دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان۔ انخلا کے عمل کو لہو کی سلامی||حیدر جاوید سید

کابل ایئرپروٹ کے باہر ہوئے تین دھماکوں میں ابتدائی اطلاع کے مطابق 12امریکی فوجیوں سمیت 72افراد جاں بحق ہوئے اور 211 زخمی۔ داعش خراسان چیپٹر نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تین میں سے ایک دھماکہ خودکش حملہ تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کابل ایئرپروٹ کے باہر ہوئے تین دھماکوں میں ابتدائی اطلاع کے مطابق 12امریکی فوجیوں سمیت 72افراد جاں بحق ہوئے اور 211 زخمی۔ داعش خراسان چیپٹر نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تین میں سے ایک دھماکہ خودکش حملہ تھا۔
کابل میں طالبان کی آمد کے بعد سے ایئرپورٹ کی حدود اور ایئرپورٹ سے باہر ہزاروں لوگ موجود ہیں ان مردوزن اور بچوں میں سے ہر شخص افغانستان سے نکل جانے کا خواہش مند ہے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کے علاوہ اتحادی افواج کے فوجیوں کیلئے مترجم کے فرائض ادا کرنے والے ان کے اہل خانہ اور دوسرے شہری ملک سے باہر جانے کے لیے بے سروسامانی کے عالم میں اس جگہ موجود ہیں
گزشتہ ہفتہ دس دن کے دوران اتحادی ممالک کے طیارے اپنے فوجیوں اور ماہرین کے ساتھ اب تک 7ہزار افغانوں کو لے جاچکے۔ بے یقینی ، غیرمحفوظ مستقبل اور خوف کے سائے ایئرپورٹ کی حدود میں موجود شہریوں کے چہروں سے عیاں ہیں۔ بیٹھے بیٹھائے گھر بار چھوڑ کر دور کے دیسوں میں منتقل ہونے کے لئے یہ ہزاروں مردوزن دس بارہ دنوں سے کھلے آسمان کے نیچے موجود ہیں۔ کھردری زمین ان کی استراحت گاہ بھی ہے اور ان کے لئے محفوظ مقام بھی۔
یہ افغانستان کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟ اس ایک سوال کے مختلف جواب ہیں ایک جواب مشترکہ ہے وہ یہ کہ ہجرت کے خواہش مندوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ اگر وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب نہ ہوئے تو کابل کے نئے حکمران انہیں تشدد کا نشانہ بنائیں گے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں موجود کچھ خاندانوں کے مرد اتحادی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کرتے رہے۔ مترجموں اور ان کے خاندانوں کے واجب القتل ہونے کا جو فتویٰ طالبان نے 2009ء میں دیا تھا وہ برقرار ہے، عام معافی کے اعلان کے باوجود۔
تسنیم نارنگی کہتے ہیں میں نے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے 2009ء والے فتوے کی موجودہ حیثیت (یعنی عام معافی کے اعلان کی روشنی میں) بارے دریافت کیا تو جواب ملا اس کا فیصلہ امیرالمومنین کریں گے۔
مطلب یہ ہے کہ اس فتوے کی زد میں آئے خاندانوں کے لئے کابل اور گھروں کو واپسی مشکل نہیں فی الحال ناممکن بھی ہے۔
کچھ خاندان ان میں وہ ہیں جو پچھلے ادوار میں کابل میں جدیدیت کے علمبردار کے طور پر ابھرے انہوں نے نہ صرف بچیوں کی تعلیم کے لئے بھرپور مہم چلائی بلکہ لبرل معاشرے کو افغانستان کا مستقبل قرار دیا جیسا کہ عبدالرشید خانئے، محمد صادق اور تسلیم درانی کے خاندان ہیں۔ کابل میں اپنے ورود سے قبل طالبان ان تین میں سے دو خاندانوں کے پانچ مرد اور دو خواتین کو پچھلے برسوں میں قتل کرچکے ہیں۔ تسلیم درانی کی صاحبزادی ماہِ گل سال 2020ء میں کابل یونیورسٹی میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہوئی تھی، ان کے بھائی خالد درانی کو 2018ء میں کابل میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ طالبان کے ایک گروپ نے ذمہ داری بھی قبول کی۔
اس مقام پر دستاویزات لئے ملک چھوڑنے کے خواہش مندوں میں شیعہ ہزارہ خاندان بھی کافی تعداد میں موجود ہیں ان میں زیادہ تر وہ خاندان ہیں جو گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے بری طرح متاثر ہوئے ان کا خیال ہے کہ افغانستان سے باہر کی دنیا ان کے لئے محفوظ ہے۔ پچھلے منگل کو ایئرپورٹ کی حدود میں دو ایسے خاندان بھی پہنچے جن کا موقف ہے کہ ان کے گھروں کے 3افراد کو طالبان نے افغان پرچم لہرانے پر تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کرکے لے گئے۔ انہیں بھی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔
ایرانی صحافی جمال اصغرزادہ کہتے ہیں میں نے شیعہ ہزارہ خاندانوں سے دریافت کیا وہ پاکستان اور ایران جانے والے مہاجرین کے قافلوں میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟
جواباً کہا گیا پاکستان میں ہم خود کو محفوظ خیال نہیں کرتے جبکہ ایران افغان طالبان کا اتحادی ہے۔
بے یارومددگار یہ ہزاروں مردوزن کھلے آسمان کے نیچے کئی عذابوں سے دوچار تو ہیں ہی انہیں ایئرپورٹ کی حدود میں موجود غیرملکی فوجیوں کے توہین آمیز سلوک کا بھی سامنا ہے۔
ان سب کا مستقبل کیا ہوگا یہ اہم ترین سوال ہے کیونکہ 99فیصد اتحادی ممالک انخلاء کا آپریشن مکمل کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز متعدد ممالک نے باضابطہ طور پر اس کا اعلان بھی کیا۔ نیٹو، روس اور برطانیہ نے دھماکوں سے متاثرہ جگہ پر موجود لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے مگر یہ لگ بھگ 10 سے 12ہزار افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں کابل سے ہر صورت میں نکلنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ پناہ کا وعدہ کرنے والے ممالک کی عارضی رہائش گاہیں کابل کے مقابلہ میں محفوظ ہوں گی۔
حسرتوں، دکھوں، ناامیدیوں کا شکار ان لوگوں کا مستقبل کیا ہے اس سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا جو اتحادی ممالک انخلا کا عمل مکمل کرچکے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے لئے فلائٹ آپریشن عارضی طور پر دوبارہ شروع کریں گے؟
اس سوال کا جواب تو اتحادی ممالک کے سفارتکار ہی دے سکتے ہیں لیکن کابل میں جن ممالک کے سفارتکار دستیاب ہیں وہ بھی ایسے سوالات کے جواب میں خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوحا معاہدہ (امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوا معاہدہ) میں صاف لکھا ہے طالبان داعش اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
اس معاہدہ پر دستخطوں کے بعد سے آج تک طالبان نے بہرطور کوئی کارروائی نہیں کی۔
داعش کا افغانستان میں ورود اور وجود دونوں امریکی تعاون کا نتیجہ ہیں۔ امریکہ نے شام اور عراق سے بچے کھچے داعشی جنگجوئوں کو محفوظ انداز میں ایک بڑے مسلم ملک کے تعاون سے افغانستان پہنچایا تھا تب بھی اس پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
ٹھوس شواہد سامنے ہونے کے باوجود امریکی اپنے کردار سے انکار کرتے رہے۔
پھر جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ دوحا معاہدہ کے بعد امریکہ افغان حکومت اور طالبان نے اپنی اپنی جگہ ان مسلح گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کیوں نہ کی جو معاہدہ کے تحت تینوں کی ذمہ داری تھی؟
اس وقت سابق اشرف غنی حکومت کا موقف یہ تھا کہ یہ کام اتحادی افواج کو کرنا ہے اور طالبان کو ان علاقوں میں جہاں ان کی عملداری ہے۔
جمعرات کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ایک خودکش اور دو بم دھماکوں سے پیدا شدہ صورتحال کو اگر نرم سے نرم الفاظ میں ’’انخلاء کو لہو کی سلامی‘‘ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
اصولی طور پر ان دھماکوں اور جانی نقصان کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے جو وسیع تر مقاصد کے لئے داعشی جنگجوئوں کو افغانستان لایا اس کی ناک کے نیچے داعش اور بھارت کے روابط مستحکم ہوئے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے یہ جذباتی یا فیشنی الزام ہرگز نہیں، امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کی پچھلے سال والی رپورٹ دنیا بھر کے ذرائغ ابلاع میں شائع ہوچکی ہے کہ داعش اور بھارت میں گہرے روابط استوار ہوچکے۔
بہرطور جمعرات کا سانحہ جس میں ابتدائی اطلاع کے مطابق 72 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ عینی شاہدین اموات کو 100سے زیادہ بتاتے ہیں۔ 211 زخمی وہ ہیں جو علاج معالجے کے مقامات پر پہنچائے گئے۔ معمولی زخمیوں کی تعداد بھی 50کے قریب ہے اور وہ اس وقت بھی متاثرہ جگہ یعنی ایئرپورٹ کی حدود میں موجود ہیں۔ یہ سب لوگ غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں

یہ بھی پڑھیں:

About The Author