اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ صحرائے چولستان کے بارے میں ۔۔|| مہرین فاطمہ

پاکستان میں تین بڑے صحرا تھر ،تھل اور چولستان ہیں ۔چولستان بہاولپور کے جنوب میں 66لاکھ 55ہزار ایکڑ پر مشتمل دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جس کا طول 480کلومیٹر اور عرض 32کلومیٹر سے 192 کلومیٹر ہے

مہرین فاطمہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں تین بڑے صحرا تھر ،تھل اور چولستان ہیں ۔چولستان بہاولپور کے جنوب میں 66لاکھ 55ہزار ایکڑ پر مشتمل دنیا کا ساتواں بڑا صحرا ہے جس کا طول 480کلومیٹر اور عرض 32کلومیٹر سے 192 کلومیٹر ہے ۔مقامی لوگ اس کو ’’روہی ‘‘کہتے ہیں جبکہ تاریخ دانوں کے مطابق یہ ترکی زبان کے لفظ ’’چول ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’ریت ‘‘ کے ہیں.اور استن ، ایک فارسی لاحقہ ہے جس کا مطلب ہے "زمین۔”

یہ خطہ ایک عظیم تہذیب کا حامل تھا اور ماضی میں یہاں سے دریائے ہاکڑہ گزرتا تھا جسے پڑوسی ملک بھارت میں گھاگھرا کہا جاتاہے ۔ستم ظریفی دیکھئے کہ دریائے ہاکڑہ کی تہذیب مٹتی چلی گئی۔
چولستان وسیب کے بہاولپور ، بہاولنگر ، اور رحیم یار خان اضلاع میں 25،800 کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل ہے۔ قریبی بڑا شہر بہاولپور ہے جو صحرا کے کنارے سے 30 کلومیٹر دور ہے۔ صحرا کی لمبائی تقریباً 480 کلومیٹر ہے ، جس کی چوڑائی 32 سے 192 کلومیٹر کے درمیان ہے۔پودوں کے ناقص احاطے کی وجہ سے پورا علاقہ ریگستان کا شکار ہے جس کے نتیجے میں ہوا کا کٹاؤ ہوتا ہے۔ 480 کلومیٹر ہے ، جس کی چوڑائی 32 سے 192 کلومیٹر کے درمیان ہے۔پودوں کے ناقص احاطے کی وجہ سے پورا علاقہ ریگستان کا شکار ہے۔

چولستان میں 1970 کی دہائی میں 400 سے زائد ہڑپہ کے مقامات تھے ، 1990 کی دہائی میں مزید 37 کا اضافہ ہوا۔ چولستان میں بستیوں کی زیادہ آثار بتاتے ہے کہ یہ وادی سندھ کی تہذیب کے سب سے زیادہ پیداواری علاقوں میں سے ایک تھا۔ ہڑپہ کے بعد کے زمانے میں ، چولستان ثقافت کا حصہ تھا جو ہڑپہ ثقافت کی ایک زندہ علاقائی شکل کے طور پر پروان چڑھا جس کے بعد Painted Grey Ware کلچر تھا۔یہ علاقہ کارواں کی تجارت کا مرکز بن گیا ، جس کی وجہ سے قرون وسطی کے دور میں قلعوں کی تعمیر ہوئی – جس میں سے قلعہ دراوڑ بہترین محفوظ مثال ہے۔ چولستان کے دیگر بڑے قلعوں میں میر گڑھ ، جانگڑھ ، مروت گڑھ ، موج گڑھ ، ڈنگھ گڑھ ، خان گڑھ ، خیر گڑھ ، بزنٹ گڑھ اور اسلام گڑھ شامل ہیں ۔
یہ قلعے یونیسکو کے مقامی دستکاری اور ثقافتی ورثہ کی عارضی فہرست کا حصہ ہیں ، اور تقریبا 40 40 میل جنوب میں سندھ اور ستلج ندیوں کے متوازی چلتے ہیں۔ اس علاقے کے چھوٹے چھوٹے قلعوں میں باڑہ ، بھاگلا ، دوہین والا ، فالجی ، کنڈیرا ، لیرا ، مرید ، مچکی ، نونکوٹ ، اور پھلرا قلعے شامل ہیں۔ چولستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جانور پالنا ہے۔ اس علاقے میں مویشیوں کی کاشتکاری کے علاوہ روزی کے کچھ اور بھی مواقع ہیں۔ خاص طور پر اونٹوں کو چولستان میں ان کے گوشت اور دودھ ، نقل و حمل کے طور پر استعمال کرنے اور اونٹ رقص جیسی تفریح ​​کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چولستان میں اونٹ کی دو اقسام پائی جاتی ہیں: مرچھا ، یا مہرا ، نقل و حمل یا دوڑ/رقص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بیریلا دودھ کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اور فی جانور فی دن 10-15 لیٹر دودھ پیدا کر سکتا ہے۔ کاٹیج انڈسٹری کے ساتھ ساتھ دودھ کا گوشت اور چربی کے لیے علاقے کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ خانہ بدوش طرز زندگی کی وجہ سے لوگوں کی اصل دولت ان کے مویشی ہیں جو فروخت کے لیے پالے جاتے ہیں ، دودھ یا اپنی اون کے لیے کٹے جاتے ہیں۔ مزید برآں ، جیسے وہ الگ تھلگ تھے ، انہیں اپنی تمام ضروریات جیسے خوراک ، لباس اور روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کے لیے خود پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ لہذا ان کے تمام دستکاری شروع میں ضرورت سے پیدا ہوئے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا سامان دوسری جگہوں پر بھی برآمد کرنا شروع کردیا۔ صحرائی علاقوں میں مویشیوں کی متوقع تعداد 1.6 ملین ہے۔چولستان پاکستان کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت عمدہ قسم کی قالین کی اون پیدا کرتا ہے۔ اس اون سے وہ خوبصورت قالین ، قالین اور دیگر اونی اشیاء بناتے ہیں۔ اس میں کمبل شامل ہیں ، جو صحرا کی مقامی ضرورت بھی ہے کیونکہ یہ ہمیشہ دھول اور گرمی نہیں ہوتی ، لیکن یہاں سردیوں کی راتیں بھی بہت سرد ہوتی ہیں ، ۔ کھیس اور پٹو بھی اون یا روئی سے تیار کیا جاتا ہے۔ کھیس کمبل کی ایک شکل ہے جس میں سیاہ سفید کا میدان ہے اور پٹو میں سفید زمین کی بنیاد ہے۔ چولستان اب اون فروخت کر رہا ہے کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ منافع ہوتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کاٹن ٹیکسٹائل ہمیشہ سندھ وادی تہذیب کے ہنر کی علامت رہی ہے۔ مقامی کھپت کے لیے مختلف قسم کے کھدر کپڑے بنائے جاتے ہیں ، اور یہاں کھدر کے پلنگ کے کپڑے اور موٹے لنگیاں بنے ہوئے ہیں۔ صوفی نامی ایک خوبصورت کپڑا بھی ریشم اور روئی سے بنے ہوئے ہیں ، یا سوتی لپیٹ اور ریشم کی اون سے۔ گارگاس متعدد نمونوں اور رنگوں سے بنے ہیں ، جن میں پیچیدہ کڑھائی ، آئینہ اور پیچ کا کام ہے۔ اجرک چولستان کی ایک اور خاصیت ہے۔ یہ ایک خاص اور نازک کام ہے جو کپڑے کے دونوں اطراف انڈگو نیلا اور سرخ نمونوں میں بنیادی کپڑے کو ڈھانپتی ہے۔ کاٹن کی پگڑیاں اور شالیں بھی یہاں بنتی ہیں۔ چونری دوپٹوں کی ایک اور شکل ہے ، جس میں بے شمار رنگ اور نمونے ہوتے ہیں جیسے نقطے ، چوک اور حلقے وغیرہ یہ صحرا بے پناہ وسائل رکھتا ہے مگر ماضی کی حکمرانیوں نے عدم توجہی کا شکار بنائے رکھا اور یہ صحرا زندگی کو ترستا رہا۔
چولستانیوں کی بد قسمتی صحراجو اپنے دور میں جنت ارضی اب
۔پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے علاقہ بنجر قدیم کی منظر کشی کر رہا ہے پانی کی عدم فراہمی سے لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں یونیسیف رپورٹ کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح ریکارڈ حد تک کم ہو گئی ہے زیر زمین پانی مضر صحت اور زہر آلود ہو چکا ہے اس میں آرسینک کی ملاوٹ پائی جاتی ہے جیسے
اساں پانی پانی کرکرتے تھل چولستان وچ رل گے سے شالا پاکستان دی خیر ہووی تیڈے پاکستان وچ رل گے سے
ضرورت اس امر کی ہے کہ چولستان کو فوری طور پر ضلع کا درجہ دیا جائے اور بہاولپور ڈویژن میں شامل پورے چولستانی علاقے کو تین تحصیلوں شمالی جنوبی اور وسطی میں تقسیم کیا جائے مکمل چولستانی علاقے پر مشتمل نیا ضلع بننے سے چولستان کی صدیوں قدیم جغرافیائی شناخت بھی محفوظ ہوگی اور چولستانیوں کی پسماندگی ختم ہوگی اور علاقہ ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا چولستان کی تینوں تحصیلوں میں چولستانیوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہونگے چولستانیوں کو روزگارعلاج تعلیم پانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم ہوں گی صوبائی وقومی اسمبلی میں چولستان کا مقامی عوامی نمائندہ منتخب ہوکر جائے گا اورچولستان کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہوئے انہیں وہ تمام حقوق دلواسکے گا جو حقوق وزیرستان بلتستان بلوچستان پنجاب سندھ کشمیر پختونخواہ کے شہریوں کو بھی حاصل ہیں۔ چولستانیوں کی حکومت سے درخواست ہے کہ چولستان کی قدیم تہذیب وتمدن کلچر ،ثقافت ، پہچان اوربنیادی حقوق خطے کی ترقی وخوشحالی کے لیے چولستانی علاقے پر مشتمل نئے ضلع کا قیام سی پیک منصوبے سے منسلک کرکے چولستان ٹیکسٹائل سٹی ٹیکس فری زون کا قیام کیا جائے ،چولستان زرعی یونیورسٹی کا قیام کیا جائے۔چولستان آج بہاول پور ڈویژن کے کئی ضلعوں کی تحصیلوں میں بٹا ملک کا ایک ایسا علاقہ بن چکا ہے جہاں اشرافیہ کی لوٹ مار اور انتظامیہ کی کرپشن حکمرانوں کی بے حسی کے سوا کچھ نظرنہیں آئے گا چولستان ایک ایسی وادی جہاں دنیا بھر سے لوگ سیر تفریح کے لیئے آتے ہیں لیکن وہ اس کی حالت زار پر افسوس کرکے چلے جاتے ہیں جبکہ اسی چولستان سے منسلک بارڈرکے پار بھارتی حکومت نے راجھستان میں راجپوتانہ تہذیب کے قلعے ایسے محفوظ کررکھے ہیں جیسے آج بھی وہاں راجپوتانہ دورہولیکن بدقسمتی سے پاکستان میں چولستان سے امتیازی سلوک رکھا گیا۔
۔چولستان کے وسطی ویران بنجر رقبے کو آباد کرنے کے لیئے’’گریٹر چولستان کینال منصوبہ ‘‘ فوری طوربنایاجائے ۔کھیلوں کے فروغ کے لیئے چولستان سپورٹس کیمپلیکس کا قیام کیا جائے ۔کلچر فن وثقافت کے تحفظ وفروغ کے لیے ’’چولستان آرٹس کونسل ‘‘کا قیام کیا جائے ۔علم وادب کے تحفظ وفروغ کے لیئے ’’چولستان ادبی بورڈ ‘‘کا قیام کیا جائے۔صادق آباد سے فورٹ عباس تک ’’چولستان ہائی وے ‘‘روڈ کی تعمیر کی جائے ۔ناجائز الاٹمنٹ منسوخ کرکے شفاف طریقے سے میرٹ پر چولستانی زمینوں کی الاٹمنٹ کی جائے چولستان میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لیئے ’’چولستان واٹروے ‘‘ منصوبہ بنایا جائے ۔سیاحت کو فروغ دینے کے لیے چولستان کے تمام قلعہ جات اور درباروں کی تزین وآرائش اور انکے لیے مخصوص فنڈز مہیا کیے جائیں ۔جانوروں کے علاج کے لئے چولستان وٹرنری یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے ۔چولستان میں جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال کا قیام کیا جائے۔مارواڑی زبان کو چولستان کی مقامی زبان کا درجہ دیا جائے مارواڑی زبان کا مردم شماری فارم میں دیگر زبانوں کی طرح الگ خانہ بنایا جائے ۔شاہی والہ سے نواں کوٹ چولستان واٹر سپلائی منصوبہ کو فعال کیا جائے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں وسیب کے مخصوص حصے میں ’’چولستان ترقیاتی پیکج ‘‘ بھی منظور کیا جائے ۔چولستانی چکوک میں بھی واٹرفلٹریشن پلانٹس لگائے جائیں ۔تعلیمی اداروں میں چولستانیوں طلبہ کے لیے نشستیں مختص کی جائیں ۔۔۔۔

%d bloggers like this: