حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی عرض کیا جارہا تھا کہ افغانستان میں آئی حالیہ تبدیلی کے حوالے سے جذباتی ہونے اور یہ تاثر دینے کی ضرورت نہیں کہ
’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔
ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں لیکن اس کا کیا کریں کہ ہمیں ہواوں سے لڑنے کا شوق ہے۔ دو دن اُدھر پاک افغان سرحد پر طورخم کے مقام پر افغان حدود میں امدادی سامان لے جانے والے پاکستانی ٹرک کا ’’معاملہ‘‘ ویڈیو کے ذریعے وائرل ہوچکا۔ لاکھ جواز تلاش کیجئے اور قصوں سے جی بہلایئے سچ یہی ہے کہ اس واقعہ سے کروڑوں پاکستانیوں کے دل دُکھے۔
کسی دن ہمارے پالیسی سازوں خصوصاً جو خود کو پاک افغان پالیسی کا ’’مغل اعظم‘‘ سمجھتے ہیں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ افغان پالیسی نے ہمیں دیا کیا۔
ہمارے پشتون قوم پرست ایک کہانی سناتے ہیں مسلم پشتون ولی کے علمبردار دوسری، ریاست تیسری کہانی ہمارے گلے ڈالتی ہے۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔
ہمارے ہاں آج تک یہ طے نہیں پاسکا کہ افغان مہاجرین واپس کیسے جائیں گے۔ اچھا وہ واپس کیا جانے ہیں اب تو مزید کی آمد متوقع ہے۔ کیا ہم مزید بوجھ اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
یہ سوال اہم ہے ضمنی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہماری ہر دور کی افغان پالیسی سے ایک طبقہ خوش اور متعدد ناراض رہتے ہیں۔ خوشی اور ناراضگی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ چلیں گڑھے مردے نہیں اکھیڑتے لیکن یہ جو طورخم پر افغان حدود میں امدادی سامان لے جانے والے ٹرک کے ساتھ ہوا یہ سب کیا ہے؟ افغان حکومت سے باضابطہ رابطہ کرکے وجہ دریافت کی گئی؟
وزیراعظم نے جو بات گزشتہ روز کہی کہ ’’عبوری افغان انتظامیہ میں تمام دھڑے شامل نہ ہوئے تو خانہ جنگی کا خطرہ ہے‘‘۔ یہی ہم روز اول سے ان سطور میں عرض کررہے ہیں۔ ان معروضات پر اسلام پندوں کے ساتھ محب وطن”مہربان” بھی ناراض ہوئے۔ کیا محض "مہربانوں” کی ناراضگی کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلی جائے۔ غالباً یہ درست عمل نہیں ہوگا۔
ہمیں اپنے لوگوں کو صاف سیدھے انداز میں اعتماد میں لینا چاہیے۔ مگر اس سے قبل یہ بھی سمجھ لیا جانا چاہیے کہ اگر افغانستان کی عبوری حکومت کے ذمہ داران دوحا معاہدہ کی شرائط پر عمل نہیں کرتے تو مسائل جنم لیں گے۔
یہ مسائل افغانستان کی داخلی صورتحال کو ہی متاثر نہیں کریں گے بلکہ پڑوسیوں میں سب سے زیادہ ہم متاثر ہوں گے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری افغان پالیسی وسیع اور طویل المدتی مفادات پر کبھی استوار نہیں ہوئی۔
انقلاب ثور سے آج تک ہمیشہ ڈنگ ٹپاو حکمت عملی سے کام لیا گیا نتیجہ ایک فریق خوش اور متعدد ناراض۔ مثلاً کبھی ہمارے پسندیدہ افغان مجاہد، گل بدین حکمت یار ہوا کرتے تھے ان کی اندھی محبت میں ہم نے احمد شاہ مسعود اور دوسروں کو ناراض کیا۔ آگے چل کر جب گلبدین حکمت یار ہماری اولین ترجیح نہ رہے تو انہوں نے ہمارے بارے میں جن ارشادات عالیہ سے جی بہلایا وہ تاریخ کا حصہ ہیں ،
افغانستان کی عبوری انتظامیہ پر اس وقت چار بڑے اعتراضات ہورہے ہیں۔
اولاً یہ کہ دوحا معاہدہ سے انحراف کیا جارہا ہے۔ ثانیاً خواتین سے غیرمساویہ برتاو کیا جارہا ہے اور بچیوں کے سکول بند ہیں۔ ثالثاً انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جارہا۔ شہری آزادیوں یعنی قابل قبول جمہوری عمل کی بجائے ایک گروہی حاکمیت اعلیٰ کا تصور پختہ ہورہا ہے۔ رابعً وعدے کے مطابق وسیع البنیاد افغان عبوری حکومت قائم نہیں کی گئی اسی لئے عبوری حکومت پر یک نسلی بالادستی کے اعتراٗضات ہورہے ہیں
ان اعتراضات کو دیکھ سن کر وہ عظیم اسلامی دانشور یاد آرہے ہیں جو کسی زمانے میں پاکستانی سیاست کے ووٹوں کی جمع تقسیم سے یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ پیپلزپارٹی 33سے 35فیصد لوگوں کی نمائندہ ہے، 65سے 67فیصد لوگ اس کے مخالف ہیں۔ ان عظیم اسلامی دانشوروں میں سے بعض اب بھی نہ صرف حیات ہیں بلکہ عبوری افغان انتظامیہ کے پرجوش حامی ہیں۔ کیا اب ان کی خدمت میں عرض نہ کیا جائے کہ حضور افغان عبوری انتظامیہ سے باہر کھڑے افغان گروپ آپ ہی کے بنائے ہوئے حساب کتاب کے مطابق اکثریت میں نہیں؟
خیر اس جملہ معترٗضہ کو اٹھارکھئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر عبوری افغان انتظامیہ وہ سب نہیں کرتی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
ایک صورت تو وہی ہوسکتی ہے جس کی طرف افغانستان کے حوالے سے دنیا بھر کے تجزیہ نگار کہہ لکھ رہے ہیں ہمارے وزیراعظم نے بھی گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وہی بات کی ہے یعنی ’’عبوری انتظامیہ اور مستقبل کے مستقل نظام ہر دو کے وسیع البنیاد ہونے کا تاثر اجاگر ہونا چاہیے تاکہ خانہ جنگی کا دروازہ نہ کھلے۔
ہماری دانست میں ایک قدم آگے بڑھ کر عبوری انتظامیہ پر زور دینا چاہیے کہ وہ آبادی کے مختلف طبقات سے غیرمساویانہ سلوک بند کرے۔ اس امر کو یقینی بنائے کہ انتقال آبادی (مہاجرین) سے ہمسایہ ممالک پر مزید بوجھ نہ پڑے۔ ہم تو کسی بھی صورت مزید بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے بالخصوص اس صورت میں جب ہمارے یہاں یہ رپورٹس موجود ہوں کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران نچلے طبقوں (غربا) میں 2کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ اگلے روز افغان عبوری حکومت میں توسیع کے مرحلہ میں خواتین اور غیرمسلم برادریوں کی نمائندگی کا معاملہ پھر نظرانداز ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں، اس اور دیگر معاملات پر عبوری افغان حکومت کے ذمہ داران سے بات چیت ہورہی ہے۔
منگل کو عبوری افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ عبوری حکومت میں تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری کو نمائندگی دے دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایک کرکے وعدے پورے کررہے ہیں، دنیا ہمیں نظرانداز کرنے کی پالیسی ترک کرکے تسلیم و تعاون کی حکمت عملی اپنائے۔
ذبیح اللہ مجاہد کے بقول توسیع کے عمل میں پنجشیر اور بغلان کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔
اب چلتے چلتے دو تین اہم خبریں پہلی یہ کہ نیپرا نے بجلی کے فی یونٹ نرخ میں 2روپے 7پیسے اضافے کی سمری بھجوادی ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ سرکاری سبسڈی پر چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف اشیاء کی قیمتوں میں 2سے 10روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ تیسری اور آخری خبر یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان برقرار ہے۔ منگل کو بھی سرمایہ کاروں کے 96ارب روپے ڈوب گئے۔ تین اوسان خطا کردینے والی ان خبروں سے آگے بڑھتے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی (اس میں دونوں ایوانوں کے نمائندے شامل ہوں گے) بنانے کیلئے اتفاق رائے ہوگیا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر