پی پی پی کے چئیرمیں بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کے دورے پر ہیں – چار ستمبر 2021ء کو وہ سندھ کے کئی اضلاع کے دورے کرنے کے بعد ملتان پہنچے۔ پی پی پی جنوبی پنجاب کےڈپٹی سیکرٹری اطلاعات و نشریات نے چار ستمبر 2021ء کی صبح مجھے اطلاع کی کہ 5 ستمبر2021ء کو دن کے ساڑھے بارہ بجے بلاول بھٹو جنوبی پنجاب کے کالم نگاروں سے ملاقات کرکے تفصیلی تبادلہ خیالات کریں گے اور آپ کو بھی شرکت کی دعوت ہے۔
میں ساڑھے بارہ بجے بلاول ہاؤس ملتان پہنچا۔ میرے ہمراہ پاکستان پیپلزپارٹی ضلع ملتان کے 1980ء میں مارشل لاء ريگولیشن کے تحت پی ایس ایف کا انقلابی اعلامیہ نامی پمفلٹ کیس میں قید کاٹنے والے سب سے کم عمر قیدی محمد اعظم خان ، پی وائی او ضلع خانیوال کے سابق جنرل سیکرٹری راشد علی رحمانی اور ہمارے دوست محمد اشرف خان بلوچ بھی تھے۔(اشرف بلوچ کی گاڑی میں ہی تو ہم بلاول ہاؤس پہنچ پائے تھے ورنہ کرونا کی چوتھی لہر کے پیش نظر ٹرانسپورٹ مکمل طور پہ بند تھی وگرنہ شاید ہم پہنچ ہی نہ پاتے)
بلاول ہاؤس کے گیٹ پر خواجہ رضوان عالم ایک سیکورٹی رضاکار کے ساتھ مدعو لوگوں کی فہرست کے ساتھ موجود تھے۔ مجھے اور اعظم خان کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ راستے میں ڈیلی ڈان کے ملتان سے اسٹاف رپورٹر شکیل احمد بلوچ اور روزنامہ پاکستان ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شوکت اشفاق ہمارے ساتھ تھے۔ گیٹ پہ راشد اور اشرف کے نام نہیں تھے اور میری درخواست کے باوجود ان کو اذن باریابی نہ ملا۔ خیر ہم اندر گئے تو سب سے پہلے محبوب تابش سے ٹاکرا ہوگیا۔ پھر اشو لال مل گئے ، تپاک سے گلے لگے ۔ ایک کمرے میں الطاف کھوکھر پی پی پی کے سابق ضلعی صدر موجود تھے، انہوں نے بہت سے انکشافات کیے، ان کا تذکرہ کسی اگلے کالم میں کروں گا۔
باہر پنڈال میں بلاول بھٹو زرداری سے صاحب سے مکالمے کا اہتمام تھا۔ جنوبی پنجاب کے اضلاع سے جانے پہچانے کالم نگار اور تجزیہ نگار موجود تھے۔ ملتان کے معروف صحافی مظہر جاوید اس تقریب کے سہولت کار تھے۔
بلاول بھٹو زرداری سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی، مخدوم احمد محمود صدر پی پی پی جنوبی پنجاب ، نتاشا دولتانہ جنرل سیکرٹری پی پی پی جنوبی پنجاب، سینئر نائب صدر جنوبی پنجاب حیدر زمان قریشی، سیکرٹری اطلاعات و نشریات جنوبی پنجاب عبدالقادر شاہین کے ہمراہ پنڈال میں تشریف اور باری باری سب شرکا کا تعارف ان سے کرایا گیا۔ اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے مختصر تشکر کے جملے ادا کرکے فورم اوپن کردیا۔
افغانستان
بلاول بھٹو زرداری سے کئی ایک کالم نگاروں نے افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں ان کا موقف جاننا چاہا ۔ انھوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ تھا:
” پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے افغانستان کے ایشو پر اپنی سی ای سی کا اجلاس بلایا۔ پی پی پی افغانستان میں نمائندہ جمہوری حکومت چاہتی ہے۔ نسلی اور مذہبی اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کا مکمل تحفظ چاہتی ہے۔ افغانستان میں اگر بدتر صورت حال ابھر بھی جآئے تو ہمارا موقف ہے کہ پاکستان میں کسی صورت بھی طالبانائزیشن کو پنپنے نہ دیا جائے – اس کے لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر فوری طور پر مکمل عمل درآمد ہو۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوں یا گلگت بلتستان میں داسو ڈیم سائٹ پر دہشت گردی ہو، اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد میں ناکام ہے۔ کوئٹہ میں ایف سی پر ہوا تازہ دہشت گرد حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ اس سے موجودہ حکومت کی داخلی سیکورٹی کی پالیسی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ایک روشن خیال، ترقی پسند جمہوری اور سماجی مساوات کی سیاست کی علمبردار ہے اور ہم اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔”
پی ڈی ایم اور حزب اختلاف کی سیاست
کئی ایک کالم نگاروں نے بار بار بلاول بھٹو زرداری سے یہ پوچھا کہ کیا پی پی پی کے پی ڈی ایم کے ساتھ دوبارہ بیٹھنے کا امکان ہے؟ اور اگر اپوزیشن متحد نہیں ہوتی تو پھر موجودہ رجیم سے جان کیسے چھڑائی جاسکے گی؟
ان سوالوں کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انھوں نے پی ڈی ایم کی بڑی مشکل سے تشکیل کی تھی ۔ وہ نواز لیگ کی جانب سے 80ء اور نوے کی دہائیوں میں اٹھائے گئے بدترین انتقامی اقدامات کو بھلاکر جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عزم کیا تھا جیسے شہید بے نظیر بھٹو نے کیا تھا لیکن مسلم ليگ نواز نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو "رعایات” حاصل کرنے کا مرکز بنالیا اور جب ہم نے حالیہ سینٹ الیکشن میں حکومت کو شکست دی تو نواز لیگ نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریکیں لانے کی بجائے استعفا سٹنٹ اپنایا اور یوں سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے ، اس کی جگہ قومی اتفاق رائے کی حکومت کی تشکیل اور جلد عام انتخابات کی راہ کھوٹی کردی۔ اور وہ آج تک اسمبلیوں سے مستعفی بھی نہ ہوئے۔ پی ڈی ایم کی سیاست اب صرف کنفیوژن پھیلانے کی سیاست ہے۔ نواز لیگ کے موجودہ مرکزی صدر جو بیان بھی دیتے ہیں اگلے دن اسے ان کا ذاتی خیال کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ ہم عوام سے رجوع کریں اور ان کا اعتماد حاصل کریں۔ پی پی پی کا موقف ہے اگر پی ڈی ایم پی پی پی کا تعاون چاہتی ہے تو اسے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ہمارےساتھ ملکر عدم اعتماد کی تحریک لانے کا راستا اختیار کرنا ہوگا۔ پی ڈی ایم اگر ایسا نہیں کرتا تو اپوزیشن کا اتحاد نہیں ہوسکے گا-
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اسٹبلشمنٹ سے ہاتھ ملانے کا الزام دینے والے صرف وہی لوگ ہیں جو مسلم لیگ نواز کے پروپیگنڈے سے متاثر ہیں- جو جیو جیسے چینل کے پروپیگنڈے کو سچ سمجھتے ہیں ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں اس وقت حقیقی اپوزیشن اگر کوئی سیاسی جماعت کررہی ہے تو وہ پی پی پی ہے۔ ہم نے پی ڈی ایم کی کنفیوژن اور بے عملی کی سیاست کا جواب عوام سے رابطہ کرکے دیا ہے۔ اور ہم پورے پاکستان میں اپنی جماعت کی تنظیموں کو مضبوط کررہے ہیں اور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی ہوں یا بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں ان کے ساتھ شریک ہونے والے ہوں یا مرد حر کے زمانے میں متحرک ہوئے ہوں سب کو کہتا ہوں کہ آئیں اور پارٹی کے ساتھ جڑ جائیں اور ملک میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کا اجرا کریں۔
پی ٹی آئی کی حکومت
