حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل 93برس کی عمر میں گزشتہ روز وفات پاگئے۔ دل کے عارضہ کے باعث ہفتہ بھر سے کراچی کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ مرحوم کے صاحبزادے سردار اختر مینگل بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔
سردار عطاء اللہ مینگل 1929ء میں بلوچستان کے شہر وڈھ میں سردار رسول بخش مینگل کے ہاں پیدا ہوئے۔ عملی سیاست کے میدان میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہوئے۔ یکم مئی 1972ء کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے۔ نیپ نے جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود گروپ کے ساتھ مل کر اس وقت کے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بنائی تھیں) مارچ 1973ء میں بلوچستان میں گورنر راج لگاکر ان کی حکومت برطرف کردی گئی۔ نواب محمد اکبر بگٹی گورنر راج میں گورنر بلوچستان بنے۔
حکومت کی برطرفی عراق سازش کیس کے نام پر ہوئی۔ ان کی حکومت کی برطرفی کے وقت وفاق کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ عراقی سازش کیس ایک ’’راز‘‘ ہی رہا البتہ برآمد شدہ اسلحہ نمائش کے لئے ایک ٹرین میں رکھ کر ملک بھر میں گھمایا گیا۔
بلوچستان حکومت کی برطرفی پر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود کابینہ کے ساتھ احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔
سردار عطا اللہ مینگل وزارت اعلیٰ سے برطرفی پر گرفتار کرلئے گئے اور ایک طویل عرصہ جیل میں رہے۔ بعدازاں پشاور میں ہوئے بم دھماکہ میں صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاو کے جاں بحق ہونے پر وفاقی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگاکر ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کردیا۔
سپریم کورٹ نے اس پابندی کی تصدیق کردی۔ سردار عطاء اللہ مینگل نیپ کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ حیدر آباد سازش کیس کے ملزم ٹھہرائے گئے۔ اس مقدمہ میں نیپ کی تقریباً ساری اعلیٰ قیادت شامل تھی۔
پیپلزپارٹی کے اس دور میں ہی ان کے صاحبزادے اسداللہ مینگل کا پراسرار قتل ہوا۔ مینگل خاندان نے اس قتل کا الزام ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی حکومت پر لگایا۔ اس وقت کی اپوزیشن نے اس قتل پر بھرپور سیاست کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اسداللہ مینگل کے قتل کو اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔
نیپ حکومت کی برطرفی۔ اسداللہ مینگل کا قتل اور نواب اکبر بگٹی کو گورنر راج نافذ کرکے گورنر بلوچستان بنائے جانے پر بلوچستان میں شروع ہوئی سیاسی مزاحمت آگے چل کر عسکری مزاحمت میں تبدیل ہوگئی۔
بلوچستان میں بھٹو دور میں شروع ہوئی عسکری مزاحمت جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ختم ہوئی تب یہ سوال اٹھایا جاتا تھا کہ عسکری مزاحمت کے خلاف فوج کشی کی اجازت حاصل کرنے والوں نے جس سیاسی حل کو بھٹو دور میں غیرضروری قرار دیا تھا، مارشل لاء کے نفاذ کے بعد فوجی حکومت نے اس عسکری تنازع کا سیاسی حل ہی تلاش کیا۔
کیا پس پردہ کچھ اور کہانی تھی؟ ہمارے ہاں الزاماتی سیاست کی دھول ان چند کتابوں کے صفحات پر بھی اڑتی دیکھائی دیتی ہے جو 1970ء کی دہائی کی سیاست پر لکھی گئیں۔
سنجیدہ تحقیق کے ساتھ تین سوالوں کا جواب کسی نے تلاش کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اولاً عراقی سازش کیس کی کہانی کیا تھی؟
ثانیاً اسداللہ مینگل کو سانگھڑ کے قریب کس نے قتل کیا؟ ثالثاً بلوچستان میں حکومت کے خلاف عسکری مزاحمت کا حقیقی پس منظر کیا تھا اور اس میں ریاست کے اندر موجود بھٹو مخالف فیکٹر کا کتنا ہاتھ تھا؟
البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی لیکن پروپیگنڈہ مشینری اپوزیشن اور خصوصاً جماعت اسلامی کی بہت مضبوط و متحرک تھی۔
