سید حسن محمود گیلانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ۳ الفاظ اپنے اندر ۳ کہانیاں سموئے ہوئے ہیں جنکو اگر ماضی سے حال تک دیکھا جائے تو یہ کہانیاں مستقبل کی کچھ پیشن گوئیاں تک کرسکتی ہیں۔ خیر وہ تو ہر پڑھنے والے کی اپنی صوابدید پر ہے، چلئے ان کہانیوں کا اختصار کے ساتھ اعادہ کرتے ہیں۔
پہلی کہانی میں ایک پرچی دی جاتی ہے مالک سیاہ و سفید کو کہ وہ ایک برخوردار کو اپنی چھتر چھایا میں لے لیں اور وہ پرچی چل بھی جاتی ہے، پھر شروع ہوتا ہے ایک سفر۔وہ سفر جو ان برخوردار کو لے جاتا ہے اقتدار کی اونچائیوں تک مگر چونکہ سفر کا آغاز ہی ایک پرچی سے ہواتو جب بھی کوئی امتحان کا پرچہ سامنے آیا تو اس برخوردار نئی سے نئی پرچی ہی ڈھونڈنے پر زور رکھا۔
اب تربیت جیسی ہوئی اس سے اور کچھ سیکھا ہویا نا، اتنا ضرور سیکھا کہ بندے کامحسن کا احسان مند کے بجائے محسن کش ہونالازم ہے۔سکھانے والوں نے نہ چاہتے اور نہ جانتے یہ وصف بھی جناب کی سرشت کا حصہ بنا بیٹھے۔، وہ جو کہتے تھے کہ یہ ہمارے ہاتھ کا بنا ہے،انکے ہی پر کاٹ ڈالے جیسے ہی صاحب سیاہ سفید ہوا میں تحلیل ہوئے۔ معاملات یونہی چلتے رہے اور کیا قسمت پائی کہ بارہا تخت سے تختہ دار تک پہنچے مگر پھر پرچی چل گئی مگر جناب اپنی عادت سے نہ گئے۔اس بار بھی محسن کے احسانات کو بھلاکر اس کے خلاف سینہ سپر ہوئے اپنے مفاد کو مگر ہائے رے کہ کچھ سیکھا ہوتا۔
نتیجہ پھر وہی کہ ابھی ماضی قریب میں پھر اپنا ماضی ایک بار دہرایا بیٹھے تو اچانک خیال آیا کہ پرچی تو ایک اور بھی ہوتی ہے جس پر ٹھپے لگتے ہیں تو جناب کی تو پھر سے نکل پڑی اور اس پرچی کو بنیاد بنا کر ایسا پرچہ حاصل کیا کہ نہ صرف قفس سے آزادی پائی بلکہ جو زبان گنگ تھی، وہ بھی تمام حدیں توڑ کر بولنے لگی مگر اب بھی زبان میں گردان میں کی ہی ہے۔
تو آج بھی وہ ایک پرچی کے ہی انتظار میں ہیں، میرا قوی خیال ہے کہ اتنا پریچے کافی ہے۔اب اگلی کہانی کی جانب بڑھتے ہیں۔۔۔
یہ کہانی شروع ہی ہوتی ہے ایک ایسے گھرانے سے جسکا سربراہ ایک اعزاز سے نوازا جاتاہے؛ ملک کے اولین کرپٹ افسران میں سے ایک۔ خیر پیسہ اتنا بنا چکا ہوتا ہے کہ اپنے برخوردار کو ایک پرچی پر بادشاہ گروں کے مکتب میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں بھی ہونہار بروا اپنے مزید ر عزیزان کی پرچیوں کی بدولت بادشاہوں کی سرزمین تک جا پہنچتا ہے اور کیا انکے رنگ میں رنگتے ہیں کہ واہ واہ۔ یہاں ایک اور بات بتاتا چلو ں کہ یہ جناب بھی پہلی کہانی کے مرکزی کردار کی طرح کی محسن کش خاصیت کے ربی مالک پائے جاتے ہیں بلکہ ایک ہاتھ آگے بلکہ پاوٗں کہ جناب پیچھے مڑ کی کمانڈ کے رسیا بھی شروع سے ہی رہتے ہیں۔ اپنی باپ کو تو کو جو سو نفرت کرتے رہے، جن جن نے مدد کی انکی، ان سب کو کام نکلنے کی بعد قابل مذمت و کدورت بھی پایا۔
کہانی آگے بڑھتی رہتی اور ایک دن قسمت ایسی کھلتی ہے کہ قوم بوجہ ملک مگر اصل میں ہجوم بشکریہ بوہتے سگوں کا، کے یہ ہیرو بن جاتے ہیں۔عزت اور نوازات کی بارش اور ہمیشہ کی طرح بڑی بڑی ہانکتے ہیں، اب چونکہ پیچھے مڑ کی کمانڈ پر عبور حاصل تو ڈر کاہے کا۔ اپنی ہی ایک بڑ پر پیچھے مڑ کر آن کھڑئے ہوتے ہیں اور مزید بڑیں ہانکتے رہتے ہیں مگر یہاں شروع میں قسمت یاوری نہیں کرتی لیکن پھر ایک دن مالکان سیاہ و سفید کی نظر کرم ہوتی ہے۔
اور کیا نظر کرم ہوتی ہے کہ جو لائے تھے میدان میں، انکو ہی لتاڑ کر انکے میدان پر ہی قبضہ کرڈالتے ہیں اوریہ عادت ابھی بھی گئی نہیں۔پھر انکو سامنے لایا جاتا ہے پچھلی کہانی کے مرکزی کردار کے جسکے بھی کافی احسانات ہوتے ہیں مطلب جسکا کھانا اسکی گھر ڈھانا مطلب ان جناب کو گھر کا رستہ دکھانا، گھر بربادی کا دوسرا نام۔ سو مزید پیچھے مڑ کرکے مزید بڑی بڑی بڑیں مارتے انکو نجات دہندہ بتایا جاتا ہے اور پچھلوں کو کھڈے لین لگایا جاتا ہے سو یوں یہ ایک نئی ٹرافی سجا لیتے ہیں اپنی الماری میں۔ اب چونکہ یہ بھی پرچی ہی کی بدولت پلے، بڑھے اور آگے بڑھے ہوتے ہیں تو ارے صاحب نہ پوچھئے کہ کہاں کو کہاں ملاتے ہیں۔ یعنی کہ کوئی ایسا موقع چھوڑتے نہیں جب منہ کھلے اور میں میں کی گردان میں موسم، فلسفہ، جغرافیہ حتی کہ احترام انسانیت کو بھی مذاق نا بنے حتی کہ پرچے سے پڑھ کر بھی۔ اور تو اور اس سب پر بجائے پشیمانی کے جناب کی اردو میں آہ بکا کرنے والے اسکی خوبی بنا کر بتارہے ہیں۔ ہاں وہ جو تمام دعوے تھے جنا ب کے مہاتما بنائے جانے پر،ان تمام پر بھی صاحب مسند بننے پر پیچے پڑکی کمانڈ لگچکی ہے اور سلسلہ رکنے کا نہیں۔ میرا خیال ہے پریچے اتنا کافی ہے,!
تیسری اور آخری کہانی پر آنے سے پہلے کچھ اعادہ کرنا چاہوں گا آپکے لئے قارئین کہ کس طرح پرچی سے پرچہ اور پریچے کا آپس میں راست متناسب سا تعلق نکلاہے، اگلی کہانی میں تعلق یہی ہے مگر ترتیب الٹی ہوگئی۔ پریچے تو اس نوجوان کا اس دن سے بن چکا جب وہ اپنی ماں کی کوکھ میں تھا تب بھی اسکی ماں اور اسکو خطرے لاحق تھے لیکن وہ اپنے ماں اور اپنے باپ کی طرح بہادر ثابت ہوا۔ یہ بہادری ہو تو تھی کہ جب اسکے باپ کے سائے کو اس سے دور کرکے پابند سلاسل کیا گیااور وہ اپنی ماں کا ہاتھ تھام کر جعلی منصفوں کے در پر دھکے کھاتارہامگر ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتا تھاکہ کہیں ماں اکیلی نہ پڑجائے۔ اور ماں اسکی وہ جو دنیا میں بس ایک ہی، جسکی نظیر اب نہیں کوئی اور آگے بھی نہیں۔ کیا کیا ظلم نہ جھیلے باپ بھائی کے ناحق خون کا غم، شوہرسے جدائی کا غم۔۔۔یہسب کے غم اٹھائے،وہ انھی مالکان سیاہ سفید کے ساتھ نبرد آزما رہی، اپنے باپ اور پھراپنی ماں کی تربیت کے تلے اس نے ایسوں کو بھی ساتھ بٹھایا جو اسکی ہی کردار کشی کرتے رہے،جی وہی پہلی کہانی والے پرچی برخوردارہی۔
بات نکلے گی تو ہم واپس نوجوان کی طرف آتے ہیں جسکا پریچے آپ سے ہوگیا لیکن پریچے بہت جلدی ہوا کہ اسکی وہ قدآور ماں اس سے چھین لی گئی اور ایک بار پھر اسکو بہادری دکھانی پڑی۔ ایک بہت بڑے غم کاپرچہ وقت نے اسکے سامنے لاڈالا تھا مگر اس نوجوان نے نہ صرف اس غم کو سینے لگایا بلکہ وصیت کے پرچے کے ساتھ ساتھ خود کواسی آگ میں جھونک ڈالا جو کہ اب اسکی میراث تھی۔ باپ بوڑھا ہوگیا مگر آج بھی ڈھال کی طرح کھڑا ہے اسکے آگے مگر کبھی اسکے راستے کے آڑے نہیں آیا۔ اوہ یہاں بتانا بھول چلا تھا کہ اسکو وہ دوسری کہانی والے صاحب خودیا پھر اکژ اپنے اردو والے بھونپووں سے پرچی والا کہلوانا پسند ٍ فرماتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے پریچے کے لیئے کسی پرچی کا محتاج تھا ہی نہیں۔ اور اب تووہ اپنے پرکھوں کے پٹھریلے راستے پر چلتا چلتا خود اتنا مشاق ہوگیا ہے کہ وہ پرچی وہ ٹھپے والی پرچی پر بھی اپنے اجداد کا نام مزید ثبت کرارہا ہے، اصل وارث انکی میراث کا خود کو ثابت کرتے ہوئے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی نکلا تھا جان ہتھیلی پر رکھ کر مقبوضہ علاقوں میں اور دنیا گنگ رہ گئی جب سمندر امڈ پڑے اسکے لئے۔
ہاں تو قارئین یہ تھے ۳ لفظ اور ان سے جڑی ۳ کہانیاں اور اگر آپ اجازت دیں تو کچھ مشاہدہ بیان کرکے اجازت چاہوں گا۔ عنوان میں دئے ۳ لفظ اکسی سفر کا استعارہ محسوس ہوتے ہیں، پہلی دو کہانیاں اپنے کرداروں کی طرح شاید بس اپنے ختم شد پرپہنچنے کوہیں جبکہ تیسری کہانی کا مرکزی کردار تو وارد ہی ابھی ہواہے سو مستقبل اسکے ہاتھ میں ہے کہ کہاں تک وہ اپنے پریچے کو درست ثابت کرپاتا ہے۔ خیر یہ میری ناقص رائے ہے اور آپ آزاد ہیں اپنی رائے رکھنے میں لیکن بس احترام باہمی ضروری۔
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی