پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سات روزہ دورے پر ملتان پہنچے ہیں۔ انہوں نے اس ہفتے میں جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع میں جلسوں سے خطاب کرنا تھا اور پارٹی کارکنوں سمیت مختلف وفود سے ملاقاتیں کرنا تھیں لیکن کرونا کی چوتھی لہر کی شدت کے سبب جنوبی پنجاب کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن لگنے کے سبب کئی اضلاع میں ان کے پروگرام منسوخ ہوگئے۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورے سے پہلے خبریں گرم تھیں کہ جنوبی پنجاب سے کم از کم چھے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی پی پی پی میں شرکت کا اعلان کریں گے لیکن اب تک لوگوں کو یقین نہیں آرہا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا سے پی پی پی میں جو بھاری بھرکم شخصیات پی پی پی میں شامل ہوئی ہیں وہ مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کی بلوچستان اور کے پی کے کی تنظیموں کے اندرونی معاملات کے سبب ہوئی ہیں ۔ بلوچستان میں تو صاف نظر آرہا تھا کہ عبدالقادر بلوچ اور سردار ثنا اللہ زھری کے لیے مسلم لیگ نواز میں رہنا سردار اختر مینگل کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تھا۔ لیکن جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے اندر ایسی صورت حال موجود ہے؟ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کا گروپ پی ٹی آئی میں ایسا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ لازمی پی ٹی آئی سے راستے الگ کرے گا لیکن کب کرے گا؟ اور کہاں جائے گا؟ کہنے والے کہتے ہیں اس کا فیصلہ وہ الیکشن کے بالکل قریب آجانے کے وقت کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری کی ملتان آمد کے فوری جن شخصیات کا پی پی پی میں شمولیت سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کرائی ان میں قابل ذکر شخصیت لیہ کے تجربہ کار سیاست دان بہادر خان سہیڑ کی ہے اور اس سے پی پی پی کو لیہ میں این اے کی نشست پر واقعی بھاری بھرکم شخصیت میسر آگئی ہے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی فروی آمد کے بعد شمولیت کا یہ پہلا مظاہرہ سیاسی تجزیہ کاروں کو خاصا کمزور لگا ہے۔
اس وقت مسلم لیگ نواز میں خانیوال کی تحصیل کبیروالہ سے بیرسٹر رضا حیات ھراج، پیر مختار حسین شاہ ، میااں چنوں سے پیر اسلم بودلہ ، جہانیاں سے چوہدری افتخار نذیر ، خانیوال سے پی ٹی آئی کے سردار احمد یار ھراج ایسے نام ہیں جو پی پی پی میں شمولیت کا سوچ سکتے ہیں لیکن یہ کام اس وقت ہوسکتا ہے جب کم از کم فیصل صالح حیات جیسی شخصیت ان سے بیک ڈور چینل رابطے میں آئے ۔ ملتان میں مسلم لیگ نواز کے جاوید ہاشمی اس وقت اپنی پارٹی کی طرف سے خاصی بے گانگی کے رویے کا شکار ہیں اور ان کی پی پی پی میں شمولیت کی خبریں بھی گرم ہوئی تھیں لیکن ایسا ہوتا بالکل نظر نہیں آرہا۔ پی پی پی کے پاس اس وقت ڈیرہ غازی خان میں کھوسہ برادران اور کئی ایک لغاری سیاسی شخصیات کی شمولیت کے سبب کافی بہتر پوزیشن حاصل ہے ۔ آنے والے دنوں میں پی پی پی میں مظفرگڑھ ، لیہ، خیر پور ٹامیانوالی، بہاول پور ، بہاولنگر ، رحیم یار خان سے الیکشن جیتنے کی اہلیت رکھنے والی کئی ایک شخصیات کی شمولیت کا امکان ہے۔
سرائیکی خطے میں اس وقت بے روزگاری ، غربت بہت زیادہ ہے۔ تعلیم،صحت کے میدان میں بھی پسماندگی میں خاطرخواہ کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس خطے میں سرائیکی قوم پرستی کسی طاقتور مزاحمتی مرکز کے طور پر موجود نہیں ہے۔ جس طرح سے خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں پشتون حقوق کے تحفظ کے لیے ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے ویسا ماحول سرائیکی خطے میں نہیں ہے۔ اگرچہ یہاں پر مقامی سرائیکی بولنے والے باشندوں میں زبردست احساس محرومی موجود ہے اور دیہی علاقوں میں سرائیکی قومی شعور کا زبانی اظہار بھی ہورہا ہے لیکن اس خطے میں جو سرائیکی قوم پرست رجحان ہے وہ تاحال اس خطے کے شہری مراکز میں ایک پاپولر رجحان کے طور پر موجود نہیں ہے۔ اس وقت سرائیکی خطے میں زمین پر اینٹی اسٹبلشمنٹ ، اینٹی کالونیل ڈویلپمنٹ زور دار مزاحمت بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے سیاست یہاں پاور کوریڈور میں موجود بھاری بھرکم شخصیات کے کرد گھوم رہی ہے۔
پی پی پی نے اپنے کلچرل ونگ جنوبی پنجاب کا صدر ایک معروف سرائیکی شاعر اشو لال کو بنایا ہے جن کا تعلق کہروڑ لال عیسن سے ہے۔ ان کی تقرری کے بعد سے نہ صرف رجعت پرستانہ رجحان کے حامل سرائیکی قوم پرست ان کی زبردست مخالفت کررہے ہں بلکہ پی پی پی سے وابستہ رہنے والی سرائیکی دانشوروں کی نمائندہ تنظیم لوک سانجھ اور سویل کی نامور سرائیکی قوم پرست شخصیات بھی ان سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف اردو اور پنجابی کے شاعر و ادیب اور دانشوروں کو یہ شکایت پیدا ہورہی ہے کہ پی پی پی کلچرل ونگ میں ان کی نمائندگی بالکل بھی نہیں ہے۔ پی پی پی کو جنوبی پنجاب کے پیپلز کلچرل ونگ کو خطے میں بسنے والی تمام لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں ، فنکاروں، گلوگاروں کی نمائندگی کرنے کی ضرورت ہے۔
جنوبی پنجاب کے اس وقت 11 اضلاع میں پی پی پی کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ ان اضلاع میں بسنے والی دیہی علاقوں کی آبادی کو درپیش جن مشکلات کا سامنا ہے وہ ان مشکلات کے حل کے لیے کون سا ایجنڈا سامنے لیکر آئے گی؟ جنوبی پنجاب کی کسان برادری کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نہری پانی کی شدید نایابی کا ہے اور اس کے سب سے زیادہ متاثرہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسان ہیں۔ دیہی آبادی کی غربت ایک سنگین مسئلہ اختیار کررہی ہے اور دیہی غریبوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کے بڑے شہری مراکز میں روزگار کی تلاش میں جانے پر مجبور ہے۔
جنوبی پنجاب کے شہری مراکز میں بھی بدترین حالات زندگی نے پی ٹی آئی کے خلاف نفرت کی ایک فضا کو جنم دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں اس وقت ملتان سے تعلق رکھنے والے بڑے سیاست دان شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ ہیں اور ان کے اپنے حلقے کے لوگ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے کیے جانے والے دعوؤں پر یقین نہیں کرتے۔ ان کی مقبولیت میں آنے والی کمی سے کون فائدہ اٹھارہا ہے؟ مسلم لیگ نواز کے محمود الحسن جبکہ اس حلقے میں پی پی پی کے پاس اس وقت تک کوئی عوام میں مقبول امیدوار نہیں ہے ۔ ایسے ہی شہر ملتان کی قومی اسمبلی کی دوسری نشست سے عامر ڈوگر ہیں ان کے مقابلے میں جاوید ہاشمی مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ پی پی پی یہاں سے کس کو لائے گی یہ بات ابھی تک طے نہیں ہوئی ہے۔ لیکن پی پی پی کی پوزیشن ضلع ملتان کی دیہی قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر خاصی مضبوط نظر آتی ہے۔
پی پی پی کو بہاولپور ڈویژن میں پنجابی بولنے والی اکثریت کے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں انتھک محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے پاس فی الحال طارق چیمہ جیسی بھاری بھرکم شخصیت نہیں ہے۔ یہ بہاولپور ڈویژن کی پنجابی اکثریت کے حلقوں میں جٹ-ارائیں- گجر ان تین برادریوں میں سیندھ نہیں لگاتی تو یہاں سے کامیابی کے امکانات کم ہیں ۔ بہاولپور شہر میں اگر یہ کم از کم ملک فاروق اعظم کو ہی واپس پی پی پی میں لے آئے اور ادھر خیرپورٹامیانوالی سے اگر یہ ریاض حسین پیرزادہ کو پاری میں شامل کرلے تو اس کا کام آسان ہوجائے گا۔
جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی تنظیمی حالت بہت کمزور ہے۔ یہ 80ء اور 90ء کی دہائی سے بھی انتہائی شکستہ ہے۔ اس وقت اس پارٹی کے 11 اضلاع میں 40 سال سے 50 سال کے ایسے ہزاروں منجھے ہوئے تجربہ کار کارکنوں کی اکثریت سے تنظیموں کا رابطہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی قیادت ان کو پہچانتی ہے۔ پی پی پی عام انتخابات سے پہلے اگر ان کارکنوں کو مین سٹریم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پارٹی اپنے کئی نظریاتی کارکنوں کو قومی و صوبائی اسمبلی میں لیجاسکتی ہے۔ یہ کارکنوں کا ایسا سٹف ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔ انھیں پارٹی کے بنیادی یونٹ سے لیکر ضلعی یونٹ تک عہدے دار بنانے کی ضرورت ہے تب ہی ان سیاسی کارکنوں کی تنہائی اور بے گانگی کو جنوبی پنجاب میں دور کیا جاسکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا کے زریعے سے جنوبی پنجاب کے ئی ایک پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر