"کامریڈ عامرحسینی! میں نے آپ کی کتاب"کوفہ۔۔۔۔۔۔" پڑھی اور اس سے متعلق آپ کے فیس بک پہ شئیر کردہ لنکس پہ موجود مضامین اور تحقیقی مقالے اور تراجم بھی پڑھ رہی ہوں ۔
عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے وٹس ایپ پر ایک نوجوان بلوچ لڑکی کے وائس میسجز اکثر وبیشتر آتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ لڑکی بقول اس کے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے پہنچی تھی۔ اس کا پہلا وٹس ایپ وائس ایپ مجھے آج سے ڈیڑھ سال پہلے موصول ہوا تھا
"کامریڈ عامر حسینی! میرا نام ہانی بلوچ ہے۔ میں بی ایس او کی ممبر ہوں۔ کوئٹہ یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں ۔ میں نے آپ کی رپورٹس اور مضامین و انٹرویو ہفت روزہ "ہم شہری” لاہور میں پڑھنے شروع کیے تھے۔ میرا بھائی وہ میگزین لاتا تھا اور وہ مجھے آپ کی تحریریں پڑھنے کا مشورہ دیتا تھا۔ پھر آپ کو فیس بک پر میں نے تلاش کیا اور میری فیس بک آئی ڈی ۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ بلوچ قوم کا مقدمہ، ان کے مصائب اور مسائل پہ جتنی بے باکی اور ایمانداری سے لکھتے ہیں بندوبست پنجاب میں اس طرح سے لکھنے والے انگلیوں پہ گنے جاسکتے ہیں۔”
وہ بلوچ قومی حقوق کی تحریک میں اپنے جیسی خواتین کی شمولیت اور سیاسی عمل میں ان کی شرکت بارے بہت حوصلہ افزا وائس میسجز بھیجا کرتی تھی
"کامریڈ عامر حسینی! ہمارے نوجوانوں کے لیے سیاسی سرگرمیاں جرم بنادی گئی ہیں ۔ اور جو سرگرم ہوتا ہے اسے اور اس کے گھر والوں کے لیے بلوچستان میں زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ ہمیں ہر اس حربے کا شکار بنایا جاتا ہے جو پاکستان کے آئین میں غیر قانونی، اخلاقی نکتہ نظر سے غیر انسانی ہے۔ ایسے میں مجھ جیسی باشعور سیاسی خواتین کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم بلوچ لڑکیاں اور خواتین بلوچ قومی تحریک کا پرچم خود اٹھائیں اور سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ اب سڑکوں پہ اگر بلوچ مردوں سے زیادہ بلوج لڑکیاں نظر آتی ہیں تو اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر نوجوان مرد سیاسی کارکن، شاعر، ادیب بلوچ قومی تحریک کا ہر اول دستہ بننے کے سبب یا تو ماورائے عدالت قتل کردیے گئے ہیں ۔ یا ان کو جبری گمشدہ بنادیا گیا ہے۔ بلوچستان ویسے تو ساری بلوچ قوم کے لیے ایک بڑا قید خانہ بن چکا ہے لییکن ہمارے بلوچ باشعور مزاحمتی سیاسی کارکنوں کے لیے یہ قید خانے سے بڑھ کر قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہم بلوچ عورتیں میدان عمل میں نکل آئی ہیں اور روز بروز ہماری تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آپ اس سماجی فعالیت پہ مبنی بلوچ خواتین کے کرداروں کا جائزہ لیں اور اس پہ کچھ لکھیں تو مجھے وٹس ایپ ضرور کیجئے گا۔”
"کامریڈ عامرحسینی! میں نے آپ کی کتاب”کوفہ۔۔۔۔۔۔” پڑھی اور اس سے متعلق آپ کے فیس بک پہ شئیر کردہ لنکس پہ موجود مضامین اور تحقیقی مقالے اور تراجم بھی پڑھ رہی ہوں ۔ شیعان علی ابن ابی طالب کی جو وجودی حالت آپ نے بیان کی مجھے لگتا ہے کہ جیسے آپ بلوچ قوم کا المیہ لکھ رہے ہیں ۔ ہمیں زبردستی کی داخلی اور بیرونی ہجرتوں کا سامنا ہے۔ ہمارے نوجوان بلوچ قومی شناخت پہ اصرار اور اپنے حقوق کی مانگ کے جرم میں ہر روز ایک نئی کربلا کا سامنا کررہے ہیں اور آپ آج وہی کردار ادا کررہے ہیں جو تاریخ کی عوامی تشریح کرنے کے لیے شیعان علی ابن ابی طالب کی تاریخ مدون کرنے میں ابو مخنف اور نصر بن مزاحم نے کیا تھا۔”
"کامریڈ عامر حسینی! کریمہ بلوچ پہ آپ کی لکھی پوسٹیں میں نے پڑھیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ بلوچ خواتین کے سیاسی ایکٹوازم سے موجودہ پاکستانی رجیم اور اس کی خدمت پہ مامور انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بہت پریشان ہیں ۔ وہ ہمارے ہاتھوں میں پکڑے پوسٹرز، ہمارے سڑکوں پہ لگائے جانے والے نعروں سے ہی خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ وہ تو ہمارے "رونے”، "گریہ” سے بھی سخت پریشان ہیں ۔ اور وہ ایسے طریقے اختیار کررہے ہیں جس سے ہم خوفزدہ ہوکر گھر بیٹھ جائیں ۔ لیکن ان کے یہ حربے ہمارے عزم پہ اثر انداز نہیں ہوسکتے۔”
"کامریڈ عامر حسینی! میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں، مجھ سمیت کئی نوجوان طالبات کو سادہ لباس والوں کے تعاقب کا سامنا ہے۔ میرے ساتھ دو احتجاجی مظاہروں کے دوران "جنسی ہراسانی” کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ایک موقعہ پر دوران احتجاج جب کوئٹہ پولیس بلوچ طلباء پہ لاٹھی چارج کررہی تھی اور ان پہ تشدد کرتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا جارہا تھا تو میں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی کوشش کی تو ایک مرد پولیس اہلکار نے میرے سینے پہ ہاتھ مارنے کی کوشش کی جسے میں نے بمشکل ناکام بنایا اور ایک اور موقعے پہ پیچھے سے کسی نے میرے ہپس زور سے چٹکی بھری اور میں نے چیختے ہوئے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک ہٹا کٹا سادہ لباس میں آدمی پیچھے بھاگتا نظر آیا اور تھوڑی دیر بعد میں نے اسے گرفتار طلبا سے بھری وین کے پیچھے پائیدان پہ لٹکا ہوا دیکھا۔ کچھ دنسے میرے وٹس ایپ پہ کچھ بے ہودہ قسم کے میمز اور اینی میٹڈ وڈیو کلپس بھیجے جارہے ہیں جو میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ مجھے جبری گمشدہ بلوچ طالب علموں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے والی طالبات نے بتایا کہ اپنے بھائیوں کی بازیابی کے دوران احتجاجی مظاہروں کے دوران انھیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ہمارے سینئرز نے فیصلہ کیا ہے کہ نوجوان اور بزرگ بلوچ مرد اور بزرگ خواتین ہم نوجوان طالبات کے گرد حصار بناکر رکھے گے تاکہ ہمارے ساتھ کوئی بے ہودگی مظاہروں کے دوران نہ ہونے پائے۔ "وہ” ہمارے عزم کو توڑ نہیں سکتے۔ ہم ہراسانی سے گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنے والی ہیں”
"کامریڈ عامر حسینی! یونیورسٹی میں ٹآئلٹس تک میں خفیہ کیمروں کا نصب کیا جانا،اس بات کا ثابوت ہے کہ بلوچ طالبات کی سرگرمیوں سے بوکھلا کر "انھوں” نے "میل شاؤنزم” اور "سیکس ازم” کو ہمارے خلاف بطور ہتھیاراستعمال کرنے کی ٹھان لی ہے۔ کچھ بکاؤ ملاں اور نام نہاد "بلوچ غیرت” کے پاسدار بننے والے بلوچ بھی ہمارے خلاف رجعتی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوئے ہیں۔ ہم میں سے جن طالبات کا تعلق زرا قدرے قدامت پرست گھرانوں سے ہے یا ان کے آبائی گاؤں میں بہت ذہنی پسماندگی ہے وہاں پہ شرانگیز پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور غیرت کے نام پہ ہمارے قتل کی سازش ہورہی ہے۔ ہم میں سے کئی لڑکیوں کے گھر والوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو کالج اور یونیورسٹی سے واپس بلالیں۔ ہمیں کئی محاذوں پر بیک وقت لڑنا پڑ رہا ہے۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جو صورت حال ہے اس پر سنسر اور کنٹرول کے آہنی پردے ڈال دیے گئے ہیں۔ اور ہمارا مقدمہ بری طرح سے مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
"کامریڈ عامر حسینی! سانجھ میں مشرقی بنگال اور بنگلہ دیش بارے میں نے آپ کے مضامین پڑھے ۔ جوگندر ناتھ منڈل کے خط کا ترجمہ اور آپ کے پر اضافی نوٹس کا مطالعہ کیا۔ آپ سمیت میں درجن بھر لوگوں کی تحریریں پڑھ کر سوچتی ہوں کہ پنجاب میں عوام اس پہ وہ ردعمل کیوں نہیں دیتے جس کی ہم توقع رکھتے ہیں۔ جن گھروں سے "انھوں” نے ایف سی ، پاکستانی آرمی ، بلوچ لیویز، بلوچستان پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں لوگ بھرتی کیے ہیں کیا وہ اپنے ان بھرتی ہونے والوں سے نہیں کہتے کہ وہ روزگار کا کوئی زریعہ تلاش کرلیں، وہ بلوچ قوم کے خلاف کیوں استعمال ہورہے ہیں؟ "وہ” تو ان کو "پیدل سپاہیوں” کی طرح ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ ہمیں ہماری ہی سرزمین سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ ہماری شناخت اور بقا دونوں خطرات سے دوچار ہیں۔ کیا کبھی لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اسلام آباد،ملتان جیسے بڑے شہری مراکز میں بلوچستان پہ مسلط جنگ اور فوجی آپریشنوں کے خلاف ویسی شہری مزاحمت کا ظہور ہوگا جیسی ویت نام کے خلاف امریکی جارحیت کے دنوں میں امریکہ کے بڑے شہروں میں طالب علموں، مزدوروں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، اساتذہ اور اور اس جنگ میں پیدل سپاہی بننے والوں کے خاندانوں نے شروع کی تھی؟ کب تک پنجاب کے عوام اس دھوکے کا شکار رہیں گے کہ بلوچستان میں ان کے بھائی، باپ، چچا کسی مقدس مشن پہ گئے ہوئے ہیں؟ کب تک بلوچ قومی تحریک بارے وہ اسٹبلشمنٹ کے پروپیگنڈے کو درست سمجھتے رہیں گے؟”
"کامریڈ میں بیمار ہوں، اس لیے آپ کے گزشتہ پیغام کا جواب دینے سے قاصر رہی۔ زرا طبعیت سنبھلتی ہے تو آپ کو بتاتی ہوں کہ یہاں اب کیا چل رہا ہے۔”
یہ آخری وٹس ایپ پیغام تھا جو مجھے موصول ہوا۔ اور آج مجھے اس کی ایک دوست کا پیغام ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ہانی بلوچ، اب ہم میں نہیں رہی ، وہ سخت بیماری کی حالت میں میڈیکل کے طالب علموں کے احتجاج میں شریک ہوئی ۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے وہ بے ہوش ہوکر سڑک پہ گری، ایمبولینس میں وہ کوئٹہ سول ہسپتال پہنچائی گئی جہاں ہوش میں آئے بغیر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئی”
میرے پاس دکھ اور غم کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ خبرزیادہ ردعمل نہ دینے والی ہو لیکن میرے لیے یہ نہایت اندوہناک خبر ہے۔ اگر ہمارا سماج انسانوں کا سماج ہوتا تو آج اس واقعے پر ملک گیر ہڑتال ہوتی ۔ پورا ملک سراپا احتجاج ہوتا۔ لیکن کیا کریں ہم ماقبل انسان سماج میں جی رہے ہیں جس میں پہلی موت "احساس” کی ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر