جام ایم ڈی گانگا
03006707148
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام ایم ڈی گانگا… کالم ذرا سوچئے… 03006701748
ضلع رحیم یارخان میں یہ پہلا موقع ہے کہ میانوالی قریشیاں سے تعلق رکھنے والے وزراء بھائیوں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرر بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے اپنے انتخابی حلقوں کے علاوہ دوسرے حلقہ جات میں بھی جہازی سائز کے پینافلیکس لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.شہروں میں پہلے ایسا نہیں تھا.اب ایسا ان کی شہرت و پذیرائی، کام کروانے فنڈز دلانے میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے عوامی چاہت کا نتیجہ ہے. یا یہ پینافلیکس وزارت خزانہ کا کوئی کرشمہ و کمال ہے.وزیر خزانہ کے علاوہ چیئرمین پی اینڈ ڈی اور سیکرٹریز بھی یہ دعوے کر سکتے ہیں کہ وہ اربوں روپے کے کام کروا رہے ہیں.فلاں حلقے کے فلاں ایم پی اے کو میں نے اتنے فنڈز دیئے ہیں وغیرہ وغیرہ.منصوبہ جات اور فنڈز کے کاغذات پر وزیر خزانہ کے دستخطوں کی کہاں کہاں ضرورت ہوتی ہے. یہ دستخط کرنے کا مطلب ہی فنڈز دینا ہے تو پھر یقینا وزیر خزانہ صاحب صرف ضلع رحیم یارخان کو نہیں بلکہ پورے صوبے پر یہ احسان اور مہربانی فرما رہے ہیں. ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ جہازی سائز پینافلیکس کیسے لگتے ہیں کون لگواتا ہے ان کے اخراجات کون اٹھاتا اور برداشت کرتا ہے.انہیں اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے. غیر جانبدارانہ طور پر اگر دیکھا جائے تو اس عمل میں عوامی چاہت والی تو قطعا کوئی بات نہ کل تھی اور نہ آج ہے. یہ محض خوشامد، سیاسی و کاروباری انویسٹمنٹ کے علاوہ کچھ مافیاز اور کرپٹ عناصر کے لیے پناہ گاہ اور تحفظ کے لیے دورِ جدید کے رنگ ہیں.کرپشن اور مختلف قسم کے کرپٹ عناصر ہمارا آج کا موضوع نہیں ہیں.تھانہ رکن پور کے علاقے یونین کونسل محمد پور قریشیاں میں گذشتہ ماہ صاحب اقتدار صاحبان کے ایک چہیتے سے چوری کی تین کاریں برآمد ہوئیں جن کا لنک ضلع کے مشہور فراڈی گروپ لال شاہ گروپ سے نکلا.تکڑی سفارش اور موٹی رقم کے عوض ان کا نام تک بھی گول کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کے کاروباری پوائنٹس پر بھی وقت کے بااثر وزراء صاحبان کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں.یہ جہازی پینافلیکس اس قسم کے خاص لوگ لگاتے ہیں. اسی نام نہاد شریف گروپ کے ایک سربراہ کو تھوڑا عرصہ پہلے کراچی میں اینٹی نارکو ٹکس والے اٹھا کر لے گئے. وہاں سے سیاسی سرپرست اور ایک اعلی سرکاری آفیسر کے ذریعے کیسے جان چھوٹی یہ داستان پھر کبھی سہی. ہم واپس اپنے آج کے ٹاپک کی طرف آتے ہیں
محترم قارئین کرام،، ضلع رحیم یارخان میں ہر حکومتی ایم این اے اور ایم پی اے اجکل کر 25ارب روپے فنڈز کی گٹھڑی سر پر اٹھائے اور ہُوکے دیتا نظر آتا ہے یہ دیکھو میں آپ کے لیے اتنے منصوبے اور فنڈز لایا ہوں.اس سال رحیم یارخان کےلیے 25ارب روپے کب، کون کہاں سے لایا ہے وہ کہاں خرچ ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں. اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں ہیں.گٹھڑی ایک ہے اور دعوے دار بہت ہیں. اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ موجودہ حکومت، ایم این اے، ایم پی اے کوئی کام نہیں کر رہے بلاشبہ ترقیاتی ہو رہے ہیں اور نظر بھی آ رہے ہیں. یہ علیحدہ بات ہے کہ منصوبے چھوٹے اور بورڈ بڑے ہیں.ان صاحبان کو سابقہ حکومت کے منصوبوں کا وزن اپنے سر پر اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے. جلد ہی حقائق کا پتہ چل جاتا ہے. 25ارب روپے نہ سہی 6ارب روپے سہی آپ کام کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں زیادہ کا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت?خوامخواہ کا گناہ. چھ ارب میں سے تین ارب تو مخدوم حمیدالدین حاکم ؒ سرجیکل ہسپتال کے ہو گئے باقی کی رقم دعوے داروں میں تقسیم کریں تو کتنا کتنا حصہ بنتا یے.سی پیک منصوبے کے تحت ظاہر پیر میں بننے والے حب اینڈ سپوک ہسپتال کی طرح کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کسی ایم این اے ایم پی اے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا لیکن ان کےحواری کریڈٹ کے چکروں میں چکر بازی کی لت میں پڑ جاتے ہیں .کسی سیاسی و سماجی شخصیت کا کسی منصوبے اور کام کے بارے میں مناسب اور بہتر لوکیشن کی تجویز دینا اور اس کے لیے کوشش کرنا بھی یقینا ایک اچھی اور مثبت سوچ ہے.ہم 25ارب فنڈز کی گٹھڑی کی بات کر رہے تھے. اللہ کرے کہ حکومت کی مدت کے تکیمل تک بھی اتنی رقم رحیم یارخان کو مل جائے تو یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ورنہ سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف دور کے چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ اور موجودہ وزیز خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت کا وہ تاریخی خطاب بھی ہم کو اچھی طرح یاد ہے جو انہوں نے موجودہ حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کی موجودگی میں ہونے والے کارکردگی میلے، جشن پروگرام میں کیا تھا. آپ خود فرما رہے تھے کہ سابق حکومت نے سرائیکی وسیب اور ہمارے ساتھ بڑی زیادتی کرتی رہی ہے ہمیں مختص کیے جانے والے فنڈز بھی پورے نہیں دیئے جاتے تھے.اعلان کے بعد، درمیان میں واپس لے لیے جاتے تھے یا پھر لیپس ہو کر خزانہ میں ہی محفوظ کے محفوظ رہتے تھے. اب اندرونی صورت حال کیا ہے اس کا پتہ تو موجودہ حکمرانوں کے جانے اور نئے آنے کے بعد ہی چلے گا. یا وقت آنے پر باس، حکومت، جماعت کی تبدیلی کی صورت میں آپ صاحبان خود ہی بیان فرمائیں گے.
بلاشبہ مخدوم خسرو بختیار نے ضلع رحیم یارخان میں جائز و ناجائز بہرحال اپنی سیاست کا لوہا منوایا ہے. دوسرے مخادیم کی نسبت ترقیاتی کام بھی زیادہ کروا رہے ہیں.وزراء بھائیوں میں انتقامی اور متکبرانہ رویہ نہ ہوتا، قبضہ گیر گروپس کی سرپرستی کی لت میں نہ پڑتے تو یقینا مخدوم خسرو بختیار لوگوں کے دلوں پر راج کرتے.سرائیکی اور سرائیکی صوبہ کے بارے میں ان کی زہریلی گفتگو کے اثرات شاید زندگی بھر کےلیے ان کے کردار اور دامن پر بد نما داغ کی طرح بدبو کے ساتھ موجود ہی رہیں گے. آفتاب اقبال کے پروگرام کی گفتگو ہر موڑ اور ہر موقع پر زخموں کو تازہ کرنے کے لیے کافی ہے.
مخدوم خسرو بختیار کا خان پور سے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کچھ لوگوں کو بالکل ہضم نہیں ہو رہا. مخدوم خسرو بختیار کے خان پور میں لگے پینا فلیکس پر سیاہی پھینکنے کی حرکت جس کسی نے بھی کی ہے.اس کی کسی صورت بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی.سیاسی مخالفین کو چاہئیے کہ وہ اوچھی حرکتوں کی بجائے مخادیم میانوالی قریشیاں کا مقابلہ سیاسی میدان میں سیاسی انداز میں کریں.لیکن یہ بھی یاد رکھیں دوسروں کے جذبات اور غیرت سے کھیلنے والوں کے ساتھ سیاست دانوں سے ہٹ کر جذبات میں آ کر جذباتی وجنونی لوگ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں.کسی وقتی سیاسی فائدے، عہدے کے حصول یا کسی کی خوشنودی وغیرہ کی خاطر سرائیکی یا سرائیکی صوبے کو زہر قاتل کہنا مخدوم خسرو بختیار کی انتہائی غلط بات تھی اور ہے. سنا ہے کہ مخدوم خسرو بختیار کے خان پور میں 45کے قریب تشہیری پینافلیکس لگے ہوئے تھے. سیاسی پھینکنے کے بعد پہلے میاں عثمان پھر نامعلوم افراد کے خلاف کارروائی اور اس پر آنے والے ردعمل کو دیکھتے ہوئے معاملہ پر ریت اور پانی ڈال کر اسے تقریبا ٹھنڈا کر لیا گیا ہے.اس کے بعد مخدوم خسرو بختیار کے لگے ہوئے پینافلیکس اچانک اتار لیے گئے ہیں باقی صرف پانچ بچے ہوئے ہیں. اس نئی صورت اور تبدیلی کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں?. ایسا کیوں اور کس کے حکم پر کیا گیا ہے. سیاسی پھینکے جانے کا خوف یا کچھ اور? سیاسی پھینکے جانے کے خوف والی بات میں تو مجھے کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا. کچھ اور والے معاملے اور خانے میں بھی دو چیزیں ہیں. کیا اس کی وجہ وزیر اعـلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار کو قومی اسمبلی کے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر میاں غوث محمد کی شکایتی درخواست ہے. جس سے وزیر اعلی نے اتفاق کرتے ہوئے نوٹس لیا ہو اور مارکہ سے کہہ دیا ہو کہ یہ ڈرامے بازیاں بس کرو. یا پھر وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار کے وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ کے ضلع بہاول پور کے دورہ کے دوران وزراء بھائیوں مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت کے ساتھ دانستہ یا غیر دانستہ جو کچھ ہوا.مخادیم کی طرف سے یہ اس سلوک کے خلاف اُن کے ردعمل کا آغاز ہو?.
ضلع رحیم یارخان میں یہ پہلا موقع ہے کہ میانوالی قریشیاں سے تعلق رکھنے والے وزراء بھائیوں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرر بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے اپنے انتخابی حلقوں کے علاوہ دوسرے حلقہ جات میں بھی جہازی سائز کے پینافلیکس لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.شہروں میں پہلے ایسا نہیں تھا.اب ایسا ان کی شہرت و پذیرائی، کام کروانے فنڈز دلانے میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے عوامی چاہت کا نتیجہ ہے. یا یہ پینافلیکس وزارت خزانہ کا کوئی کرشمہ و کمال ہے.وزیر خزانہ کے علاوہ چیئرمین پی اینڈ ڈی اور سیکرٹریز بھی یہ دعوے کر سکتے ہیں کہ وہ اربوں روپے کے کام کروا رہے ہیں.فلاں حلقے کے فلاں ایم پی اے کو میں نے اتنے فنڈز دیئے ہیں وغیرہ وغیرہ.منصوبہ جات اور فنڈز کے کاغذات پر وزیر خزانہ کے دستخطوں کی کہاں کہاں ضرورت ہوتی ہے. یہ دستخط کرنے کا مطلب ہی فنڈز دینا ہے تو پھر یقینا وزیر خزانہ صاحب صرف ضلع رحیم یارخان کو نہیں بلکہ پورے صوبے پر یہ احسان اور مہربانی فرما رہے ہیں. ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ جہازی سائز پینافلیکس کیسے لگتے ہیں کون لگواتا ہے ان کے اخراجات کون اٹھاتا اور برداشت کرتا ہے.انہیں اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے. غیر جانبدارانہ طور پر اگر دیکھا جائے تو اس عمل میں عوامی چاہت والی تو قطعا کوئی بات نہ کل تھی اور نہ آج ہے. یہ محض خوشامد، سیاسی و کاروباری انویسٹمنٹ کے علاوہ کچھ مافیاز اور کرپٹ عناصر کے لیے پناہ گاہ اور تحفظ کے لیے دورِ جدید کے رنگ ہیں.کرپشن اور مختلف قسم کے کرپٹ عناصر ہمارا آج کا موضوع نہیں ہیں.تھانہ رکن پور کے علاقے یونین کونسل محمد پور قریشیاں میں گذشتہ ماہ صاحب اقتدار صاحبان کے ایک چہیتے سے چوری کی تین کاریں برآمد ہوئیں جن کا لنک ضلع کے مشہور فراڈی گروپ لال شاہ گروپ سے نکلا.تکڑی سفارش اور موٹی رقم کے عوض ان کا نام تک بھی گول کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کے کاروباری پوائنٹس پر بھی وقت کے بااثر وزراء صاحبان کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں.یہ جہازی پینافلیکس اس قسم کے خاص لوگ لگاتے ہیں. اسی نام نہاد شریف گروپ کے ایک سربراہ کو تھوڑا عرصہ پہلے کراچی میں اینٹی نارکو ٹکس والے اٹھا کر لے گئے. وہاں سے سیاسی سرپرست اور ایک اعلی سرکاری آفیسر کے ذریعے کیسے جان چھوٹی یہ داستان پھر کبھی سہی. ہم واپس اپنے آج کے ٹاپک کی طرف آتے ہیں
محترم قارئین کرام،، ضلع رحیم یارخان میں ہر حکومتی ایم این اے اور ایم پی اے اجکل کر 25ارب روپے فنڈز کی گٹھڑی سر پر اٹھائے اور ہُوکے دیتا نظر آتا ہے یہ دیکھو میں آپ کے لیے اتنے منصوبے اور فنڈز لایا ہوں.اس سال رحیم یارخان کےلیے 25ارب روپے کب، کون کہاں سے لایا ہے وہ کہاں خرچ ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں. اس کی تفصیل کسی کے پاس نہیں ہیں.گٹھڑی ایک ہے اور دعوے دار بہت ہیں. اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ موجودہ حکومت، ایم این اے، ایم پی اے کوئی کام نہیں کر رہے بلاشبہ ترقیاتی ہو رہے ہیں اور نظر بھی آ رہے ہیں. یہ علیحدہ بات ہے کہ منصوبے چھوٹے اور بورڈ بڑے ہیں.ان صاحبان کو سابقہ حکومت کے منصوبوں کا وزن اپنے سر پر اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے. جلد ہی حقائق کا پتہ چل جاتا ہے. 25ارب روپے نہ سہی 6ارب روپے سہی آپ کام کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں زیادہ کا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت?خوامخواہ کا گناہ. چھ ارب میں سے تین ارب تو مخدوم حمیدالدین حاکم ؒ سرجیکل ہسپتال کے ہو گئے باقی کی رقم دعوے داروں میں تقسیم کریں تو کتنا کتنا حصہ بنتا یے.سی پیک منصوبے کے تحت ظاہر پیر میں بننے والے حب اینڈ سپوک ہسپتال کی طرح کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کسی ایم این اے ایم پی اے سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا لیکن ان کےحواری کریڈٹ کے چکروں میں چکر بازی کی لت میں پڑ جاتے ہیں .کسی سیاسی و سماجی شخصیت کا کسی منصوبے اور کام کے بارے میں مناسب اور بہتر لوکیشن کی تجویز دینا اور اس کے لیے کوشش کرنا بھی یقینا ایک اچھی اور مثبت سوچ ہے.ہم 25ارب فنڈز کی گٹھڑی کی بات کر رہے تھے. اللہ کرے کہ حکومت کی مدت کے تکیمل تک بھی اتنی رقم رحیم یارخان کو مل جائے تو یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ورنہ سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف دور کے چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ اور موجودہ وزیز خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت کا وہ تاریخی خطاب بھی ہم کو اچھی طرح یاد ہے جو انہوں نے موجودہ حکومت کے پہلے سو دن پورے ہونے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کی موجودگی میں ہونے والے کارکردگی میلے، جشن پروگرام میں کیا تھا. آپ خود فرما رہے تھے کہ سابق حکومت نے سرائیکی وسیب اور ہمارے ساتھ بڑی زیادتی کرتی رہی ہے ہمیں مختص کیے جانے والے فنڈز بھی پورے نہیں دیئے جاتے تھے.اعلان کے بعد، درمیان میں واپس لے لیے جاتے تھے یا پھر لیپس ہو کر خزانہ میں ہی محفوظ کے محفوظ رہتے تھے. اب اندرونی صورت حال کیا ہے اس کا پتہ تو موجودہ حکمرانوں کے جانے اور نئے آنے کے بعد ہی چلے گا. یا وقت آنے پر باس، حکومت، جماعت کی تبدیلی کی صورت میں آپ صاحبان خود ہی بیان فرمائیں گے.
بلاشبہ مخدوم خسرو بختیار نے ضلع رحیم یارخان میں جائز و ناجائز بہرحال اپنی سیاست کا لوہا منوایا ہے. دوسرے مخادیم کی نسبت ترقیاتی کام بھی زیادہ کروا رہے ہیں.وزراء بھائیوں میں انتقامی اور متکبرانہ رویہ نہ ہوتا، قبضہ گیر گروپس کی سرپرستی کی لت میں نہ پڑتے تو یقینا مخدوم خسرو بختیار لوگوں کے دلوں پر راج کرتے.سرائیکی اور سرائیکی صوبہ کے بارے میں ان کی زہریلی گفتگو کے اثرات شاید زندگی بھر کےلیے ان کے کردار اور دامن پر بد نما داغ کی طرح بدبو کے ساتھ موجود ہی رہیں گے. آفتاب اقبال کے پروگرام کی گفتگو ہر موڑ اور ہر موقع پر زخموں کو تازہ کرنے کے لیے کافی ہے.
مخدوم خسرو بختیار کا خان پور سے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کچھ لوگوں کو بالکل ہضم نہیں ہو رہا. مخدوم خسرو بختیار کے خان پور میں لگے پینا فلیکس پر سیاہی پھینکنے کی حرکت جس کسی نے بھی کی ہے.اس کی کسی صورت بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی.سیاسی مخالفین کو چاہئیے کہ وہ اوچھی حرکتوں کی بجائے مخادیم میانوالی قریشیاں کا مقابلہ سیاسی میدان میں سیاسی انداز میں کریں.لیکن یہ بھی یاد رکھیں دوسروں کے جذبات اور غیرت سے کھیلنے والوں کے ساتھ سیاست دانوں سے ہٹ کر جذبات میں آ کر جذباتی وجنونی لوگ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں.کسی وقتی سیاسی فائدے، عہدے کے حصول یا کسی کی خوشنودی وغیرہ کی خاطر سرائیکی یا سرائیکی صوبے کو زہر قاتل کہنا مخدوم خسرو بختیار کی انتہائی غلط بات تھی اور ہے. سنا ہے کہ مخدوم خسرو بختیار کے خان پور میں 45کے قریب تشہیری پینافلیکس لگے ہوئے تھے. سیاسی پھینکنے کے بعد پہلے میاں عثمان پھر نامعلوم افراد کے خلاف کارروائی اور اس پر آنے والے ردعمل کو دیکھتے ہوئے معاملہ پر ریت اور پانی ڈال کر اسے تقریبا ٹھنڈا کر لیا گیا ہے.اس کے بعد مخدوم خسرو بختیار کے لگے ہوئے پینافلیکس اچانک اتار لیے گئے ہیں باقی صرف پانچ بچے ہوئے ہیں. اس نئی صورت اور تبدیلی کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں?. ایسا کیوں اور کس کے حکم پر کیا گیا ہے. سیاسی پھینکے جانے کا خوف یا کچھ اور? سیاسی پھینکے جانے کے خوف والی بات میں تو مجھے کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا. کچھ اور والے معاملے اور خانے میں بھی دو چیزیں ہیں. کیا اس کی وجہ وزیر اعـلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار کو قومی اسمبلی کے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر میاں غوث محمد کی شکایتی درخواست ہے. جس سے وزیر اعلی نے اتفاق کرتے ہوئے نوٹس لیا ہو اور مارکہ سے کہہ دیا ہو کہ یہ ڈرامے بازیاں بس کرو. یا پھر وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وزیر اعلی سردار عثمان خان بزدار کے وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ کے ضلع بہاول پور کے دورہ کے دوران وزراء بھائیوں مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت کے ساتھ دانستہ یا غیر دانستہ جو کچھ ہوا.مخادیم کی طرف سے یہ اس سلوک کے خلاف اُن کے ردعمل کا آغاز ہو?.
یہ بھی پڑھیے:
مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا
جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر