نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی گھٹا لے اور خیریت||حیدر جاوید سید

'' کہتے ہیں ہم پاکستانیوں کی اور کتنی سزا باقی ہے ۔ ایسا کب ہو گا جب ہم یا ہمارے بچے آزادی کے ساتھ اپنی قیادت منتخب کرسکیں گے "۔ یہ بھی لکھا "شاہ جی مہنگائی بہت ہے ناشتہ بند کر دیا ہے صرف چائے پیتے ہیں"

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک عامل صحافی کے طور پرموجودہ حالات میں نرم سے نرم انداز میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ اگر پارلیمان کے فیصلے ”کہیں اور” ہونے یا اس پر فیصلے مسلط کئے جانے ہیں تو پھر مناسب ترین بات یہ ہوگی کہ منتخب اداروں کے دروازوں پر تالے ڈال دیئے جائیں ملازمین سے گولڈن ہینڈ شیک کر لیا جائے اس سے کم از کم اربوں روپے سالانہ کی بچت ہوگی اور یہ روپیہ غریب غرباء کے کام آئے گا۔ فقیر راحموں تو کہتے ہیں اس روپے سے پلاٹوں پر مکانات بھی تعمیر کرکے دیئے جا سکتے ہیں تاکہ بھاگ لگے رہیں۔ آپ میری طرح فقیر راحموں کی باتوں پر سردھننا چھوڑ دیجئے اس کا کوئی پتہ نہیں کب کیا کہہ دے ۔ ابھی کل کہہ رہا تھا یار شاہ جی کاش ایسا ہو قرعہ اندازی میں ہم دونوں کے پلاٹ نکلیں اور ”معجزہ” یہ ہے کہ بالکل ساتھ والے بڑی مشکل سے اسے سمجھا پایا ہوں کہ سڑک چھاپوں کے لئے ”معجزے” نہیں ہوتے آج کل ۔
اس تحریر کے لکھے جانے سے 72 گھنٹے قبل وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ایک پررونق خطاب فرمایا ارشاد ہوا۔
"انگلش میڈیم سسٹم ذہنی غلامی ہے ۔ بچوں کی مناسب تربیت نہ ہونے سے نئی نسل تباہی کی طرف جارہی ہے ۔ موبائل اور کمپیوٹر کے غلط استعمال سے جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے”
صدقے واری ان ارشادات کے اللہ میاں نے کیا نبض شناس وزیر اعظم عطا کیا ہے ۔ چند ہی ساعتوں میں مسئلہ کی بنیاد سے آگاہ کرنے کی صلاحیت ۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
ایک قاری ہیں محب اللہ باچہ کبھی کبھار اپنی آراء سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ان کی آراء کا احترام ہے ہمیں ہمیشہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیں لگ بھگ تین دہائیوں سے پڑھ کر برداشت کر رہے ہیں اول اول انہیں ہماری آزاد خیالی پر بہت غصہ آیا کرتاتھا اب غصہ نہیں کرتے البتہ اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ دو دن ادھر واٹس ایپ پر ان کا کرم نامہ موصول ہوا
” کہتے ہیں ہم پاکستانیوں کی اور کتنی سزا باقی ہے ۔ ایسا کب ہو گا جب ہم یا ہمارے بچے آزادی کے ساتھ اپنی قیادت منتخب کرسکیں گے "۔ یہ بھی لکھا "شاہ جی مہنگائی بہت ہے ناشتہ بند کر دیا ہے صرف چائے پیتے ہیں”
چار اٙورسفید پوشوں کا ہجوم ہے ۔ ہر شخص دکھی اور پریشان ہے ۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ابھی دو تین دن قبل تھوک کا کاروبار کرنے والوں نے کالے و سفید چنوں اور دالوں کی فی کلو قیمت میں 10 سے 16 روپے کا اضافہ کیا ہے ۔ پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے گھی کی قیمت میں 16 روپے اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 18 روپے کلو کا اضافہ کر دیا ہے ۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک دلچسپ خبر پڑھ لیجئے
پبلک اکائونٹ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ایل این جی کی خریداری کے لئے بروقت معاہدہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک کو 25 ارب روپے کا نقصان ہوا ‘ اس نقصان پر تحریر نویس ندیم بابر نامی شخص کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی سوچ رہا تھا کہ فقیر راحموں نے یاد دلایایہ سب پچھلی کرپٹ حکومتوں کا کیا دھرا ہے ۔
اچھا یہ بھی خالص دیسی لطیفہ ہے کہ ہر پچھلی حکومت کی سواریاں(وزراء اور رہنما ) نئی حکومت کی بس میں سوار ہوتے ہیں مگر کرپٹ پچھلی حکومتیں ہی ہوتی ہیں۔
چلیں محب اللہ باچہ کے پیغام پر بات کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے بلکہ ہمیشہ سے ہے کہ جب تک ہم استانہ عالیہ آبپارہ شریف کے منظم پروپیگنڈے کو ایمان کا ساتواں رکن اور حب الوطنی کی معراج سمجھنا ترک نہیں کر دیتے اس وقت آزادانہ طور پر قیادت کے انتخاب کا حق ملنا مشکل ہے ۔
جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے پر اربوں روپے پھونکنے والے تجربوں سے باز نہیں آسکتے وہ کیا کہا تھا شاعر نے ”چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی”۔
بس یہی معاملہ ہے سیاسی جماعتیں جتنی اور جیسی بھی ہیں ان کا قصور یہ ہے کہ ا نہوں نے طاقتور حلقوں کی خوشنودی اور الیکٹیبلز کی سیاست کو اہمیت دی ۔
1970ء کے انتخابات غالباً پہلے اور آخری انتخابات تھے جب سیاسی کارکنوں نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے تھے ۔ پھر کیا ہوا بڑے خاندانوں نے ہر حکمران جماعت میں لاکھوں افراد کے ہمراہ شمولیت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔
مہنگائی یقیناً ہے اور بہت زیادہ ہے سفید پوشوں اور دیہاڑی داروں کے حالات بہت خراب ہیں ضروریات زندگی کی چیزیں اس قدر مہنگی ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے ۔ تین سال پہلے جب ایک کرپٹ حکومت برسراقتدار تھی آٹا 35 روپے اور چینی 55 روپے کلو تھی آج جب "سپر ایماندار” حکومت ہے آٹا 80 سے 85 روپے اور چینی 110 روپے کلو ہے دیگر اشیاء کا بھی یہی حال ہے اس حال نے لوگوں کا حال خراب کر رکھا گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے بارہ ادویات مہنگی کرنے اور 32 کی قیمتیں ازسر نو مقرر کرنے کی منظوری دی پچھلے دو سال کے دوران ادویات کی قیمتوں میں سرکاری طور پر یہ پانچواں اور غیر سرکاری طور پر ساتواں اضافہ ہے
پہلی بار 2019ء میں حکومت نے 15 سے 19فیصد قیمت بڑھانے کی اجازت دی تھی تب ادویہ ساز کمپنیوں نے 100سے 200 فیصد قیمتیں بڑھا لیں۔ ان دنوں ان سطور میں تفصیل کے ساتھ قیمتوں میں اضافے اور من مانیوں کے بارے عرض کیا تھا۔
یاد کیجئے وزیر اعظم نے اس وقت کے وفاقی وزیر صحت کو منصب سے ہٹاتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ادویہ ساز اداروں نے صارفین سے جو اربوں روپے وصول کئے ہیں یہ واپس دلوائے جائیں گے پھر کیا ہوا یہ سب پر عیاں ہے ۔
اس ملک میں سرمایہ داروں ‘ دینداروں ‘ بیورو کریٹس اور دو اور طبقوں کے مزے ہیں اب ان دو طبقوں کی شناخت نہ پوچھ لیجئے گا سفید پوش آدمی ہوں اور بوڑھا بھی تھوڑی سے محنت کیجئے خود جان لیں گے ۔
آخری بات وزیر اعظم کی خدمت میں عرض کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ حضور معاملہ صرف تربیت کا نہیں اور گھٹالے بھی بہت ہیں مثلاً آپ کا شوق یک نصابی ذرا اس پر نگاہ دوڑایئے اس یکساں نصابی سے کیسی مخلوق تیار ہو گی ۔
حضور جب تک ہمارے بچے اپنے بزرگوں کو ڈاکو اورحملہ آوروں کو نجات دہندہ اور ہیرو کے طور پر پڑھتے رہیں گے ذہنی معذوردولے شاہ کے چوہے ہی تخلیق ہوتے رہیں گے ۔
پیارے قارئین باقی سب خیریت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author