ فرائض ہیں جنہیں اگر اب بھی نہ سمجھا اور ادا نہ کیا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی جیسے اگر منافع خوروں کو لگام ڈالنے اور حکومتی رٹ بحال کروانے کے لئے سخت ترین کریک ڈائون کی ضرورت کو آج بھی محسوس نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ہمارا معاملہ داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں والا بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات اس نہج کو پہنچیں، پالیسی ساز ملک دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور ہم ایک محب وطن قوم ہونے کا ثبوت دیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author