میں سلمان بخاری کی باقی کہانیوں کو بھی آج رات تک کسی لمحے میں پڑھ کر ختم کرلوں گا، ان کہانیوں کے سحر نے مجھے اس دوران اپنے رات کو ملنے والے ساتھیوں کی کہچری سے محروم کردیا ہے اور ساتھ ساتھ آج مجھے جو اپنے تحریری کام تھے اُن کو بھی پس پشت ڈالنے پہ آمادہ کردیا ہے-
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش اس کروٹ معکوس سے پہلے میں دور دراز ماضی میں چلاگیا ہوتا یا پھر مستقبل بعید میں کہیں چلاگیا ہوتا لیکن-لیکن جاپان میں مقیم پاکستانی نژاد فکشن نگار سلمان بخاری کا افسانہ "گھڑیاں” پڑھ کر اپنی اس آرزو کا گلہ بھی گھونٹنا پڑگیا-
بے کاری اور بے روزگاری کے دنوں میں پریشانی اور سامنے کھڑی ضرورتوں سے دماغ پر مستقل بنے دباؤ سے گھبراکر میں آج کل کبھی کرسی پہ بیٹھ کر تو کبھی چارپائی پہ لیٹ کر آنکھوں کے سامنے کوئی نہ کوئی کتاب رکھے ہوتا ہوں اور خود کو اس کتاب کے متن کا حصہ بنالیتا ہوں – فکشن اور تاریخ کی کتابوں کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں – ایسے میں عکس پبلیکیشنز لاہور والوں نے ازراہ کرم مجھے کچھ کتابیں بھیجیں تو میں نے اُن میں سے سب سے پہلے کہانیوں کے ایک مجموعے "دو رنگا” کا انتخاب کیا – سچی بات ہے کہ کتاب پہ فلیپ اصغر ندیم سید کا لکھا ہوا دیکھا تو ایک مرتبہ جی میں آئی، اسے اٹھا رکھوں اور دوسری کتاب پڑھ لوں- لیکن پھر میں نے کتاب میں سے پہلی کہانی سے پڑھنا شروع کیا تو مجھے دوسری پھر تیسری یہاں تک کہ 11 کہانیوں کو پڑھنے پہ مجبور کردیا- اس دوران بیگم نے مجھے گگر کے دو تین کام کرنے کو کہا، بادل نخواستہ اٹھا اور کام نمٹانے چل پڑا- اس دوران دوچار اور کام کیے اور پھر واپس آکر "آبیل مجھے مار” کہانی سے پھر شروع کیا اور ایک بار پھر میں متن میں گم ہوگیا- "دو رنگا” کہانی ہمارے موجودہ زمان و مکان سے بہت آگے، ایک اءسے ترقی یافتہ سماج کی کہانی ہے جس میں میاں بیوی کے بچے پیدا کرنے پر پابندی ہے اور اس سماج میں کلوننگ اتنی ترقی کرچکی تھی کہ بچے کے خواہش مند اپنی پسند کے مطابق بچے کا آڈر بُک کرکے جیسا چاہیں بچہ لے لیں – بانجھی اور کھاسیہ اس سماج کے اندر رہنے والے میاں بیوی ہیں جن کے درمیان بچہ کس رنگ کا ہو اس پہ اختلاف کا تھا- مانجھی پڑوسن کی طرح سیاہ رنگت والا بچہ چاہتی تھی جبکہ اس کا شوہر کھاسیہ سفید فام بچہ چاہتا تھا- اسے کالے رنگ سے شدید نفرت تھی- دونوں کلوننگ سینٹر جاکر بچہ گود لینے کی تفصیلات معلوم کرتے ہیں وہاں اُن کے بجٹ میں ایک ایسے بچے کی کلوننگ ممکن بن رہی تھی جس کے چہرے کی رنگت سپاہ اور باقی جسم گورا چٹا ہونا تھا- دونوں اس پہ متفق ہوجاتے ہیں – بچہ آہستہ آہستہ نوجوانی کے بعد صاف محسوس کرتا یے کہ اُس کی ماں جیسے اُس کے چہرے کی بلائیں لیتی ہے باپ اُس کے برعکس کبھی اُس سے نظریں نہیں ملاتے بلکہ اُس کے سفید جسم کے حصوں پر ہاتھ پھیرا جاتا- یہ بات اپنی ماں سے کرتا تو وہ اُسے بہلانے کی کوشش کرتی ہے- زرا اور بڑا ہونے پر "دو رنگا” باپ کی حرکت سے سمجھ جاتا ہے کہ اُس کے باپ کو سیاہ فاموں سے نفرت ہے-وہ اپنے چہرے پہ سفید لکیریں کھینچے باپ کے پاس آتا ہے – اور کہتا ہے کہ اب تو انھیں اُس کے چہرے پہ نظر ڈال لینی چاہیے، یہ شاک تھراپی اُس کے باپ کھاسیہ کو بدلتی یے اور وہ اپنے بیٹے کے باقی سفید حصے کو سیاہ کرانے پہ رضامند ہوجاتا ہے- کلوننگ سینٹر بچے کی سفید کھال سیاہ سے بدلتا ہے اور سفید کھال کے عوض انھیں کچھ رقم اپنی طرف سے دیتا ہے- اس کہانی میں سفید نسل پرستی سماج کے سائنسی اور طبی طور پہ بلند تر ترقی کے مرحلے میں ہونے کے باوجود کیسے انسانی دماغ کو جکڑتی دکھائی گئی ہے وہیں اس ترقی کی ایک شکل کلوننگ سے پیدا "دو رنگا” میں انسانی اقدار کا پورا احساس براجمان ہونا بھی فکشن نگار کے وسعت خیال کی گواہی بھی دیتی ہے –
سلمان کی اگلی دو کہانیاں "جنگل میں مشاعرہ” اور "چھینکوں سے یہ نزلہ بھگایا نہ جائے گا” طنز و مزاح کی فکشن نگاری کا قدرے یک گونا امتزاج ہے – ایسے ہی "شو” ایک بڑے کاسموپولیٹن شہر کے اندر تضاد سے بھرے کئی اور شہر ہمیں دکھاتی ہے اور جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے دو بہن بھائیوں کے زریعے سرمایہ داری کے اچانک ترقی کرنے سے ناہموار اور منقسم سماج کی سیر کراتی ہے-کوڑے کے ڈھیر میں بچا کچھا کھانا اور جوتوں کے جوڑے میں سے ایک جوتا کیسے جھونپڑ پٹی کے رہنے والوں کو تھوڑا سا آرام کیسے فراہم کرتا ہے – سلمان بخاری کی کہانی "ایوی ایشن سٹی” ہمیں ایسے سماج کی سیر کراتی ہے جو بہت ترقی یافتہ ہوکر بھی ایک خاندان کو مکمل جہاز گھر دینے سے قاصر ہوتا ہے – اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُس سماج، زمان و مکان سے نکلنا ہی واجب ٹھہر جاتا ہے- ایک نیولبرل سرمایہ دار ملک کے اندر کسان کن عذابوں سے گزرتا ہے” کسان” کہانی اُسی کا بیان ہے-
"پوائزن” درمیانے طبقے کے اندر فسطائی قوم پرستانہ فاشزم کے جنم لینے اور اُس فاشزم کے تحت دوسری قوم کو جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے سہارے ٹوائلٹ پیپرز کو زھریلا کرکے ناش کرنے کے خیال کو عملی روپ دھارتے دکھاتی ہے-
چمگادڑ اور تتلی ایک علامتی کہانی ہے جو ہمیں روشن گر قوتوں کے تاریک پسند قوتوں کے درمیان ذہنیت کے فرق کو آشکار کرتی ہے-
گھڑیاں ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جو مُلک شام کی سیر کو آتا ہے اور دمشق میں بین الاقوامی اڈے پہ باغیوں کے قبضہ کے سبب محصور ہوکر رہ جاتا ہے اور اس دوران دمشق کے بازار میں اُسے گھڑیوں کی ایک دکان سے مستقبل میں لیجانے والی گھڑی ملتی ہے، کچھ دن بعد باغیوں کا قبضہ ختم ہوتا ہے تو وہ اپنے ملک جانے والے پہلے جہاز میں بیٹھتا ہے اور اُس جہاز کو باغی اغوا کرلیتے ہیں وہ جان بچانے کے لیے مستقبل بعید میں چلا جاتا ہے لیکن وہ انسانوں پہ روبوٹ کی حکمرانی کا زمانہ ہوتا ہے وہاں وہ اپنی زندگی عذاب پاتا ہے تو مستقبل کی گھڑی ماضی کی گھڑی سے بدلتا ہے اور اپنے زمامے سے پچاس سال آگے کے زمانے میں چلا جاتا ہے لیکن وہاں حالات ایسے بدلتے ہیں کہ وہ موت کے بعد کے زمانے کا بٹن دباتا ہے تو اُس کی آنکھ تابوت میں کھلتی ہے، یہ کہانی اپنے حالات سے فرار ہونے کی کوشش کرنے اور اپنے زمان و مکان میں رہ کر اُسے مزاحمت سے بدلنے کی کوشش نہ کرنے والوں کے انجام کا علامتی اظہار ہے –
میں سلمان بخاری کی باقی کہانیوں کو بھی آج رات تک کسی لمحے میں پڑھ کر ختم کرلوں گا، ان کہانیوں کے سحر نے مجھے اس دوران اپنے رات کو ملنے والے ساتھیوں کی کہچری سے محروم کردیا ہے اور ساتھ ساتھ آج مجھے جو اپنے تحریری کام تھے اُن کو بھی پس پشت ڈالنے پہ آمادہ کردیا ہے-
سلمان بخاری کی زیادہ تر کہانیاں عالمی سطح پر درجہ حرارت بڑھنے سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے ہلاکت انگیز اثرات کے گرد گھومتی ہیں اور اس مجموعے میں بھی ایک درجن سے زیادہ کہانیاں اسی موضوع سے متعلق ہیں- میں سلمان بخاری نے جن موضوعات کو اپنی کہانیوں کا مرکزی عنوان بنایا ہے، اردو فکشن نگاری میں اُس مثال کم ہی ملتی ہے – جدید کہانی کے نام پر انہوں نے کہانی سے پلاٹ، کردار کو کہیں گُم نہیں ہونے دیا اور نہ ہی اپنی کہانی میں مقصدیت کو لیکر بھاشن گیری اور پمفلٹ بازی نہیں کی ہے-
اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے قاری کو سلمان بخاری کی کہانیوں کا لازمی مطالعہ کرنا بنتا ہے-
عکس پبلیکیشنز لاہور اس کتاب کو پاکستانی قاری تک پہنچانے کا انتظام کرنے پر مبارکباد کا مستحق ہے-
جو قاری اس کتاب کو پڑھنے کا خواہش مند ہو وہ درج ذیل نمبر پہ رابطہ کرسکتا ہے
یہ بھی پڑھیے:
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر