سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا یہ نغمہ بڑا یاد آرہا ہے کہ ’’اچھے دن آئیں گے‘‘ ہمت کر میرے یار، اچھے دن آئیں گے‘‘ پاکستان کی عوام عمران خان اور عیسیٰ خیلوی کے وعدے پر اعتبار کرکے دھوپ میں کھڑی کھڑی اب تو سوکھ بھی گئی ہے لیکن مجال ہے کہ نگوڑے اچھے دن آئیں ہاں البتہ ایک چیز بڑے تواتر کے ساتھ عوام کو مل رہی ہے اور وہ ہے بڑی ہولناک خبریں جن کو پڑھ کر عوام کا دماغ ہی مائوف ہوجاتاہے اور وہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ظاہر ہے کہ جب 3برسوں میں 10اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 40جبکہ آمدن میں 18.75 فیصد اضافہ ہوا تو مہنگائی اور آمدن کے فرق سے عام شہری کا متاثر ہونا کوئی اچھنبے کی بات تو قطعاً نہیں لگتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی ساڑھے 34 فیصد کھانے پینے، 26.68فیصد کرائے، بجلی، گیس ، پانی کے بلوں اور 8.6فیصد کپڑوں اور جوتوں پر خرچ کرتا ہے اب ذرا عوام کے کھانے پینے اور یوٹیلٹی بلز کی شرح پر نظر ڈالیں تو سب حقیقت خودبخود کھل کر سامنے آجائے گی کہ عوام کے پاس خوراک اور یوٹیلٹی بلز کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں ہے کہ وہ اچھی صحت اور دیگر ضروریات کی طرف توجہ بھی دے پائیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے پاس تو اپنیMaintinance کے لئے بھی کچھ نہیں بچتا اور یوں انسان جوخود بھی کہ ایک مشین ہے اگر اس میں کوئی خرابی یعنی بیماری، دکھ، تکلیف آجائے تو وہ کیسے اپنے اخراجات کو پورا کرپاتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہے مگر طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ہمارے وزراء تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ایندھن کی قیمتوں میں 65فیصد اضافہ جبکہ حکومت نے صرف 16.3فیصد بڑھایا ہے اب کوئی ان ارسطو کے شاگردوں سے پوچھے کہ بھئی پہلے ہی عوام کی پوری نہیں پڑتی اور اب حکومت کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا تو عوام اس سے کیونکر اور کیسے نبردآزما ہوپائیں گے، اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے جس میں برملا کہا گیا ہے کہ عوام نے سب سٹینڈرڈ یعنی غیرمعیاری اشیاء خریدنا زیادہ شروع کردی ہیں۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس سے ان کی صحتوں پر انتہائی منفی اثرات پڑیں گے لیکن انہوں نے زندگی کی گاڑی بھی تو کسی نہ کسی طرح سے گھسیٹنی ہے اسی لئے تو اان کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ اشیاء کے معیار پر کمپرومائز کریں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور میں تو ہر 10کلومیٹر پر ہسپتال موجود ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ جنوبی پنجاب کے ہسپتال فنڈز کی کم دستیابی اور سہولیات کے فقدان کے باعث بیماریوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے دعویٰ کیاہے کہ انہوں نے اقتدار میں آکر 46ہزاربھرتیاں کی ہیںجبکہ مزید 26ہزار بھرتیوں کی ریکوزیشن پنجاب حکومت کو بھیجی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے سابق حکومتوں سے عرصہ دراز سے ان اسامیوں پر بھرتی نہ کئے جانے اور اس حوالے سے ملنے والے فنڈ کو کس مد میں استعمال کیاجاتاہے، بارے بھی سوال اٹھایا ہے جس کا جواب سابق حکومت یعنی مسلم لیگ ن کو ضرور دینا چاہیے تاکہ مثبت اور تعمیری تنقید کا رجحان معاشرے میں فروغ پائے اور عوام کو اصل اعدادوشمار بارے علم ہوسکے۔
حکومت کی دانست میں سب اچھا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر بھی آسکتے ہیں، خاص طورپر حکومت کے تاجر دشمن اقدامات سے 27 ستمبر کو وزارت خزانہ کے گھیرائو کی شنید ہے۔ ملتان میں آل پاکستان تاجر مشاورتی کنونشن میں ملک گیر شٹرڈائون کا اعلان اس لئے متوقع ہے کیونکہ تاجر بجلی بلوں پر اضافی ٹیکس کے لئے صدارتی آرڈیننس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کرتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ ہماری حکومت نے بجلی کے بلوں میں اضافے کو ہی فقط اپنی ذمہ داری سمجھا ہوا ہے۔اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے واپڈا، بجلی کی تقسیم کار اور جنریشن کمپنیوں کے ملازمین کو بجلی کی مفت سپلائی ختم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ یاد رہے کہ ملک میں ایک لاکھ 98 ہزار 222ملازمین 39کروڑ ایک لاکھ یونٹ مفت استعمال کررہے ہیں جبکہ رشتہ داروں کوبھی اس سے نوازا جارہا ہے جو کسی طور بھی غریب عوام پر کسی ظلم سے کم نہیں۔ مہنگائی کے زہرآلود کلہاڑے اس تواتر کے ساتھ برسائے جائیں گے تو عوام کس سے بہتری کی توقع رکھیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم کو دورہ لاہور کے موقع پر کچھ وزراء نے پنجاب میں بدترین مہنگائی بارے بتانے کی جسارت کی ہے لیکن شاید یہاں بھی معاملہ پیری فقیری والا ہے کہ عثمان بزدار پر کچھ خاص ’’رحمت‘‘ ہی ہے کہ وہ اپنی تمام تر خامیوں، کوتاہیوں کے باوجود اپنے عہدہ پر فائز ہیں کہ عوام مہنگائی سے مررہے ہیں لیکن خان صاحب کا راوی تاحال چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب خان صاحب اپوزیشن کے دنوں میں مہنگائی پر بڑا زوردار احتجاج کرتے تھے لیکن اب معاملہ اس کے قطعی برعکس ہے۔ عوام کی تو کسی کو کوئی پروا تک نہیں ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتا ہے لیکن مجال ہے کہ حکومت نے کبھی پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے بالخصوص اساتذہ کی حالت زار بارے جاننے کی کوئی زحمت بھی کی ہو کہ یہ بیگار کیمپ تو پہلے ہی عوام کو اجرت کے نام پر چند کوڑیاں دیتے ہیں اور اب کورونا کے دنوں میں کیا وہ ورکرز کو مکمل تنخواہ دے بھی رہے ہیں یا نہیں تو اس کا صاف سیدھا جواب یہی ہوگا کہ ڈیڑھ برس ہونے کو آیا ہے، نجی تعلیمی اداروں کو 50، 60فیصد سیلری پر ہی ٹرخایا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی میں 3برسوں میں 40فیصد اضافے کی رپورٹس شائع ہورہی ہیں تو ایسے میں غریب عوام کس طرح اپنی زندگی کے معاملات چلاتے ہوں گے، بارے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر ہمارے ہاں حکومتوں نے خود کو اس اہم ترین ذمہ داری سے بری الذمہ کررکھا ہے اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے۔ اب کوئی عوام کو یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ اس مایوسی کے حالات میں وہ کیا کریں کہ جب انہیں اچھے دن آئیں گے، کا نعرہ لگالگاکر 3سال تک تو بیوقوف بنالیا گیا ہے لیکن اب عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ بات یہاں دیگر معاملات کی جائے تو وہاں بھی کچھ اچھی خبریں سننے کو نہیں مل رہیں کہ نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ کی کر کٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حالات کے ستائے ہوئے عوام کو کچھ تفریح کے لمحات ملنے کی امید تھی کہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے دکھوں کو کچھ وقت کے لئے ہی سہی، بھول پائیں گے لیکن دونوں ممالک نے پاکستان کا دورہ کرنے سے ہی انکار کردیا جس سے عوام میں مایوسی مزید بڑھ گئی ہے کہ وطن عزیز کو Absolutely No اور افغانستان میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کی سزا دی جارہی ہے۔
عوام میں مایوسی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے کہ حکومت کسی طور بھی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کم کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وزراء کی فوج ظفر موج روزانہ لمبی لمبی پریس کانفرنسیں کرکے حسب روایت عوام کو بیوقوف بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اب کوئی حکمرانوں سے پوچھے کہ اپوزیشن کو لتاڑنے سے عوام کے پیٹ نہیں بھریں گے اور نہ ہی انہیں نوکریاں ملیں گی۔ تحریک انصاف بلاشبہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور اگر اب بھی اس نے حالات کے جبر کا شکار عوام کی مشکلات کا ادراک نہ کیا تو پھر معاملہ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت والا ہو۔ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کو مینڈیٹ اپنے مسائل کے حل کے لئے دیا تھا لیکن اب خان صاحب بھی عوام نامی مخلوق کو سرے سے ہی پہچاننے سے انکاری ہیں جس کے باعث معاملات ہر گزرتے دن کے ساتھ تلخ تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تنازعات کے ساتھ عوام سے جڑے ایشوز کے حل کیلئے بھی اپنی ذمہ داریاں محسوس کرے۔ ویسے یہ عوام کی بدقسمتی نہیں تو اور کیاہے کہ پاکستان میں اپوزیشن ہمیشہ عوام کی بجائے مفادات کے لئے آواز بلند کرتی ہے اور احتجاج، احتجاج کا ڈرامہ رچاکر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت سے عوام بیزار نظر آتے ہیں کہ جب کوئی نظام انہیں ڈلیور ہی نہ کرسکے تو پھر ایسے دستور کو ایسے منشور کو وہ (عوام) نہیں جانتے، وہ نہیں مانتے!!
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر