نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکی عشق کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں||حیدر جاوید سید

مہنگائی اور بیروزگاری کی ایک نئی لہر دستک دینے والی ہے لیکن خیر چھوڑیئے یہ ہماری صادق و امین حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں اور بھی غم ہیں زمانے میں رعایا کے مسائل کے سوا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آپ کی خالی ہوتی جیبوں کا وزن مزید کم کرنے میں تعاون کرے لئے تیار ہوں گی۔ ایک وجہ عالمی منڈی میں فی بیرل تیل 80ڈالر کا ہوجانا ہے اور دوسری وجہ روپے کے مقابلہ میں ’’ڈالر صاحب‘‘ کی قیمت کا 172روپے کے قریب ہوجانا ہے۔
سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان ہے۔ گزشتہ روز 908پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ چھوٹے سرمایہ کاروں کا حال خستہ تر ہے۔ ، چند ہی دنوں میں سرمایہ کاروں کے 127 ارب روپے ڈوب گئے ہیں ،
مہنگائی اور بیروزگاری کی ایک نئی لہر دستک دینے والی ہے لیکن خیر چھوڑیئے یہ ہماری صادق و امین حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں اور بھی غم ہیں زمانے میں رعایا کے مسائل کے سوا۔
ان غموں میں ایک بڑا غم وہ بل ہے جو منگل کو امریکی سینیٹ میں جمع کرایا گیا۔ دفتر خارجہ نے اس بل میں پاکستان کے ذکر کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغان امن عمل میں فریقین کی بھرپور مدد کی امریکی سینیٹ میں مجوزہ قانون سازی کا مسودہ نقصان دہ ہے‘‘۔
واقفان حال کچھ اور کہتے ہیں۔
امریکی سینیٹ میں جمع کروائے گئے 26شقوں پر مشتمل بل میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس امر کا جائزہ لیاجائے کہ
"2001ء سے 2020ء کے درمیانی برسوں میں پاکستان سمیت افغان طالبان کو مدد فراہم کرنے والی ریاستوں اور غیرریاستی کرداروں نے کس طرح مدد فراہم کی، کس کس نے محفوظ ٹھکانے، لاجسٹک سپورٹ، خفیہ معلومات کا تبادلہ اور دیگر معاملات میں تعاون کیا‘‘۔ ان دیگر معاملات میں طبی سازوسامان، تکنیکی تعاون وغیرہ بھی شامل ہے۔ اس بل میں وادی پنجشیر کا معاملہ بھی ہے اور سنگین ترین الزام بھی "۔
چند دن قبل ہی امریکی سینیٹ میں وزیر خارجہ اور آرمی چیف پیش ہوئے اور دونوں کو افغان پالیسی، دوحا معاہدہ، انخلا کے حوالے سے سخت ترین سوالات کا سامناکرنا پڑا۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو یہ بل اصل میں پاکستان پر پابندیوں کا بل ہے۔ چند ساعتوں کے لئے حب الوطنی اور امریکہ دشمنی ایک طرف رکھ کر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان سے انخلا کے ٹھیک 27دن بعد مجوزہ پابندیوں کا یہ بل امریکی سینیٹ میں کیوں پیش کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ ان شقوں یا یوں کہہ لیجئے کہ الزامات پر ابھی تحقیقات ہوں گی۔ ابتدائی رپورٹ 180دن میں سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔ چلیں ہم اس فہم سے جی بہلالیتے ہیں کہ ابتدائی رپورٹ کے لئے رکھے یا دیئے گئے 180دن درحقیقت ہمیں بلیک میل کرنے کے لئے ہیں۔
یا پھر یہ کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول ’’امریکی اپوزیشن اپنی حکومت پر یلغار کررہی ہے، پاکستان مخالف لابی سرگرم عمل ہے‘‘۔
فقیر راحموں کہتے ہیں "جس بزرگ کو یہ ہی معلوم نہیں تھا کہ 2018ء کے انتخابی عمل میں ملتان سے پنجاب اسمبلی کی نشست پر ان کے مقابلہ میں کھڑا آزاد انصافی امیدوار، جہانگیر ترین اور مہربانوں کا مشترکہ امیدوار تھا وہ بزرگ ہمیں بتارہے ہیں کہ امریکہ میں جوبائیڈن انتظامیہ کی اپوزیشن اور پاکستان مخالف لابی ایک پیج پر ہیں” ،
ویسے یہ ہو بھی سکتا ہے ریاستیں چھوٹی ہوں یا بڑی، غریب ہوں یا امیر، وہ دونوں طرف کھیلتی ہیں۔
