سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں حکمران جماعت پی ٹی آئی پہلے نمبر پر رہی لیکن ملتان میں اس کی جو درگت بنی وہ پارٹی کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب 2018ء کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان نے سب سے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کو دے کر یہاں پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو ناک آئوٹ کردیا ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے کوششیں کرتیں مگر افسوس کہ پارٹی بالخصوص ملتان ڈویژن میں پی ٹی آئی کی دھڑے بندیاں اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہیں لیکن پارٹی قیادت کے لئے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ ملتان میں پی ٹی آئی ایک ایسے وقت میں ہاری ہے کہ جب پارٹی کے وائس کپتان کا تعلق خود ملتان سے ہے۔ شاہ محمود قریشی یوں تو بڑے قدکاٹھ کے سیاستدان ہیں لیکن ان کے اختلافات کی خبریں سن کر ایسا لگتا ہے کہ وہ سوائے خود سےسب سے ناراض ہیں اسی لئے تو وہ جب بھی ملتان ا ٓتے ہیں اپنے گروپ کے لوگوں سے ملاقاتیں کرکے یہ چل وہ چل کا سا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی قیادت کنٹونمنٹ بورڈ کے نتائج پر مطمئن ہے تو اسے بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی عوام دشمن پالیسیوں سے تو عوام نالاں ہی ہیں لیکن ایک بات جو پارٹی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنی چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملتان میں کنٹونمنٹ الیکشن میں وہ ایک بھی نشست حاصل نہیں کرپائی جبکہ باقی شہروں میں قدرے بہتر پرفارم کیا ہے۔ اسی طرح بائی الیکشن کے نتائج بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ اقتدار میں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کئی اہم الیکشن ہار چکی ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیئرمین پارٹی اپنی جماعت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے لیکن شاید خان صاحب کو حکومتی کارکردگی کی طرح یہاں بھی سب اچھا کی ہی رپورٹ دی جارہی ہے تبھی تو عوام کی درگت اس حقیقت اور اعتراف کے باوجود بن رہی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی جنوبی اشیا کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ بلاشبہ عوام نے اقتدار پی ٹی آئی کو اس لئے دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا بھی ازالہ کرے گی لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ وہ بھی پچھلی حکومتوں کے نقش قدم پر چل نکلی اسی لئے تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ملتان سے پوری کی پوری پی ٹی آئی اس حقیقت کے باوجود ہار گئی کہ یہاں اس کے بڑی تعداد میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ بڑے بڑے عہدے رکھنے والے موجود ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں اپنی شکست کا جائزہ لے گی تو اس کا صاف سیدھا جواب تو یہی بنتا ہے کہ اصولی طورپر ہر جماعت کو وقتاً فوقتاً اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے لیکن اگر پی ٹی آئی کی کنٹونمنٹ بورڈ میں شکست کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست کمزور تنظیم سازی اور جہانگیر ترین فیکٹر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ جہانگیر ترین ہی تھے جو نچلی سطح پر پارٹی ورکرزاور کارکنوں سے جڑے ہوئے تھے اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ پارٹی ورکرز کی بڑی تعداد نظرانداز ہونے پر پارٹی قیادت سے ناراض اور خفا ہے کہ اب ان کوپارٹی میں وہ عزت اور احترام نہیں مل رہا جو کبھی جہانگیر ترین دیا کرتے تھے یہی نہیں بلکہ پارٹی چونکہ ہر شہر میں دھڑوں اور گروپوں میں بٹی ہوئی ہے اس لئے کوئی پارٹی کوجتوانے کی بجائے صرف اپنے گروپ کے لئے کام کرتا ہے۔ ملتان میں پی ٹی آئی کی تنظیم سازی جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انہیں عوام اور پارٹی دونوں سے چونکہ کوئی لینا دینا نہیں ہے اسی لئے تو پی ٹی آئی ملتان بے بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ ادھر ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی بات نہ کی جائے تو بڑی زیادتی ہوگی۔ پارٹی چیئرمین عمران خان جو اب ملک کے وزیراعظم ہیں، یقیناً بہت مصروف رہتے ہیں اس لئے ان کی توجہ پارٹی معاملات پر زیادہ نہیں تو مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہورہا کہ کسی دوسرے کو بھی پارٹی معاملات کی کچھ زیادہ فکر نہیں جس کی ایک بڑی وجہ 2018ء کے عام انتخابات ہیں۔ پارٹی میں الیکٹیبلز در آئے جس کی بنا پر پارٹی کے دیرینہ اور مخلص کارکن نظرانداز ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پارٹی کو گراس روٹ لیول پر مضبوط کیا اور پھر جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو پارٹی میں گھس بٹھیے بڑی تعداد میں آگئے۔ حالانکہ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی اس لئے اگر وہ مخلص پارٹی ورکرز کو ٹکٹ دیتی تو لوگوں نے بلے پر ٹھپہ لگادینا تھا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اب عمران خان خود بھی اس بات کا کئی مرتبہ اعتراف کرچکے ہیں کہ الیکٹیبلز کے چکر میں نہ صرف انہوں نے کئی ہیرے گنوائے بلکہ پارٹی کو بھی اس پالیسی سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
یہاں یہ بات پی ٹی آئی کی ملتان میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں شکست کی ہورہی تھی کہ کہیں تو پی ٹی آئی قیادت سے کوئی سنگین غلطی ہورہی ہے۔ اگر کوئی مہنگائی کو پی ٹی آئی کی شکست کی وجہ قرار دیتا ہے تو کوئی زیادہ غلط بھی نہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ مہنگائی صرف ملتان میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہے تو صرف ملتان میں پی ٹی آئی کو بدترین شکست کیوں ہوئی تو جناب آپس کے اختلافات اور دھڑے بندیوں کے علاوہ گراس روٹ لیول پر پارٹی کو مضبوط نہ کرنا بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب جس بڑے قد کاٹھ کے مالک ہیں انہیں اب اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر پارٹی کی تنظیم سازی کی طرف توجہ دینی چاہیے لیکن وہ تو اپنی ’’میں‘‘ کے خول سے باہر دیکھنے کو بھی تیار نہیں جس کا سراسر پارٹی کو نقصان ہورہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسحاق خاکوانی کی پی پی میں شمولیت کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں جبکہ نور خان بھابھہ کے بھتیجے اور بھائی کی کی پی پی میں شمولیت سے پارٹی کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد سینیٹر عون عباس بپی کوجنوبی پنجاب میں اہم عہدہ مل گیاجو ہر لحاظ سے ایک اچھا فیصلہ ہے اس لئے کہ عون عباس بپی ایک Committed نوجوان ہے جو پارٹی کے ساتھ شروع سے کھڑا رہا ہے اور عمران خان کا ایک وفادار ساتھی ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر اختر ملک، عامر ڈوگر، احمد حسن ڈیہڑ سمیت دیگر اگر آج ہی اپنے ذاتی اختلافات ختم کرکے پارٹی کی مضبوطی اور کامیابی کے لئے کمر کس لیں تو آنے والے الیکشن میں 2018ء کی تاریخ دہراسکتے ہیں اور اگر پارٹی میں انتشار کی سی کیفیت برقرار رہتی ہے تو عمران خان جنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو فوری بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے اچھے کردار کے حامل امیدواروں کی تلاش شروع کرنے کا کہا ہے، کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انتشار اور لڑائی جھگڑے کی سی کیفیت میں پارٹی کی کامیابی ایک خواب ہی رہے گی بلکہ اگر ان حالات میں بلدیاتی الیکشن ہوتے بھی ہیں تو اس کے نتائج ثابت کریں گے کہ بلدیاتی الیکشن ایک بڑی خودکشی ہوگی اور یقیناً تحریک انصاف ایسا بالکل بھی نہیں کرنا چاہے گی۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو بدترین مہنگائی کے باوجود کون لوگ ووٹ دے رہے ہیں اس کی تحقیقات کی جائیں اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ آئندہ بھی اقتدار میں آئیں تو یہ سمجھ لیں کہ انہیں جہانگیر ترین کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی یا پھر ان جیسے کسی متحرک اور مخلص رہنما کو پارٹی میں لائیں تاکہ اپنی خواہش کے مطابق اقتدار حاصل کریں۔ آئندہ الیکشن میں عثمان بزدار فیکٹر بھی پارٹی پر بڑی بری طرح اثرانداز ہوگا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی حیثیت سے عمران خان الیکٹیبلز کی بجائے پارٹی کے مخلص ورکرز کو وہ عزت و احترام سے نوازیں جس کے وہ حق دار ہیں اگر جنوبی پنجاب میں عون عباس بپی کو صدر بنایا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پارٹی کی تنظیم سازی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔ اسی طرح بہاولپور کا قلعہ اگر خان صاحب مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو اپنے شروع کے دنوں کے ورکرز عنایت کریم کو وہاں کا صدر بنادیں تاکہ وہ ابھی سے آئندہ انتخابات کی تیاری شروع کردیں۔ یہی نہیں بلکہ ابھی سے ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹوں کے لئے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیں تاکہ وہ لوگ ابھی سے آئندہ الیکشن کی تیاری شروع کردیں۔ وقت آگیا ہے کہ خان صاحب اپنے پرانے اور مخلص ساتھی کارکنوں کو ان کا جائز مقام دیں تاکہ پارٹی کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کردیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر