حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین سال سے مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات کی بجائے جب یہ کہا جائے گا کہ ’’مہنگائی عارضی ہے جلد ختم ہوجائے گی‘‘ تو لوگ اسے اپنے زخموں پر نمک پاشی ہی قرار دیں گے۔
نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں 1روپیہ 94پیسے اضافے کی تجویز دی ہے۔ صارفین پر 25ارب روپے کا اضافی بوجھ لادا جائے گا یہ دیکھے بغیر کہ صارفین یہ بوجھ اٹھانے کے متحمل بھی ہیں کہ نہیں۔
ڈی چوک میں ترانوں کی دھنوں پر خطاب میں بجلی کے بل جلانے اور سول نافرمانی کی اپیل کرنے والے اب تاویلات لارہے ہیں۔ مجبوریاں بتائی جارہی ہیں اور قیمتوں کا تقابلی جائزہ سمجھایا جارہا ہے۔
ایک سکہ بند انصافی نے ٹیوٹر پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخ نامے کا امریکہ سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ میں فی لٹر پٹرول 3سو کچھ روپے ہے۔
ان سے عرض کیا ’’امریکہ میں کم سے کم فی گھنٹہ اجرت 10ڈالر سے 12ڈالر ہے معمولاً 8گھنٹے خدمات بجالانے والے کو اس حساب سے یومیہ 80سے 96ڈالر اجرت ملتی ہے۔ ایک ڈالر 172روپے کا ہے یوں تقریباً سوا دو ڈالر کا فی لٹر پٹرول ہوا۔ اب پاکستان میں اوسطاً فی کس یومیہ آمدنی کا حساب سامنے رکھ کر بتایئے”؟،
خیر اس بحث کو ایک طرف اٹھارکھیئے یہاں صورت یہ ہے کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 1800روپے مقرر کی۔ حکومت ہی فلور ملوں کو فی من گندم 1950 روپے کے حساب سے فراہم کرتی ہے۔ 1800روپے من کے حساب سے خریدی گئی گندم پر بنک انٹرسٹ فی من 11روپے ہے۔ 3روپے فی من سٹوریج اخراجات، کل اخراجات 14روپے فی ایک ماہ کے لئے یہ حساب اگر جون سے ستمبر تک کے لئے ہو (ستمبر میں فلور ملوں کو گندم فراہم کرنا شروع کی حکومت نے) تو کل خرچہ 56روپے بنتا ہے۔ گندم خریدی 1800روپے من خرچہ 56روپے فی من، فروخت کی 1950 روپے من، یعنی 1886 خرچہ باردانہ کے 30روپے ڈال کر۔ یوں حکومت نے ایک من گندم پر نقد 65روپے منافع کمایا۔ اب حساب کیجئے حکومت نے عوام کو کیا سبسڈی دی؟ کڑوا سچ یہ ہے کہ سبسڈی کی باتیں فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ حکومت پچھلے برس آئی ایم ایف کی یہ شرط مان چکی تھی کہ آٹا، چینی، پٹرولیم، بجلی اور گیس پر دی جانے اولی سبسڈی ختم کردی جائے۔ سبسڈی صرف اسے دی جائے جو احساس پروگرام میں رجسٹر ہو۔ ان سطور میں سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور آئی ایم ایف کے درمیان ہوئے معاہدہ بارے ایک سے زائد بار تفصیل سے عرض کرچکا۔ اب اسی ماہ (اکتوبر) میں ہی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہونے ہیں ان مذاکرات میں معیشت ، ٹیکس اہداف کی صورتحال، سبسڈی کے حوالے سے حکومتی وعدہ پر عمل اور گردشی قرضوں کی صورتحال پر بھی غوروخوض ہوگا۔
جس بات سے تواتر کے ساتھ انکار کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کا بوجھ بتدریج عوام کی گردن پر ڈالے چلی جارہی ہے۔
بجلی کے بلوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس میں یہ لالی پاپ دیا گیا کہ یہ نان فائلر کے لئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بجلی کے 100فیصد صارفین فائلر ہیں؟ زائد یونٹوں یعنی 3سے 6دن کی زائد میٹر ریڈنگ سے بھاری بھرکم بلز کا سکینڈل سب کے سامنے ہے۔ ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
اس پر ستم یہ کہ گزشتہ شب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4روپے سے 8روپے 82پیسے لٹر اضافہ کردیا گیا۔ پٹرول فی لٹر 127.3۔ ڈیزل 122.4 جبکہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 8روپے 82پیسے اضافہ ہوا۔ ایل پی جی کی قیمت میں 29روپے 10پیسے فی کلو اضافہ ہوا اب فی کلو قیمت 203روپے 69پیسے ہوگی۔ 30ستمبر کی شام ہی گھریلو صارفین کے لئے سوئی گیس کی قیمتوں میں تقریباً 35فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
اس صورتحال میں وزیراعظم کا یہ کہنا کہ مہنگائی عارضی ہے جلد ختم ہوجائے گی، عوام الناس کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔
بھنگ کی سرکاری سرپرستی میں کاشت سے سالانہ ایک ارب ڈالر کمانے کی امید سے بندھی حکومت کے ذمہ داروں نے کبھی عام گلی محلوں کا رخ کرکے لوگوں کی حالت زار کا جائزہ لیا ہو تو انہیں معلوم ہو کہ آٹا دال کا بھائو کیا ہے۔ یہاں صورت یہ ہے کہ بعض امور پر حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے والوں پر لشکر "چھوڑدیئے” جاتے ہیں۔
ایک ایسی جماعت جو اپوزیشن میں گزارے 10برسوں کے دوران صبح و شام اس وقت کے حکمرانوں کو چور لٹیرے، غدار، امریکی پٹھو، آئی ایم ایف کے بھیکاری قرار دیتی رہی ہے، جس کا موقف تھا مہنگائی بڑھنے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ حکمران چور ہیں اب وہ تین سال سے حکومت میں ہے اور ان تین سالوں میں مہنگائی میں مجموعی اضافہ کسی بھی طرح 100فیصد سے کم نہیں ہے۔
ان تین سالوں کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے آباد لوگوں کی تعداد میں 2کروڑ کا مزید اضافہ ہوا۔ بیروزگاری بڑھی۔ ہر اذیت اور زخم پر ماضی کی کرپشن کا مرہم رکھنے والوں کو اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ مہنگائی، آئی ایم ایف کی چوبداری اور دوسرے مسائل پر کیا کہیں۔
مہنگائی اگر واقعی کوروناکی وجہ سے بڑھی تھی تو پھر کورونا کی طرح ہی کم کیوں نہیں ہوئی؟
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ اب اہل اقتدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ الزاماتی سیاست اور غلط اعدادوشمار سے لوگوں کےپیٹ نہیں بھرنے والے، دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے وقت کبھی کبھی اپنے دامن پر بھی نگاہ ڈال لینا اچھا ہوتا ہے۔
عام آدمی کا شکوہ ان اطلاعاتی مجاہدوں سے بھی درست ہے جو لگ بھگ 10برس تک عمران خان کو نجات دہندہ بناکر ذرائع ابلاغ میں پیش کرتے اور پروان چڑھاتے رہے۔ اب جبکہ عوام کی حالت بدتر سے بدترہوچکی ہے تو یہ مجاہدین گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت خواتین صحافیوں کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھراو اچھی بات نہیں۔
سیدھی سیدھی بات ہے جتنا حق انصافیوں کو 10سالہ اپوزیشن دور میں اس وقت کی حکومتوں پر تنقید کا تھا اتنا ہی حق اب دوسروں کو بھی حاصل ہے۔
حکومت کے حامیوں کا کام تنقید کے جواب میں گالیاں دینا نہیں تحمل اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنا ہوتا ہے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی، دوسری وجوہات ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب وہ ’’بالائی‘‘ آمدنی بند ہوگئی ہے جو 42برسوں سے افغان پالیسی کی بدولت ہورہی تھی۔ اب روئیں یا ہنسیں بس گھابریں بالکل نہیں، فی الوقت تو یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ
تبدیلی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ ’’لوگ‘‘ بھی پالے جن کی ذمہ داری بھی نہیں تھی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