بلاول بھٹو زرداری نے موجودہ حکومت کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ پہلے سیاست دان تھے جنھوں نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنی تقریر میں عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ کر ساری قوم کو بتادیا تھا کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے ۔ اس حکومت نے تاريخی مہنگائی، تاریخی بے روز گاری، تاريخی غربت کو جنم دیا ہے۔ اس حکومت نے سی پیک کو داؤ پر لگادیا ہے۔ آج پاکستان کی عالمی برادری میں "تاریخی تنہائی” بھی اسی حکومت کی دین ہے۔ "تاریخی بدعنوانی ” بھی اسی حکومت کا کارنامہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ "تاریخی آن ون پیج” ہیں اور اس کے ثمرات کیا ہیں؟ ملک ترقی کرنے کی بجائے پیچھے جارہا ہے۔
انتخابی اصلاحات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت انتخابی اصلاحات کے نام پر آئیندہ انتخابات مں بدترین دھاندلی کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک ڈرامہ ہے۔ پاکستان کے اگٹر پولنگ اسٹیشنوں پر بجلی ہی دستیاب نہیں ہوتی – عوام کی اکثریت اس مشین کے استعمال سے نابلد ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صرف اتفاق رائے سے ہی انتخابی اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی ۔
صوبہ جنوبی پنجاب
بلاول بھٹو زرداری "جنوبی پنجاب” کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں نظر آئے اور اس کی جگہ "وسیب” کا لفظ استعمال کرتے رہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں "سرائیکی” اور "پنجابی ” دونوں زبانیں ابتدائی کلاسوں میں پڑھائی جائیں جیسے سندھ میں سندھی پڑھائی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ سندھ میں سندھی کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کو پڑھائے جانے کے بالکل حق میں ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے سندھ کے وزیر تعلیم سے بات کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے سوال کیا کہ جیسے سندھ میں دل، جگر، گردوں کی پیوند کاری اور کیینسر کا جدید ترین علاج مفت فراہم کیا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے سٹیٹ آف دا آرٹ ہسپتال سندھ میں قائم ہیں ،ویسے ہسپتال پنجاب میں موجودہ اور سابقہ حکومت کیوں قائم نہیں کرسکیں؟
انھوں نے کہا کہ پی پی پی نے 70ء اور 88ء ، 93ء اور پھر 2008ء کے ادوار میں وسیب میں جتنے ترقیاتی کام کرائے، صحت اور تعلیم کے میدان میں اقدام اٹھائے اور جتنے لوگوں کو روزگار دیا اور رہنے کو گھر دیے۔ کسانوں کو جتنا فائدہ پہنچایا، ملازمین کی تنخواہیں جس پیمانے پر بڑھائیں اس کا مقابلہ نہ نام نہاد خادم اعلی کی حکومتیں کرسکیں اور نہ بزدار کی ڈمی حکومت کرسکتی ہے۔
پنجاب میں نئے صوبے کی تشکیل کے سوالات پر ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹریٹ کے لالی پاپ سے وسیب کی محرومیوں کا مداوا نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں الگ صوبے پر فرحت اللہ بابر کی قیادت میں قائم کمیشن کی جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں موجود سفارشات کی روشنی میں ہی الگ صوبہ قائم ہوسکتا ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور حل کی بات کرنے والے صوبے کے قیام کی منزل کو اور دور لیجانے کا کام سرانجام دے رہے ہیں ۔ وسیب کے لوگوں کو اس سازش کو سمجھنا ہوگا۔
ہائبرڈ رجیم، بلوچستان، انسانی حقوق اور آزادی صحافت
کیا پی پی پی برسراقتدار آکر ہائبرڈ رجیم کے برعکس کسی اور طرح کی مفاہمت کے تصور کو سامنے لیکر آئے گی؟ بلوچستان ، سابق فاٹا اور سندھ میں جو جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور اختلافی آوازوں کو دبانے کی پالیسی ہے اس سے پی پی پی کیسے نمٹے گی؟ کیا پی پی پی اسٹبلشمنٹ کے عقابوں کی روش پہ نیم دروں ،نیم بروں رویہ اپنائے گی؟ افغانستان پہ ضیاء الحقی سوچ سے کیسے نمٹے گی؟
میں نے یہ سوال کیا تو بلاول بھٹو زرداریی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جمہوری عدم تشدد پر مبنی سیاست کی علمبردار سیاسی جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق، صحافت کی آزادی کے لیے کم ہوتی سپیس کے خلاف یادہ سے زیادہ متحرک ہو۔ ایک جمہوری حکومت کی طرف سے پریس کو دی گئی آزادی کو اگر پریس کے مالکان اور ان کی آنکھوں کے تارے اس آزادی کو منتخب جمہوری حکومت کو بدنام کرنے اور اس کو غلط ٹھہرانے کی مشق میں اسٹبلشمنٹ میں غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل جائیں تو پھر جمہوریت کے لیے سپیس ہی کم نہیں ہوتی بلکہ انسانی حقوق اور پریس کی آزادی کا مستقبل بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ پی پی پی نے ہمیشہ پریس اور آحتلافی آوازوں کو مکمل سپیس دی جو اس کے خلاف ہی استعمال کی گئی۔ ایک طرف پی پی پی کا عدالتوں نے ٹرائل کیا تو دوسری طرف اسے بدترین میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے اس صورت حال میں بھی جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے سپیس پیدا کی۔ اور اب بھی پریس کی آزادی کا راستا جمہوری مزاحمت سے ہی نکلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2008ء سے 2013ء کے دوران افتخار چودھری کے نام نہاد جوڈیشل ایکٹو ازم اور سلیکٹرز کی آئے روز محلاتی سازشوں اور معاندانہ پریس کے باوجود اٹھارویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ایران-پاکستان گیس پائپ لائن، سی پیک جیسے تاریخی اقدامات اٹھائے۔ اٹھارویں ترمیم منظور کی ۔ اور ہم نے نواز لیگ دور اور اب سلیکٹڈ حکومت کے دور میں سندھ کو اس کے واضح مالیاتی حصص میں شدید کمی کے باوجود سندھ کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔ جی پلس فائیو دلوایا۔ بدترین تیل کی قیمتوں کی بلند ترین شرح کے باوجود عوام کو ریلیف دیا۔ بجلی، تیل ، گیس سستی فراہم کی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں ہونا چاہئیے کہ اگر عوام کے ووٹوں کا احترام برقرار رکھا گیا اور پی پی پی برسراقتدار آئی تو یہ جمہوریت، پارلیمنٹ، پریس اور عدلیہ کی حقیقی آزادی کی طرف بڑھنے کا عزم برقرار رکھے گی اور پی پی پی کے ہوتے ہائبرڈ رجیم جیسی کوئی چیز نہیں چلے گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی کا بنیادی نعرہ "روٹی ،کپڑا اور مکان” ہے اور وہ اس پہ قائم رہے گی۔ ہم کارٹیل، مافیاز کے ہاتھوں اپنی پارٹی کی حکومت کو یرغمال نہیں بننے دیں گے۔
پس نوشت
دو سے ڈھائی گھنٹے بلاول بھٹو زرداری کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں، رپورٹروں کے تابڑ توڑ تلخ و شیریں سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ اور میں نے کہیں ان کو مشتعل نہ پایا۔ ایک بات انھوں نے کئی بار دوھرائی اور وہ یہ تھی کہ پاکستان کے میڈیا نے جتنا وقت پی پی پی کی کردار کشی اور نواز لیگ و سلیکٹڈ کی امیج بلڈنگ میں صرف کیا، اتنا اگر اس نے جمہوری اقدار کے تحفظ میں صرف کیا ہوتا تو آج جیسے حالات دیکھنے کو نہیں ملتے۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلے کے نتیجے میں پی پی پی دور میں بحال ہونے والے ملازموں کی برطرفی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔ ہر سطح پر ان کا مقدمہ لڑنے کا عندیہ دیا اور اپنے عزم کو دوہرایا کہ پی پی پی وفاق و پنجاب، بلوچستان اور کے پی کے میں حکومتیں بناکر پھر لوگوں کو نوکریاں دے گی اور کسی کو ملازمتوں سے برطرف بھی نہیں کرے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر