حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دنوں سے ہمت جمع کررہا ہوں کے جنم شہر میں موجود رضی بھائی (رضی الدین رضی عمر میں مجھ سے کچھ کم ہی ہیں لیکن انہیں رضی بھائی کہنا اچھا لگتا ہے) کو فون کروں اور ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے مسلط ہوئی بیروزگاری پر احوال بانٹوں لیکن مسلسل ناکامی ہوئی۔ دو تیین بار نمبر ملاکر فون بند کردیا، سوچا کیا کہوں گا۔
رضی بھی ان 18ہزار لوگوں میں شامل ہیں جو ایک ایسے عدالتی فیصلے کی بھینٹ چڑھے جو 2سال سے کچھ کم وقت سے محفوظ پڑا تھا۔ اب ذرائع ابلاغ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم نے اپنی ریٹائرمنٹ والے دن سنادیا۔
پلک جھپکتے میں 18ہزار کے قریب خاندانوں کے سربراہ بیروزگار ہوگئے۔
اس فیصلے کا مقصد ( ایک پسِ منظر) یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے اولین دو ادوار 1988ء اور 1993ءمیں اداروں میں ہزاروں بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں دی تھیں یہ ملازمتیں مروجہ قوانین پر عمل کر کے دی گئیں ۔ 1990ء میں جنرل حمید گل کا تخلیق کردہ اسلامی جمہوری اتحاد برسراقتدار آیا تو اس نے تمام افراد کو بیروزگاری کے صحرا میں دھکیل دیا۔
1993ء میں دوبارہ پیپیلزپارٹی اقتدار میں آئی تو نہ صرف برطرف ملازمین کو بحال کردیا گیا بلکہ اس دوسرے دور میں پیپلزپارٹی نے دوبارہ ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔
رضی الدین رضی پی پی پی کے اسی دوسرے دور میں سرکاری خبر رساں ایجنسی میں باضابطہ طریقہ کار کے مطابق عامل صحافی کے طور پر شامل ہوئے( اس سے قبل وہ معروف اخبارات سے منسلک تھے ) پی پی پی کے دوسرے دور میں ملازمتیں حاصل کرنے والوں کو کامریڈ میاں نوازشریف نے 1997ء میں دوسری بار وزیراعظم بننے پر یہ کہتے ہوئے برطرف کردیا کہ پیپلزپارٹی نے سرکاری اداروں میں اپنے کارکن بھرتی کردیئے تھے۔
(ن لیگ کے اس دور میں میرے بھائی سید اسد بخاری کو پی آئی اے کی ملازمت سے نکالا گیا ان پر الزام تھا کہ وہ میرے بھائی ہیں اور میں حکومت مخالف صحافی ہوں۔ (ن) لیگ کی پی آئی اے میں تنظیم کے سربراہ غفار لون اس برطرفی میں پیش پیش تھے)
ن لیگ کی حکومت کا تختہ جنرل پرویز مشرف نے الٹایا لیکن بیروزگاروں کی بات نہ بن پائی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی 2008ء میں اقتدار میں آئی تو پارٹی نے پارلیمانی راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔
ایک قانون سازی ( ایکٹ آف پارلیمینٹ ) کے تحت پیپلزپارٹی کے ادوار میں بھرتی ہوکر آئی جے آئی اور ن لیگ کے انتقام کا نشانہ بننے والوں کو سابقہ تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ بحال کردیا گیا۔
اس بحالی کے خلاف اپیل ہوئی جو مسترد کردی گئی۔ نظرثانی کی اپیل کی سماعتیں طویل عرصہ چلیں پھر کہا گیا کہ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
یہاں یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ رضی الدین رضی سمیت ملتان سے جو عامل صحافی اے پی پی میں بھرتی ہوئے ان میں سے بعض کو بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو برطرف کرنے والے سردار فاروق لغاری کی قائم کردہ نگران حکومت کے وزیر اطلاعات ارشاد احمد حقانی کے حکم پر برطرف کیا گیا۔
رضی بھی متاثرین ارشاد احمد حقانی میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی نے 2008ء میں برسراقتدار آنے کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے برطرف ملازمین کی بحالیاں کی تھیں۔
سپریم کورٹ کے ایک سے زائد فیصلے موجود ہیں کہ عدالت ایکٹ آف پارلیمنٹ کو تبدیل یا منسوخ نہیں کرسکتی۔ کچھ عرصہ قبل سید یوسف رضا گیلانی کے دور کے ایسے ہی ایک معاملے میں سپریم کورٹ کہہ چکی کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت اٹھائے گئے اقدامات ختم نہیں کئے جاسکتے۔