ریاستی مفادات تبدیل نہیں ہوتے۔ کچھ مثالیں مقامی اور علاقائی حوالے سے پیش کرسکتا ہوں۔ پھر سوچا یہ عمل حب الوطنی کی معراج سے محرومی کے زمرے میں آئے گا۔
ساعت بھر کے لئے رکیئے، کچھ موڈ خوشگوار کیجئے، ہمارے ملتانی دوست ندیم افضل نے گزشتہ شب اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر لکھا ’’امریکی سینیٹ میں ایک ایسی قرارداد بھی پیش ہونی چاہیے کہ جس کے ٹیوٹر پر 50سے زائد فالوورز ہوں اسے امریکہ کا ویزہ دے دیا جائے‘‘۔
فقیر راحموں بولے "پھر تو ہمیں امریکی شہریت ملنی چاہیے‘‘۔
فقیر راحموں پتہ نہیں آج کل امریکہ جانے کے لئے اتنا بے چین کیوں ہے۔ سمجھایا بھی ہے کہ امریکہ کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔ مزید سمجھنے کے لئے امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے کہہ مکرنیاں دیکھ سمجھ لو۔ جواب ملتا ہے "ہم تو رعایا کا حصہ ہیں اپنے حصے کے دکھ کاٹ لیں گے، گاجریں کھانے والوں سے پوچھیں ان کا کیا ہوگا”۔
امریکی سینیٹ میں پاکستان پر مجوزہ پابندیوں کے لئے پیش کئے گئے بل کے بعد ہمارے یہاں چینی کیمپ اور امریکی دھڑے میں رہنے پر بحث کی ہلکی ہلکی ڈھولک بجنا شروع ہوگئی ہے۔
چوہتر برسوں سے امریکی ناز برادری کا جس محبت سے ہم نے تجربہ حاصل کیا، چینیوں کو تو اس طرح کی دلداری مطلوب و مقصود ہی نہیں۔
سنجیدہ سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کریں گے؟ سادہ سا جواب ہے، اپنی چارپائی کے نیچے دیکھنے کی ضرورت ہے یعنی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں پچھلے ماہ در آئی تبدیلیوں کے بعد ہمارے ہاں ” جمناسٹک کے جو مظاہرے کئےگئے تھے” ان پر تحفظات بھی تھے اور سوالات بھی اٹھائے گئے۔
بھلا ہو دوسرے صوبوں کے جعلی ڈومیسائل بنواکر بیوروکریٹ بننے اور ریٹائرمنٹ پر دائیں بازو کا دانشور بن جانے والوں کا جو کبھی دولت اسلامیہ العراق والشام کو اسلام کی نشاط ثانیہ کا جدید ایڈیشن قرار دیتے تھے اب انہیں افغانستان سے عالمگیر انقلاب اسلامی کا سورج طلوع ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
خراسان کے کالی پگڑیوں والے لشکر کی کہانیاں پھر سے کہی لکھی سنائی جارہی ہیں جبکہ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ
” دائیں بازو کے ہمہ قسم کے انتہا پسند حکومت الٰہیہ کے تصور کے پیچھے بیٹھ کر کٹھ ملائیت کے اقتدار کو اسلامی نظام کے طور پر پیش کرتے ہیں”۔
حالت یہ ہے کہ جس اسلامی بینکاری کو شریعہ کے اصولوں کے مطابق کہا جارہا ہے اس پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ’’یہ کراڑی (کافرہ/ہندو عورت) کا نام غلام فاطمہ رکھ کر خوش ہونے جیسا ہے۔
خیر کالم کے اصل موضوع پر بات کرلیتے ہیں۔ امریکی سینیٹ میں پابندیوں کا مجوزہ بل خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ باقاعدہ اعلان ہے۔ سستے میں جان نہیں چھوٹنے والی اور یہ بھی کہ یہ داخلی سیاست کے "چکڑچھولے” ہرگز نہیں کہ جہاں ریڑھی لگالی گاہک آجائیں گے۔
سنجیدگی کے مظاہرے کی ضرورت ہے لیکن اگر شیخ رشید احمد جیسے وزراء نے جوابی بیانیے کی ’’قوالی‘‘ پیش کرنی ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
کم از کم میں فقیر راحموں کی اس بات سے متفق ہوں کہ منگل کو امریکی سینیٹ میں پابندیوں کا مجوزہ بل جمع کروایا گیا اور بدھ کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں حرام ہے کہ کسی ایک شخص نے اس طرف توجہ دلانے کی زحمت کی ہو بلکہ حکمت عملی کے ساتھ ایوان میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ ذرائع ابلاغ کی توجہ ہنگامہ آرائی کی طرف ہوجائے۔
معاف کیجئے گا پیارے قارئین!
کم لکھے کو بہت جانیئے، سب اچھا نہیں ہے امریکی عشق کے امتحان ابھی باقی ہیں۔
آپ بس خالی خولی جذباتی بیانات اور انقلاب کے ” لاروں” سے جی بہلاتے رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author