نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان طالبان کا نیا عبوری سیٹ اپ کیا پیغام دیتا ہے؟ ||عامر حسینی

افغان طالبان نے اسے عبوریی سیٹ اپ کا نام دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں دیگر فریقین اور عالمی برادری کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ مستقل سیٹ اپ کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر اب تک ابہام دور نہیں ہوسکا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

افغان امارت اسلامی (طالبان) نے اپنے عبوری سیٹ اپ کا اعلان کردیا ہے۔ ان میں نمایاں شخصیات مولوی محمد حسن اخوند وزیراعظم، مولوی عبدالغنی عرف ملّا بردار نائب وزیراعظم ، ملّا محمد یعقوب وزیر دفاع، مولوی سراج الدین حقانی وزیرداخلہ، مولوی خلیل حقانی وزیر برائے پناہ گزین، مولوی ہدائت اللہ بدری وزیر خزانہ،مولوی امیر خان متقی وزیرخارجہ،مولوی عبدالحق وثیق وزیر این ڈی ایس، شیخ مولوی نور اللہ منیر وزیر تعلیم اور مولوی رحمت اللہ نجیب نائب وزیر برائے نیشنل ڈائریکٹوریٹ برائے قومی سلامتی ہیں۔

 

افغان طالبان نے اسے عبوریی سیٹ اپ کا نام دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں دیگر فریقین اور عالمی برادری کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ مستقل سیٹ اپ کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر اب تک ابہام دور نہیں ہوسکا۔

 

عبوری سیٹ اپ میں افغان طالبان نے عورتوں کو نمائندگی نہیں دی ہے۔

 

نسلیاتی -ثقافتی (ایتھنسٹی) اعتبار سے 32 رکنی عبوری کابینہ میں صرف دو ازبک اور ایک تاجک ہے۔ جبکہ 29 اراکین پشتون افغان ہیں ۔

 

افغان طالبان کے اندر موجود حقانی گروپ اور دیگر طالبان کے درمیان پائی جانے والی تقسیم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس عبوری سیٹ اپ میں حقانی گروپ کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے۔

 

وزیراعظم مولوی محمد حسن اخوند، وزیر داخلہ سراج حقانی، نائب انٹیلی جنس چیف مولوی تاج میر محمد(ذبیج اللہ مجاہد)،وزیر برائے پناہ گزین مولوی خلیل حقانی، وزیر تعلیم مولوی نور اللہ منیر، نائب وزیر اعظم مولوی عبدالسلام حنفی،وزیر این ڈی ایس عبدالحق وثیق ،وزیر خاربجہ مولوی امیر خان متقی ، رحمت اللہ نجیب وزیر این ڈی ایس کا تعلق حقانی گروپ سے ہے۔

 

دیکھا جائے تو موجودہ عبوری کابینہ میں افغان طالبان کے سب سے سخت گیر گروپ جس کے پاس "خودکش بمبار تربیتی کیمپ” کی ذمہ داری بھی رہی ہے کو ایوان وزیر اعظم، داخلہ و خارجہ امور، انٹیلی جنس سیٹ اپ سونپ دیے گئے ہیں۔ جبکہ حقانی گروپ سے ہٹ کر عبوری کابینہ میں ملّا عمر کے بیٹے مولوی محمد یعقوب کے پاس وزرات دفاع ہے اور مولوی محمد یعقوب کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ ان کے ماتحت طالبان لڑاکوں میں ایک بڑی تعداد کالعدم لشکر طیبہ کے مجاہدین کی ہے۔

 

بتیس رکنی عبوری کابینہ میں شامل اراکین میں سے وزیراعظم مولوی محمد حسن اخوند سمیت اکثر طالبان کی عمریں پچاس سے 60 سال کے درمیان ہیں ۔ اور یہ سوویت یونین کے خلاف امریکی بلاک کی مدد سے تیار ہونے والے افغان مجاہدین کی دوسری صف کے لڑاکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق مولوی یونس خالص اور رسول سیاف کی تنظیموں سے رہا جو بعد ازاں تحریک طالبان کا ہراول دستہ بنے۔

 

عبوری کابینہ میں وزیراعظم سمیت اکثر اراکین پاکستان میں وفاق المدارس کے زیر اہتمام قائم دیوبندی مدارس میں پڑھے۔ اکثر کا تعلق پشاور کے دارالعلوم حقانیہ اور کراچی میں دیوبندی مدرسہ جامعہ بنوریہ سے رہا ہے۔

 

ان اراکین میں سے اکثر کا تعلق سوویت یونین کی حامی افغان سوشلسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے عرب، ازبک اور تاجک مجاہدین سے رہا جن میں مصر کی اخوان المسلمون کے مرشد عام سید محمد قطب کے عالمی جہادی نظریات سے متاثرہ مجاہدین شیخ اسامہ بن لادن، ایمن الازواھری ، مصعب الزرقاوی(عراق میں القاعدہ کےسربراہ) سے بھی رہا ہے۔

 

افغان امارت اسلامیہ کے عبوری کابینہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے نظریات دیوبند مدرسہ تحریک کے اندر ریڈیکل دیوبندی نظریات کے زیراثر ابھرنے والی ایک ایسی اسلامی بنیاد پرست عسکریت پسند تحریک سے جڑے ہیں جن میں تکفیری خیالات کی بدرجا اتم آمیزش ہے جو کسی نہ کسی سطح پر مشرق وسطی، افریقہ اور دیگر خطوں میں چلنے والی عالمی جہادی دہشت گرد تحریکوں سے ہم آہنگ ہیں۔

 

ڈپٹی انٹیلیجنس چیف تاج میر جواد عرف ذبیح اللہ مجاہد نے آج تک جتنے انٹرنیشنل زرایع ابلاغ کو انٹریوز دیے ہیں ان میں انہوں نے القاعدہ سمیت عالمی جہادی تنظیموں کو براہ راست دہشت گرد قرار دینے سے گریز کیا۔ آج کل ان کا موقف ہے کہ افغان طالبان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

 

عبوری کابینہ میں ایک طرف تو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے بہت قریب سمجھے جانے والے اراکین کی اکثریت ہے تو وہیں پر اس میں عباس ستنگزئی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ افغان طالبان کی طرف سے ہندوستان کے نمبرون سفارتی حلقوں سے بیک ڈور چینل مذاکرات کررہے ہیں۔  ہندوستانی زرایع ابلاغ بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں۔

 

امارت اسلامیہ افغانستان نے حیرت انگیزطور پر وادی پنج شیر کو اپنے زیرکنٹرول کرلیا ہے۔ اگرچہ احمد شاہ مسعود کا بیٹا اور سابق نائب صدر امر اللہ صالح دونوں پنج شیر سے باہر تھے۔

 

اس طرح دیکھا جائے تو افغان طالبان کو سردست  افغانستان کے کسی حصّے سے عسکری مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔

 

افغانستان کے دار الحکومت کابل میں عورتوں کے کچھ گروپ عورتوں کے حقوق کے لیے احتجاجی مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مظاہروں کو افغان طالبان اور ان کا حامی میڈیا اسلام دشمن مغرب زدہ کافروں اور گمراہ مسلمانوں کی سازش بناکر پیش کرتا ہے۔

 

ابھی تک افغانستان میں بسنے والی نسلی اقلیتیں ازبک، تاجک، ہزارہ جات اور ایسے ہی افغان مذہبی اقلیت جن میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت شیعہ ہیں جن میں اکثر نسلی اعتبار سے ہزارہ قبائل کی ہے ان کے ہاں خاموشی  ہے، تشویش ہے، فکر مندی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں افغان ہزارہ شیعہ نے یورپ، امریکہ، ایران اور پاکستان میں پناہ لے لی ہے۔

 

ایران میں شیعی مذہبی بنیاد پرست مولویوں کی حکومت ہے ۔ ایران کے نومنتخب صدر ایرانی حکمران شیعی ملائیت کے اندر پائی جانے والی اصلاح پسند اور سخت گیر کی تقسیم میں سخت گیر مولوی سمجھے جاتے ہیں جنھیں ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے-

 

تہران ٹائمز کے مطابق سوموار کو ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کے القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قآنی نے ایرانی پارلیمنٹ کے ممبران کو بند کمرے میں افغانستان کی صورت حال اور ایران کی پالیسی بارے ایک بریفینگ دی ۔ اس بریفینگ کے بارے میں میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں ایران نے افغان طالبان کے پنج شیر پر حملہ کرکے کنٹرول حاصل کرنے کی مذمت کی ہے۔ اور اس نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ پنج شیر کے تاجک نژاد افغان رہنما احمد مسعود سے مذاکرات کے زریعے معاملات طے کرے۔

 

تہران ٹائمز نے دعوا کیا ہے کہ ترکی، یو اے ای ، سعودی عرب افغان طالبان کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔  تہران ٹائمز نے یہ بھی دعوا کیا ہے کہ ایران القدس فورس کے سربراہ نے کابل ائرپورٹ کو آپریشنل کرنے میں ترکی، یو اے ای کے کردار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

 

ادھر ایرانی وزرات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ ایران چین، روس اور انڈیا کے ساتھ مل کر افغان طالبان پر نسلی و مذہبی اعتبار سے نمائندہ حکومت کے قیام اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کے لیے زور دینے کا انکشاف بھی کیا۔

 

ایرانی وزرات خارجہ کے ترجمان اور القدس فورس کے ترجمان کی طرف سے پاکستان کا نام مشترکہ کوششوں میں نہ لینے کو نوٹ کیا ہے۔ جبکہ ایرانی پریس میں افغانستان کے حوالے سے شایع ہونے والے تجزیوں میں پنج شیر پر افغان طالبان کے کنٹرول میں براہ راست پاکستان پر الزام عائد کیا جارہا ہے۔

 

ایران نے افغان طالبان کی طرف سے اعلان کردہ عبوری سیٹ اپ پر براہ راست کوئی سرکاری طور پر ردعمل نہیں دیا ہے۔

 

ایرانی وزرات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں افغان طالبان کو ریڈ لائن کراس کرنے سے گریز کرنے کو کہا ہے۔ انھوں نے افغان طالبان پر زور دیا کہ افغانستان میں نسلی و مذہبی اعتبار سے ایک نمائندہ حکومتی سیٹ اپ قائم کرے۔

 

آج آٹھ ستمبر 2021ء کو اسلام آباد میں افغانستان کے مسئلے پر ایک کانفرنس ہورہی ہے جس میں ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمآغندے شریک ہوں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کانفرنس کی صدارت کریں گے۔  امکان ہے کہ پاکستانی حکام ایرانی حکام کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

افغان عبوری کابینہ کا اعلان پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کی قیادت میں افغانستان کے دورے کے فوری بعد ہوا ہے اور کابینہ میں حقانی گروپ کی اکثریت اور ان کے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ مبینہ روابط کو لیکر ہندوستانی پریس میں کافی تنقید ہورہی ہے۔

 

پاکستان میں امریکی لبرل پریس اسٹبلشمنٹ میں جوبائیڈن کابینہ کی افغان پالیسی سے غیر مطمئن نظر آنے والے عناصر کے قریب سمجھے جانے والے لبرل تجزیہ کاروں کی طرف سے بھی افغان طالبان کی طرف سے اعلان کردہ عبوری کابینہ کی تشکیل پر سخت تنقید ہورہی ہے۔

 

امریکی لبرل عقابی سیکشن کے قریب سمجھے جانے والے سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی، فرائیڈے ٹائمز ویکلی کے ایڈیٹر نجم سیٹھی ، لبرل تجزیہ کار احمد رشید نے بھی اس کابینہ پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کے خیال میں یہ اعلان افغانستان میں عورتوں کی آزادی ، نسلی و مذہبی گروپوں کے حقوق کے لیے سرگرم انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے بری خبر ہے۔

پاکستانی پشتون لبرل کا ایک سیکشن جس کی قیادت اس وقت افراسیاب خٹک، بشری گوہر اور ایم این محسن داوڑ کررہے ہیں کی طرف سے افغان طالبان کی نئی پیش رفت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سیکشن کے خیبرپختون خوا کی پرانی لبرل پارٹی عوامی نشینل پارٹی سے بھی اختلافات بہت واضح ہیں ۔ اس سیکشن نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان کے نام سے ایک نئی پارٹی تشکیل دی ہے جو عوامی نیشنل پارٹی سے اس کے فاصلے کی غماز ہے۔

 

محسن داوڑ نے دی نیوز انٹرنیشنل میں اپنے تازہ مضمون میں افغان طالبان کی واپسی کو براہ راست امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے اور اس کے نتیجے میں امریکی فوج کے انخلا کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اور امریکہ کے اس عمل کو دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن کی حثیت سے جانے جانے والے امیج کے بری طرح سے متاثر ہونے دعوا بھی کیا ہے۔ محسن داوڑ کا خیال ہے کہ جلد افغانستان میں افغان طالبان کے خلاف افغان لبرل سوسائٹی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مزاحمتی تحریک کا جنم ہوگا اور وہ پاکستان کے پشتون علاقوں میں اس تحریک کے لیے حمایت پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو محسن داوڑ جیسے پاکستانی لبرل پشتون افغانستان کے سابق امریکہ نواز رجیم اور اس کی محدود حمایت سے کافی توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ امریکی انتظامیہ کو پرانا اسٹیٹس کو بحال کرنے پر زور ڈال رہے ہیں۔

 

پاکستان میں اس وقت جو حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں ان میں پاکستان پیپلزپارٹی  شاید وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے افغانستان کی صورت حال پر اپنا آفیشل موقف جاری کیا ہے۔ پی پی پی افغانستان میں نمائندہ جمہوری حکومت کے قیام کی حامی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ چاہتی ہے کہ پاکستان ہمسایہ ملک پاکستان سے ممکنہ تحریک طالبان پاکستان کے لیے آنے والی سپورٹ کا تدراک کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو پوری طاقت سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی پی پی نے افغان طالبان کی طرز پر پاکستان میں حکومتی نظام لانے کی حامی رجعت پرست طاقتوں کے خلاف بھی بھرپور جدوجہد کا عندیہ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author