جسٹس مشیر عالم اس تین رکنی بنچ میں تھے جس کے فیصلے سے 18ہزار افراد بیروزگار ہوئے اس بنچ کے ایک رکن وفات پاچکے، دوسرے قبل ازیں ریٹائر ہوئے تھے اب جسٹس مشیر عالم نے اپنی ریٹائرمنٹ والے دن جو فیصلہ سنایا اس کے حوالے سے متعدد سوالات ہیں
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا فیصلہ محفوظ کرتے وقت یا بعد کے عرصہ میں دوسرے دو جج صاحبان فیصلے پر اپنے دستخط کرچکے تھے؟
یہ بھی کہ لگ بھگ ڈیڑھ دو سال سے محفوظ فیصلہ جسٹس مشیر عالم نے عدالتی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے آخری دن ہی کیوں سنایا؟
یہ بھی کہا جارہاہے کہ آخری روز سنائے گئے فیصلے کے پیچھے وہ ’’صاحب‘‘ ہیں جنہیں وزیراعظم ہاوس سے لاکر سپریم کورٹ میں اہم انتظامی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ،
سوالات اور بھی ہیں مگر بنیادی اہمیت کا معاملہ وہی ہے جو بالائی سطورمیں عرض کرچکا وہ یہ کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہوئی بحالیاں سپریم کورٹ کیسے منسوخ کرسکتی ہے خصوصاً اس صورت میں جب کہ کچھ عرصہ قبل گیلانی دور کے ایک ایسے ہی معاملہ میں عدالت کہہ چکی کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کو منسوخ یا اس میں ترمیم وغیرہ ہماری صوابدید نہیں۔
عدالتی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے آخری دن سنائے گئے جسٹس مشیر عالم کے فیصلے نے 18ہزار خانادنوں پر فاقہ کشی کی تلواریں لٹکادیں۔
عدالت کا احترام اپنی جگہ لیکن یہ سوال تو پوچھا جاسکتاہے کہ اگر پارلیمان کی قانون سازی (ایکٹ آف پارلیمنٹ) کو تحفظ حاصل نہیں تو پھر منتخب ایوانوں کی ضرورت کیا ہے؟
یہاں یہ امر بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پیپلزپارٹی نے کبھی بھی (ن) لیگ کے دورمیں ملازمتیں پانے والوں کو بیروزگار نہیں کیا۔
ایسا کیا ہوتا تو گوالمنڈی کی آدھی سے زیادہ آبادی کے گھروں میں فاقے ناچ رہے ہوتے۔
یہ وصف بلکہ "ظرف” (ن) لیگ کا ہی رہا کہ اس نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کے طور پر نبھایا اور پی پی پی کے دور میں ملازمتیں حاصل کرنے یا دوسرے دور میں بحال ہونے والوں کو بیروزگار کرتے ہوئے لمحہ بھر کے لئے یہ نہیں سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
ستم بالائے ستم لغاری کی نگران حکومت کے وزیر ارشاد احمد حقانی (وہ اب اس دنیا میں نہیں) کا اقدام ہے جنہوں نے اپنے ماتحت (وزارت اطلاعات کےمحکموں میں سے) لوگوں کو برطرف کرنے کا حکم دیا گو اس کی زد میں زیادہ تر وہ لوگ آئے جن کی مدت ملازمین کا ابتدائی پروبیشن پریڈ مکمل نہیں ہوا تھا پھر بھی آزادی اظہاراور جمہوریت کے "عظیم چاچا جان” کہلانے والے مرحوم ارشاد حقانی کا حقیقی کردار سمجھنے کے لئے یہی ایک فیصلہ کافی ہے۔
ہم عجیب و غریب سماج اور نظام کی چھترچھایا میں جی رہے ہیں، روزگار کی فراہمی اور بیروزگاری ہر دو کے پیچھے سیاست ہوتی ہے۔
بیروزگاری کتنا بڑا عذاب ہے اس تلخ حقیقت کو میں بطور خاص سمجھتا ہوں۔ ساڑھے چار دہائیوں کے دوران کئی مرتبہ بیروزگاری جھیلی اور طویل مدت تک سڑکیں ناپیں۔ ایک بار تو طویل بیروزگاری کی وجہ عقیدہ بنا جب ایک دہشت گرد تنظیم نے مشرق پشاور کے مالکان کو باضابطہ حکم دیا کہ اسے نکالو یہ مسلمان نہیں ہے۔
اس وقت 2014ء میں ہوئی برطرفی اس قدر اچانک تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں۔
بھلا ہو برادرم امتیاز احمد گھمن اور چند دوسرے دوستوں کا جنہوں نے اس عرصے میں استقامت کے ساتھ میرا ساتھ دیا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کسی کو بیٹھے بٹھائے بیروزگار کردینا معمولی سی بات ہے۔
” ضمیر” بھی کچھ نہیں کہتا۔ اس طرح ہونا نہیں چاہیے۔ جسٹس مشیر عالم نے سبکدوشی والے دن فیصلہ کیوں سنایا۔
اسلام آباد میں اس حوالے سے دو تین کہانیاں سفر کررہی ہیں ان سطور میں ان کہانیوں میں سے ایک بارے ٹھوس معلومات کے باوجود کچھ عرض کرنا مناسب نہیں البتہ یہ ضرور عرض کرنا ہے کہ:
اتنی نہ بڑھائیں پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