اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماہرین لسانیات اور سرائیکی زبان|| مہرین فاطمہ

چاروں صوبوں کے لوگوں کو آپس میں ملاتی ہے اس لحاظ سے یہ پاکستان کی مرکزی زبان ہے۔یہ ہزاروں سالوں سے اس خطے میں سمجھی اور بولی جاتی ہے جسے "وادی سندھ"کہا جاتا ہے۔

مہرین فاطمہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی زبان کو تاریخ میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔مغربی اور غیر ملکی ماہرین لسانیات نے سرائیکی کو مختلف نام دیئے۔ جن میں ایورنڈ ٹریور بمفورڈ نے 1895ء میں سرائیکی زبان کو "مغربی لہندا” کا نام دیا۔ ایڈریو جئیوکس نے سرائیکی زبان کے لیے "جٹکی” کا نام استعمال کیا۔جیمز ولسن نے 1903ء میں ” تھلی” کا نام دیا۔ رچرڈ فرانس برٹن نے پہلی بار سرائیکی زبان کے لیے "سرائیکی”استعمال کیا۔ سمرنوف نے اسے ” لہندا” کا نام دیا۔ 1962 ء میں سرائیکی محقیقین اور سرائیکی دانشوروں لفظ ” سرائیکی” پر متفق ہوئے۔ ملتانی، شاہ پوری ، ڈیروالی، تھلوچی ، کھترکی، جانگلی وغیرہ سرائیکی زبان کے لہجے ہیں
سرائیکی پاکستان کے علاؤہ بھارت ،ایران اور
افغانستان کے بہت سارے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔
سرائیکی زبان کا لفظ کہاں سے آیا مختلف ماہرین لسانیات نے مختلف نظریات پیش کیے:
* جارج ابراہم گریسن کہتا ہے کہ لفظ سرائیکی آج کے سندھی زبان کے لفظ ” سرو” سے نکلا ہے۔ جس سے سروکی، سریکی تے سرائیکی بنا۔
* لفظ "سرو” کے معنی ہیں "سردار” جس سے لفظ سرائیکی کے معنی ہیں” سرداروں کی زبان” سندھ میں آج بھی وڈیرے یہی زبان بولتے ہیں ۔
* پرانے زمانے میں سفر کرنے والے لوگوں کے لیے سراہا یعنی مسافر خانے بنے ہوتے تھے رات کو مسافر وہاں رات گزارتے تھے اور صبح کو آگے سفر کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسافروں کی آمد رفت کی وجہ سے ان سراوا لوگوں کی زبان عام لوگوں سے مختلف تھی۔ اس زبان کو بعد میں سرائیکی کہا گیا
*پرانی کتابوں میں پرانے معلمین اور صوفیانہ کی زبان کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے: سارا،ایکی، ایکہ،ایکم، وانی، اسرو، اسور، ساریکا، سارایکی، آسورا، آشورا کہا گیا۔
چاروں صوبوں کے لوگوں کو آپس میں ملاتی ہے اس لحاظ سے یہ پاکستان کی مرکزی زبان ہے۔یہ ہزاروں سالوں سے اس خطے میں سمجھی اور بولی جاتی ہے جسے "وادی سندھ”کہا جاتا ہے۔
اس زبان کی بنیاد دراوڑاں نے کول، بھیل ، سنتھال قبیلوں کی زبان کی شروعات یہیں سے ہوئی ان کو "منڈا قبائل”,کہا جاتا ہے۔
چھ ہزار سال پرانی وادی سندھ کی قدیم ترین اور منڈا قبائل کی زبان منڈاری سرائیکی زبان سے بہت ملتی ہے۔ جیسے نانا، نانی، سانڈھو، نتھ، سالی، روڑا، اہو،بھاڑہ، چیرا، موچی، دورا، تسلا، ڈالا اور جھورا وغیرہ۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے دراوڑ وادی سندھ میں آئے اور دو ہزار سال حکومت کی۔ ان کی شاندار تہذیب کے اثرات آج تک ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوڈارو ان کے دریافت کیے گئے شہر ہیں۔ سرائیکی زبان میں کچھ الفاظ دراوڑی زبان کے لفظ بھی ہیں جیسے ادا، چوٹی،کچھ، اماں، کٹا، روٹی، آڑی ،چمٹا،سلھ،کوٹ، نیر، امب، انگوری،چخ اور بوہاری وغیرہ۔
دراوڑ کے بعد وادی سندھ میں آریا آئے انہیں نے حملہ کر کے دراوڑوں کو مار بھگایا کیونکہ دراوڑ بہت کمزور تھے اس لیے طاقتور آریہ آن پر حکمران بن گئے۔اور ایک ہزار سال یہاں حکومت کی پھر آہستہ آہستہ آریہ ہندوستان میں پھیل گئے اور سنسکرت کو معیاری اور علمی زبان کے طور پر پیش کیا۔اور زبانوں کے ساتھ ساتھ سنسکرت دے اثرات بھی سرائیکی زبان پر نظر آتے ہیں جیسے چندر، پتر ، کمب، مر ،سجن، جنج ، سنگھ، مل گھوڑا،لالا، ترے، بہوں، اچ، آش، آلس،انت، بھاجی، بھوگ،اور ڈھن وغیرہ۔
سکندر اعظم نے 326 ق۔م میں ملتان پر حملہ کیا اور حکومت کی اس وقت بدھ مت کی تعلیم دی جاتی تھی۔سکندر اعظم کی حکومت کے بعد یونانی یہاں سے چلے گئے پر ان کی زبان کا اثر سرائیکی زبان پر بھی ہوا جیسے کانا، بوٹی، چوٹی، کٹوری، نئیں، ونجن، پھل، گھیرا، دم، صوفی، تبوت،کفن مندر اور ست وغیرہ۔
جب عرب وادی سندھ میں داخل ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس وقت سرکاری زبان عربی تھی۔ اس لیے سرائیکی زبان کے دامن میں عربی کے لفظ، ترکیب اور لسانی آواز کی وجہ سے بھر گیا۔ عربی کے ان گنت لفظ سرائیکی میں بولے جاتے ہیں مثلاً وسل، ظاہر، فقط، شامت، قصور،خج، صفہ، خمیس،طاق ،امید،، اثر, برکت ،امان،ادا اور انجرا وغیرہ۔
عرب کے اثرات کم ہوئے تو فارسی بولنے والے ان علاقوں کے حاکم بن گئے لوگ فارسی بولتے اور لکھتے تھے اس لیے فارسی کے اثرات آج تک سرائیکی زبان پر نظر آتے ہیں جیسے ازارا،بخرہ،جرگہ،شیدی،پیلوں،جنجال، کورا،بانگ،ایں،بازو، استرا اور کودن وغیرہ۔ان ساری زبانوں کے ساتھ ساتھ پشتو،بلوچی، سندھی، براہوی، گوجری، ہندکو اور پنجابی جیسی زبانیں چونکہ سرائیکی زبان بولنے والے علاقوں کی حد کے ساتھ ساتھ بولی جاتی ہیں اس لیے ان کے اثرات سرائیکی پر اور سرائیکی کے اثرات ان زبانوں پر موجود ہیں۔ سرائیکی زبان میں کتابیں بہت عرصے سے لکھی جا رہی ہے جن میں "نور نامہ” جو 500ھ اور نصاب ضروری 1797ء سے پڑھے جاتے ہیں۔ نور نامہ ایک مذہبی کتاب ہے جس کو ہر گھر میں رکھنے اور پڑھنے کو ثواب کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ نصاب ضروری، ایک لغت ہے جو آج تک درس نظامی میں پڑھائی جاتی ہے۔
سرائیکی ایک تہذیبی اور ثقافتی زبان ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی زبان کی بڑی خوبی اس کا لوک ادب ہوتا ہے۔جس میں اکھان: محاورے،بجھارت، دعا،،پلوتے،لولی،شادی کے گیت، فصل اور میلوں کے گیت،ٹپے،ڈھولے اور ایسے بہت سارے موضوعات ہوتے ہیں۔ سرائیکی لوک ادب بہت وسیع ہے اس میں دینی ادب, شاعری ,لسانیات ,افسانہ , ڈرامہ, خاکہ, انشائیہ, ناول, تحقیق, تنقید, تاریخ, ثقافت, نثری ادب, سیاسی ادب, لوک ادب, فریدیات, لولی، ڈوہڑا،وار،شہر آشوب، مشاعرے اور جدید ادبی صنف میں غزل،ہائیکو، بند ، رباعی بھی لکھی جا رہی ہے۔ سرائیکی زبان کی ایک بڑی خوبی اس کی صوتیات کا ایک نویکلا نظام ہے جو آریہ زبان میں موجود نہیں ہے ۔ اسکی خاص آوازیں چار ہیں۔
ٻ ، ڃ، ڈ، ڳ
ان آوازوں کو سرائیکی کے ماہرین لسانیات اور دانشوروں نے 1975ء میں الگ حرفوں کے ساتھ ظاہر کیا اور ان کو مروجہ رسم الخط میں شامل کیا اور ایک اور آواز جو سرائیکی کے علاؤہ اور زبانوں میں بھی موجود ہے اونڑ (نون غنہ+ڑ)کی آواز ہے۔ اس کو سرائیکی میں ، ݨ، کے حرف اور علامت کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے جس کے ساتھ یہ لفظ اس طرح بنتے ہیں:
لکھݨ، ٻولݨ،پاݨی،سوہݨاں،کھݨ، کڈھݨ،ڈیݨ
سرائیکی بولنے والے آج تک آپنی شناخت اور حقوق کے لیے ستر سالوں سے محروم ہیں۔ مختلف سرائیکی پارٹیاں ستر سالوں میں صوبے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
مختلف سیاسی پارٹیوں نے صوبے کے قیام کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک وعدہ وفا نہ ہو سکا مئی 2012ء میں صوبے کے قیام کے لیے قرارداد کثرت رائے سے پاس کی گئی۔ یہ سب ان سرائیکی پارٹیوں اور نامور لیڈروں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مختلف سیاسی پارٹیاں جو اقتدار میں رہ چکی ہیں یا اقتدار میں ہیں انہوں نے صوبہ کے قیام کا وعدہ تو کیا پر آج تک عمل نا ہو سکا ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی سو دن کے اندر اندر صوبے کے قیام کا وعدہ کیا لیکن یہ بھی وفا نا ہو سکا اور ابھی تک سرائیکی قوم آپنے بنیادی حقوق کی شناخت سے محروم ہے۔۔

%d bloggers like this: