نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ حالِ دل سُن لیجئے||حیدر جاوید سید

بس جو حال دل تھا سو بیان کیا۔ ملتان آباد رہے تا قیامت، ویسے ملتان سے بچھڑ کر اپنا جینا بھی کسی قیامت سے کم نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ سے اکثر دوست اور قارئین پوچھتے رہتے ہیں آپ اپنے کالموں میں ملتان کو بہت یاد کرتے ہیں پھر ملتان میں رہتے بستے کیوں نہیں؟
کیا عرض کروں حالات کی صلیب پر بلند ہوئے دربدر ملتانی کو ملتان میں کیا چیز رہنے بسنے نہیں دیتی، پاوں کا چکر ہے یا رزق کا، حالات کی گردش ہے یا نصیب کی بات، لیکن سچ یہ ہے کہ ملتان سے دور رہتے بستے رزق کے لئے شہر شہر پڑاو ڈالتے اس ملتانی سے ملتان کبھی جدا ہی نہیں ہوا۔
ان سموں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں ملتان کی یادیں دستک دے رہی ہیں اور اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس کررہا ہوں۔ ایک بار کہیں کہہ دیا تھا ’’ میں جنت کے بدلے ملتان کبھی نہ دوں‘‘ بہت سارے دین دار میرے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے۔ کچھ فتووں کے کھڑاک بھی ہوئے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
کسی کو اپنے جنم شہر یا مادرِ مہربان کے شہر سے الفت نہیں تو یہ فقیر کیا کرے۔ مجھے تو اپنے جنم شہر سے محبت ہے۔ دیکھاوا ہرگز نہیں اور دیکھاوا بھی کس بات کا۔ یہ شہر ہی میری شناخت ہے۔ میرے والدین اور بزرگوں کی قبریں اسی شہر میں ہیں۔ بہن بھائی یہیں بستے ہیں، دوست ہیں ایسے باکمال دوست کہ معمولی سی تکلیف کی خبر پہنچے تو تڑپ اٹھتے ہیں۔
چنددن اُدھر کی ایک تحریر ’’ملتان ملتان ہے صاحبو!‘‘ پر قارئین اور احباب کے تبصروں سے قلم مزدور کو اُجرت مل گئی۔ ڈھارس بندھی کہ ’’اک ہم ہی نہیں تنہا، ملتان کے دیوانے ہزاروں ہیں‘‘
ملتان سے ملنے اور بچھڑنے کا سلسلہ 53سال سے جاری ہے9سال کی عمر میں پہلی بار اپنے محبوب شہر سے جدا ہوا تھا اس اولین جدائی کو 53سال ہوگئے۔
مجھ پردیسی کو جب ملتان اور ملتانیوں کی یاد ستاتی ہے تو خود کو لائبریری تک محدود کرلیتا ہوں۔ کتابوں کے اوراق الٹتا ہوں، درمیان میں یادیں اترنے لگتی ہیں، ماں باپ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ یاد آتے ہیں ، سفر حیات میں بچھڑ جانے والے ملتانی دوست سعدی خان، لالہ زمان جعفری، حکیم محمود خان، عزیز نیازی، لالہ عمر علی خان بلوچ، سید حسن رضا شاہ (رضو شاہ) تاج محمد خان لنگاہ، قاری نورالحق قریشی، استاد مکرم سید حیدر عباس گردیزی، عارف محمود قریشی، چاچا عطاء اللہ ملک مرحوم یہ سبھی کیا شاندار لوگ تھے ملتان کے روشن چہرے اپنی اپنی جگہ ایک مکمل انجمن تھے۔ کسے یاد کیجئے اور کس کو بھول جانے کی کوشش۔
بھلا ذات کا حصہ ہوئے لوگ کبھی بھلائے جاتے ہیں۔
پچھلے دو تین دن کالم نہیں لکھ سکا، چند احباب اور قارئین نے خیریت دریافت کی۔ شکر ہے خیریت ہی ہے یہ ہلکی پھلکی علالت تو چلتی رہتی ہے باسٹھ برس سے چند ماہ اوپر کا سفر حیات طے کرچکے شخص کے پاس اب کھونے کو رکھا کیا ہے۔ ملتان سے دوری سے بڑا صدمہ اور کیا ہوگا کسی ملتانی کے لئے۔
بجا کے دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار گردن جھکاکر دیکھ لیجئے۔ لیکن آنکھیں بند کرکے یادوں کے سہارے دیکھنے اور محسوس کرنے میں بہت فرق ہے۔
بہت دن ہوتے ہیں ایک محفل میں ملتان اور ملتانیوں کے ساتھ ملتان کی تاریخ کا ذکر خیر جاری تھا۔ ایک دوست نے دریافت کیا شاہ جی ملتان کے لئے کیا کرسکتے ہو؟
عرض کیا ملتان اور ملتانیوں کی سلامتی کے لئے اپنی جان اور زندگی کا صدقہ خوشی سے پیش کروں گا گر مالک قبول کرے۔ میرے بس میں یہی ہے ہم کون سا یہاں شاہ دوراں ہیں۔ جتنی بساط ہے اتنا تو حق ادا کرنا بنتا ہے۔
کبھی کبھی گزرے ماہ و سال کے قصے بہت یاد آتے ہیں۔ گھر پر ہوتا ہوں تو مجھے دوپہر میں سونے کی عادت ہے۔ ہمارے دُلارے یار رضو شاہ کووفات پائے عرصہ ہوا لیکن دوپہر کے آرام کے دوران آج بھی اچانک آنکھ کھلتی ہے اس احساس کے ساتھ کہ رضو شاہ ملتان پریس کلب میں منتظر ہوگا۔ گزرے وقت میں جو چند برس ملتان میں قیام رہا ہم تقریباً روزانہ ہی ملتان پریس کلب میں دوپہر سے شام اترنے تک اکٹھے رہتے اور دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی اسلم جاوید اور کچھ دوسرے دوست بھی اس نشست کا حصہ ہوتے۔ یا کبھی منصور کریم سیال بھی آجاتے تھے اور آتے ہی بلند آواز سے کہتے ’’تہاکوں سیداں کو گرمی نی لگدی تتی ڈوپہر اچ کٹھے تھئے بیٹھے او‘‘۔
ملتان ہے، ملتانی منڈلی ہے ملتانی سنگت ہے اور بھی بہت کچھ، ہفتوں، مہینوں کے وقفے سے ملتان جاتا ہوں تو تقریباً سبھی سے ملاقات ہوجاتی ہے۔
کچہری میں یحییٰ ممتاز ایڈووکیٹ کے چیمبر میں خوب رونق لگتی ہے۔ آستانہ عالیہ حیدریہ شاکریہ کتابیہ پر حاضری واجبات کا حصہ ہے۔
برادرِ عزیز اور دوست ندیم شاہ کو شکوہ رہتا ہے کہ ملتان آتے ہو اور واپسی بھی ہوجاتی ہے ملتے ہی نہیں۔ یار کیا کریں ہر بار وقت پر اختیار قائم نہیں رہتا اور واپسی کا لمحہ آن موجود ہوتا ہے۔
عزیزم کامران مگسی نے ’’ملتان ملتان ہے صاحبو!‘‘ والا کالم اپنی فیس بک آئی ڈی پر شیئر کیا وہاں ایک اجلے ملتانی نے لکھا کسی دن گم شدہ ملتان کا ذکر بھی کرلیجئے کہ وہ کہاں گیا۔ تاریخی عمارتیں اور آثار کیا ہوئے؟ ان کی خدمت میں عرض ہے ’’جی ضرور کسی دن تفصیل سے اس موضوع پر لکھ کر تعمیلِ حکم کروں گا‘‘
فی الوقت تو یہ ہے کہ بٹوارہ بہت کچھ کھاجاتا ہے۔ زندہ انسان کھاتے بٹوارے کے سامنے تاریخی آثار اور عمارتیں کچھ نہیں ہوتیں۔
وقت آگے بڑھتا رہتا ہے اور بڑھ ہی رہا ہے بس وقت یادوں کے سامنے دیوار نہیں اٹھاپاتا۔
خیال یہ تھا کہ پچھلے تین چار دنوں میں اردگرد در آئی تبدیلیوں کے حوالے سے عرض کروں گا لیکن ذکر ملتان شروع ہو تو اسے ترک کرکے کسی اور موضوع پر توجہ دینا یا لکھنا بدعت شمار ہوتا ہے۔
اگلے کالموں میں ان موضوعات پر عرض کروں گا۔ ابھی ملتان کی کچھ اور باتیں کرلیتے ہیں۔ قلعہ کہنا قاسم باغ پر کبھی کیفے عرفات ہوا کرتا تھا۔ سپہر کے بعد سے رات گئے تک اس کیفے میں بہت رونق رہتی تھی۔ گھنٹہ گھر کا کیفے شاہد تو چوک کی توسیع میں ختم ہوا، فاران ہوٹل کی جگہ غالباً موبائل مارکیٹ بن گئی ہے۔
ملتان نے کچھ کچھ ترقی ہے لیکن دولت گیٹ چوک میں سیوریج کا نظام ویسے کا ویسا ہی ہے۔ یقین نہ آئے دولت گیٹ والوں سے دریافت کرلیجئے۔
معاف کیجئے گا آج کا کالم پھر ذکرِ ملتان ہی ہے۔ یادوں کی دستک اور اداسی پر کسی کو اختیار کہاں۔
بس جو حال دل تھا سو بیان کیا۔ ملتان آباد رہے تا قیامت، ویسے ملتان سے بچھڑ کر اپنا جینا بھی کسی قیامت سے کم نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author