حیدر آباد سازش کیس جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے واپس لیا۔ مقدمہ کی واپسی پر اسیران کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسیری کے اس عرصہ میں بعض وجوہات کی بنا پر نیپ کے پشتون بلوچ قائدین کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جسکی بنا پر رہائی کے بعد بلوچ قائدین نے اپنے راستے جدا کرلئے۔
آگے چل کر میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنالی۔
سردار عطاء اللہ مینگل بیرون ملک چلے گئے۔ اپنے قیام لندن کے برسوں میں انہوں نے ممتاز بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ مل کر کنفیڈریشن فرنٹ تشکیل دیا۔
یہ فرنٹ پاکستانی فیڈریشن کو کنفیڈریشن میں تبدیل کرنے کا خواہاں تھا۔ مارشل لاء کے تحت ذرائع ابلاغ پر عائد پابندیوں کے باعث کنفیڈریشن کے موقف کو عوام کے سامنے رکھنے میں مشکلات پیش آئیں لیکن یہ فرنٹ کچھ عرصہ ہی فعال رہا اور پھر غیرموثر ہوگیا۔
سردار عطاء اللہ مینگل کے ایک صاحبزادے سردار اختر جان مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اختر مینگل بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ قوم پرست سیاستدان کے طور پر فعال اختر مینگل ان دنوں پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔
فیڈریشن کی ایک آئینی اکائی بلوچستان کے اولین وزیراعلیٰ رہنے والے سردار عطاء اللہ مینگل اپنی ذات میں بلوچستان اور ملکی سیاست کی تاریخ تھے ان کے سانحہ ارتحال سے اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا۔ مینگل قبیلے کے سردار، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل کے سانحہ ارتحال کو ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس طور اہمیت نہیں دی جو حق بنتا تھا۔ سردار عطاء اللہ مینگل مرحوم وسیع المطالعہ جہاندیدہ اور اپنی فہم پر ڈٹ جانے والی شخصیت تھے۔
فیڈریشن کی سیاست یا یوں کہہ لیجئے کمیونسٹ نظریات کی ترقی پسند نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) سے کنفیڈریشن اور پھر قوم پرست سیاست تک کے ان کے سفر کی روداد ضرور لکھی جانی چاہیے۔
سردار عطاء اللہ مینگل مظلوم اقوام کے اتحاد ’’پونم‘‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ پونم، پشتون، بلوچ سندھی اور سرائیکی قوم پرستوں کا اتحاد تھا۔
بی این پی کے بانی صدر بھی سردار عطاء اللہ مینگل تھے۔ آگے چل کر یہ جماعت دو حصوں میں بٹ گئی لیکن مینگل گروپ کہلانے والا جماعت کا حصہ ہی متحرک و فعال رہا۔
1973ء میں اپنی حکومت کی برطرفی پر گورنر راج لگائے جانے اور نواب اکبر بگٹی کے گورنر بننے سے دو پرانے دوستوں کے تعلقات میں سردمہری آگئی جو عمر بھر قائم رہی۔
ان کی تدفین آبائی شہر وڈھ کے قبرستان شہدا میں کی گئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کی سیاست کے مرکزی کرداروں میں سے ایک تھے۔
اپنے اصولوں کی پاسداری میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرنے والے مرحوم قوم پرست سیاستدان کا حلقہ احباب ہمیشہ وسیع رہا ان کی ایک نمایاں خوبی یہ رہی کہ انہوں نے اپنے بدترین سیاسی اور ذاتی مخالف کے خلاف بھی کبھی سطحی الفاظ استعمال نہیں کئے۔
بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں انہوں نے 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں میں نئی دستور ساز اسمبلی کی ضرورت پر زور دیا جو پانچ اقوام پشتون، سرائیکی سندھی، بلوچ اور پنجابیوں کی مساوی نمائندگی پر مبنی ہو اور نیا دستور بنائے ان کی اس تجویز کو پذیرائی نہیں مل پائی۔ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر وہ ملک سے باہر چلے گئے بعدازاں واپسی پر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ ایک طرح سے ریٹائر منٹ والی زندگی بسر کر رہے تھے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر