نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان کی تاریخ کا نیا موڑ||حیدر جاوید سید

گو آنے والے ایک دو ہفتوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی اس کے باوجود یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ فتح کی خوشی کو خدمت کے جذبے میں تبدیل کرکے ہی وہ افغان عوام کے لئے بہتر ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنددن ادھر کی ایک شب میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ لگ بھگ بیس سال انسداد دہشت گردی کے نام پر افغانستان میں مقیم رہنے کے بعد رخصت ہوا ۔ اس عرصہ میں امریکی چھتری کے نیچے افغانستان میں جمہوریت بھی متعارف کروائی گئی، ترقیاتی کام بھی ہوئے۔ افغانستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے امریکہ کے یومیہ اخراجات بیس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھے۔تیس اور اکتیس اگست کی درمیانی رات افغانستان سے امریکہ اور اتحادیوں کا انخلا مکمل ہوگیا۔
افغان اقتدار اعلیٰ ایک بار پھر افغان تحریک طالبان کے حصے میں آیا۔1980 کی دہائی کے آخری برسوں میں افغانسان سے ہوئے سوویت انخلاء اور گزشتہ روز کے امریکی انخلاء میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سوویت یونین افغان انقلاب ثور کے نتیجہ میں قائم ہوئی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر افغانستان آیا تھا تب امریکہ، مغرب اور مسلم دنیا نے اسے سوویت یونین کا قبضہ قرار دے کر جہاد افغانستان کی بنیاد رکھی تھی
طویل کشمکش اور جنگ و جدل کے بعد جنیوا معاہدے کے نتیجے میں سوویت یونین کا انخلا ء ہوا تو افغان عوام کا ایک بڑا طبقہ اسے آبدیدہ آنکھوں سے رخصت کرتا ہوا دکھائی دیا۔ مقابلتاً گزشتہ روز امریکی انخلاء رات کے اندھیرے میں مکمل ہوا۔
افغانستان میں امریکہ کی آمد نائن الیون کے المیہ کے بعد القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے تعاقب کے نام پر ہوئی۔ اب امریکی رخصت ہوئے ہیں تو القاعدہ سے بدتر دہشت گرد تنظیم داعش کو چھوڑ گئے ہیں۔
چند دن قبل کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملے اور بم دھماکوں کے بعد امریکیوں نے داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ ان دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ مارے گئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے گزشتہ سے پیوستہ شب جب امریکی فوج کے ایک میجر جنرل آخری امریکی سپاہی کے طور پر افغانستان سے رخصت ہوئے، درمیانی برسوں میں بیس کروڑ ڈالر روزانہ کی بنیاد پر خرچ کرکے امریکہ جیسی سپر طاقت کو کیا حاصل ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے ،
گزشتہ سے پیوستہ شب جب آخری امریکی فوجی افغانستان سے روانہ ہوا تو کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کے ساتھ طالبان نے ملک بھر میں جشن فتح منایا۔
حالیہ دنوں میں چند ایسے واقعات ہوئے جن پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔ کابل میں طالبان کے ذمہ داران ان واقعات کو انفرادی فعل قرار دے کر تحقیقات کے دعوے کے ساتھ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا کہہ رہے ہیں ۔
کابل ایئرپورٹ کی حدود اور گردونواح میں اب بھی دس ہزار سے زائد افغان مردوزن اور بچے بیرون ملک جانے کی خواہش لئے موجود ہیں۔
ابتدائی طور پر طالبان نے جس بارہ رکنی مشاورتی کونسل کا اعلان کیا تھا اس کا کوئی خاص کردار اور عملداری دکھائی نہیں دیتی۔
افغانستان اپنی تاریخ کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے عالمی برادری اور اس کے پڑوسی ممالک دیکھ رہے ہیں کہ نئی قیادت کیسا نظام حکومت دیتی ہے اور کیا اپنے وعدہ کے مطابق مختلف الخیال افغان گروپوں کو مستقل طور پر ساتھ لے کر چلتی ہے یا نہیں۔ اصولی طورپر طالبان کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام اور رویہ اپناتے ہیں یا حسب سابق مخصوص قبائلی فہم کو نظریہ کے طور پر پیش کرکے اپنے پچھلے دور اقتدار والے حالات کو دوبارہ افغان عوام کا مقدر بناتے ہیں؟
گو آنے والے ایک دو ہفتوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی اس کے باوجود یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ فتح کی خوشی کو خدمت کے جذبے میں تبدیل کرکے ہی وہ افغان عوام کے لئے بہتر ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔
افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہوگی کیا وہ دوحا معاہدہ کے مطابق ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور یہ کہ جو مخصوص طبقات ماضی میں ان دہشت گردوں کا نشانہ رہے انہیں ریاستی طور پر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ثانیاً یہ کہ جو نظام وہ دیں گے وہ عصری شعور سے ہم آہنگ ہوگا؟ یہ اور اس سے جڑے سوالوں کا جواب یقینا مختلف الخیال افغان گروپوں اور عالمی برادری کو اگلے چند دنوں میں مل جائے گا۔
طالبان کو اپنی عملداری والے افغانستان میں اولین طور پر دو کام کرنے ہوں گے اولاً عدم تحفظ کا خاتمہ تاکہ انتقال آبادی میں کمی آئے اور لوگ نئی حکومت پر اعتماد کریں۔ ثانیاً یہ کہ روزمرہ کی ضروریات کے حوالے سے جنم لینے والا بحران شدت اختیار نہ کرنے پائے۔
ان ابتدائی دو کاموں کے حوالے سے نئی قیادت کی کارکردگی سامنے آئے گی اور یہی اسے وسیع البنیاد اعتماد بھی فراہم کرنے کا موجب بنے گی۔
نئی افغان قیادت کے سامنے چیلنجز بھی ہیں اور مسائل بھی۔ ایک اہم مسئلہ وادی پنج شیر کے باسیوں سے پرامن انداز میں معاملہ طے کرنا ہے۔ ماضی کے واقعات کی وجہ سے دونوں جانب تلخی اور بداعتمادی بھی بہرطور موجود ہے۔
افغان تحریک طالبان کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ عالمی برادری اور اس کے پڑوسی ممالک ان سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ دوحہ معاہدہ کے مطابق ایسا پرامن افغانستان یقینی بنائیں گے جو خوفناک ماضی سے محفوظ ہو اور وحدت ملی کے جذبہ سے آگے بڑھے۔
طالبان کو ماضی کی طرح پڑوسی ملکوں میں اپنے ہم خیالوں کی سرپرستی سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ فوری طورپر داعش سمیت ان تمام تنظیموں کے مراکز ختم کرنا ہوں گے جو ایک طویل عرصہ سے افغان سرزمین کو پڑوسیوں کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں
مختصراً یہ کہ افغان تاریخ کا نیا دور درحقیقت طالبان کے امتحان کا دور ہے۔ قومی اتفاق رائے، تعمیروترقی، سماجی وحدت، انصاف اور روزگار کی فراہمی، محفوظ سرحدیں اور دنیا سے مساوی بنیادوں پر تعلقات آج کے افغانستان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔
ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ افغانستان میں ماضی کو دہرانے کی بجائے شعوری طور پر آگے بڑھنے اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے گا تاکہ افغان عوام کو چالیس سالہ بدامنی اور دوسرے مسائل سے دائمی طور پر نجات مل سکے۔
یہ امر بہر صورت مد نظر رکھنا ہوگا کہ عدم توازن پر مبنی نظام اور پالیسیاں نئی خانہ جنگی کا دروازہ کھول سکتی ہیں ایسا ہوا تو اس سے چار اور کے ممالک بھی متاثر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author