رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان کے بارے میں انگریزی زبان میں کتابیں زیادہ تر انگریزوں کی فوجی مہمات کے بارے میں تھیں‘ سفرناموں کی شکل میں اور چند ایک اس ملک کی تاریخ‘ نظامِ حکومت اور سماج سے متعلق۔ امریکیوں اور روسیوں کی دلچسپی دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑھی۔ قبائلی معاشروں کی تنظیم‘ ساخت اور بقا کی تگ و دو نے بشری علوم کے طلبا کو ہمیشہ مسحور کیا ہے۔ مغربی جامعات سے کئی نامور دانشوروں نے ادھر کا رخ کیا اور مزید نام کمایا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ افغانستان علمی دنیا کا چُھپا ہوا راز تھا‘ مگر اس کا مطالعہ کسی حد تک محدود رہا‘ لیکن جو بھی تھا‘ کمال درجے کے موضوعات اور مباحث کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔ 1978کے اشتراکی انقلاب‘ اس کے خلاف مزاحمت اور پھر سوویت یونین کی فوجی مداخلت نے فطری دلچسپی پیدا کی۔ اب مطالعہ کرنیوالے مختلف نوعیت کے دانشور اور محقق تھے۔ سیاسیات‘ تزویرات اور عالمی سیاست کا موضوع حالاتِ حاضرہ ہوتے ہیں۔ حکومتوں کو پالیسی سازی میں معاونت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لئے امریکہ میں خصوصاً اور یورپی ممالک میں بھی دیگر ملکوں کی زبانوں‘ ادب‘ تاریخ اور معاشرتی علوم سے متعلق اپنے ملکوں میں ماہرین پیدا کرنے کیلئے ادارے اور پروگرام اب گہری روایت بن چکے ہیں۔ نوجوان طلبا اور طالبات کو راغب کرنے کیلئے ہر نوع کی فیلوشپ اور فنڈنگ کی جاتی ہے۔ علمی ماہرین بن کر کام وہاں صرف جامعات میں کورسز پڑھانا نہیں رہتا‘ خارجہ امور اور دفاعی امور میں مشاورت کیلئے ان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت نہیں۔ وزارتوں میں بیٹھے ہوئے نوکر شاہ خود بخود عالم فاضل ہیں۔ باہر دیکھنے کی انہیں نہ ضرورت ہے‘ نہ فرصت ہوتی ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے ساتھ ہی ہمارے اپنے خطے سمیت مغربی دنیا میں دانشوروں کی ایک کھیپ تیار ہوئی۔ مغربی میڈیا سے وابستہ صحافیوں نے افغانستان کے مجاہدین کے ساتھ بہت وقت گزارا اور بعد کے ادوار میں بھی وہاں کے حالات کی رپورٹنگ‘ امن اور جنگ‘ دونوں میں کرتے رہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں جب دو بڑی طاقتیں افغانستان میں ”بڑا کھیل‘‘ کھیل رہی تھیں تو صحافی اور دانشور کیسے ادھر کا رخ نہ کرتے۔ خاکسار کی انٹری اس ملک کے علمی میدان میں لگ بھگ اسی زمانے میں ہوئی تھی جب سوویت یونین افغانوں کے خلاف ہر قسم کا مہلک اسلحہ استعمال کر رہا تھا۔ ہمارا ملک‘ ساری مغربی دنیا اور امریکہ کے علاوہ مسلم اکثریتی ممالک بھی مزاحمت کا ساتھ دے رہے تھے۔ ہماری اہمیت صرف بڑھی نہ تھی بلکہ کلیدی کردار تھا۔ مغرب کے دانشور اور سیاستدان ٹوٹ کر ہمیں چاہتے تھے۔ ہمارے اندر کوئی ایسی خاص بات نہ تھی‘ ہم نے سرد جنگ کے مغرب کے حریف سوویت یونین کی افغانستان میں کھال اتارنے میں کردار ادا کیا تھا۔ ہماری لمبی‘ کھلی سرحدیں جغرافیائی محلِ وقوع‘ افغان مجاہدین کی سرپرستی کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی پالیسی امریکہ کے مقاصد سے ہم آہنگ تھی۔ اس زمانے کے علمی ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو افغان مجاہدین فرشتے اور پاکستان کا کردار انسانیت کے محافظ اور افغانستان کی آزادی کیلئے بے پایاں قربانیوں میں ممتاز نظر آتا ہے۔ وہ بھی تھے جنہوں نے افغان جنگِ مزاحمت اور ہمارے کردار کو غیر جانبدارانہ انداز میں اور خالصتاً علمی انداز میں پرکھنے کی کوشش کی۔ سوویت یونین کا انخلا ہوا‘ تو سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ ایک سال کے اندر ہی امریکہ ہمیں ”دہشتگرد‘‘ قرار دینے کی دھمکیاں دینے لگا۔
سوویت یونین ٹوٹی‘ اشتراکیت کا خاتمہ ہوا تو دونوں بڑی طاقتیں افغانستان کو اس کے حال پہ چھوڑ کر اپنی دنیائوں میں ایسی گم ہوئیں کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ افغانستان کی ریاست اور معاشرہ‘ دونوں تباہ ہو چکے تھے۔ افغانستان کی ستر فیصد آبادی ملک کے اندر یا ہمسایہ ممالک میں بے گھر‘ دربدر دھکے کھا رہی تھی۔ امن اور سیاسی تصفیوں کیلئے اقوام متحدہ کی طرف سے کوششیں کی گئیں اور ہم نے بھی افغان دھڑوں کو اکٹھا کرکے معاہدے کرائے مگر وہ اقتدار کی جنگ میں اپنی توانائیاں برسوں تک ضائع کرتے رہے۔ جو کچھ کابل اور دیگر شہروں میں بچ پایا تھا‘ اسے بھی تباہ کر ڈالا۔ افغانستان اندھیروں میں ڈوب گیا‘ مصنوعی نہیں حقیقی طور پر اور دنیا تماشائی بنی رہی ہے۔ بے تکے اور غیرانسانی مفروضے تراشے گئے کہ افغان تو صرف جنگ کرنا جانتے ہیں۔ جب مغرب کو ان کی ضرورت تھی‘ انہوں نے دل کھول کر ہتھیار دیئے اور مالی معاونت کی۔ جب ملک کی تعمیرِ نو کا وقت آیا تو مغرب والے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکے تھے۔
افغان مجاہدین کی دھڑے بندی‘ باہمی رقابت اور اقتدار کی جنگ نے پورے ملک کو فساد اور انتشار کی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر جگہ جنگجو میدان میں آئے اور مقامی لوگوں سے بھتہ خوری شروع کر دی۔ تجارت اور ٹرانسپورٹ پر من مانے ٹیکس لگائے۔ عام لوگوں کی زندگیاں ان بے لگام جنگجوئوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ بچوں‘ عورتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ناانصافی اور زیادتیوں کی انتہا ہو چکی تھی۔ کہیں کوئی حکومت‘ قانون‘ پولیس اور عدالت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ریاست جب ٹوٹ جائے‘ ادارے جب بکھر جائیں تو معاشروں میں ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ والا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی حالات میں مظلوموں نے مدارس میں مقیم طالبان اور ان کے اساتذہ سے داد رسی کی درخواستیں شروع کر دیں۔ جان اور عزت کے تحفظ کیلئے وہ اٹھے اور قندھار میں بدمعاشوں کو پکڑ کر سزائیں دینا شروع کر دیں۔ کوئی قصبہ ایسا نہ تھا‘ جہاں حکومت کا وجود باقی رہا تھا۔ اس خلا کو ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان نے پُر کرنا شروع کردیا۔ ہر جانب وہ پھیلنے لگے۔ پشتون علاقوں میں انہیں کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اگلا ٹھکانہ کابل تھا۔ وہاں بھی ان کی ہیبت کو دیکھ کر سب ڈھیر ہو گئے۔ شمال کی طرف پیش قدمی کی تو لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ مگر شمالی اتحاد کے جتھوں کو بھی انہوں نے چند وادیوں اور شہروں میں ہی بند کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کی طرزِ حکومت اور مخالفین کے ساتھ رویے کے بارے میں مجھے تحفظات ہیں‘ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے زیرِ تسلط علاقوں میں امن قائم رکھا۔ تعمیرِ نو ناممکن تھی کہ مغربی دنیا کے خزانے ان کیلئے بند تھے۔ افغان معیشت کا پہیہ چلانا تو درکنار‘ حکومت کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل کام تھا۔
نو گیارہ کے واقعات کے بعد جو کچھ ان کے ساتھ ہوا‘ وہ جدید تاریخ کی المناک داستان ہے۔ امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے جدید ترین اسلحہ ان کے خلاف استعمال کیا۔ شمالی اتحاد کے جنگجوئوں کو طالبان اور عرب قیدیوں کو اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارنے کی کھلی چھٹی تھی۔ آزادی کا علم لے کر جو بھی آئے تھے ان کے پاس افغانستان میں طالبان کے انسانی حقوق کیلئے کوئی گنجائش نہ تھی۔ ماضی کی طرح افغانستان دو جتھوں میں تقسیم ہو گیا۔ طالبان کے مخالفین امریکہ کے ساتھ رہے اور اسی بڑی طاقت کے سائے میں نیا سیاسی نظام بنایا۔ ریاستی ادارے بحال ہوئے‘ تعلیمی ادارے بنے اور بڑی تعداد میں بچے سکولوں اور جامعات میں جانا شروع ہوئے۔ بیس سال بہت عرصہ ہوتا ہے۔ جب کھربوں ڈالر خرچ ہوئے تو اسکے کچھ اثرات کم از کم شہروں کی حد تک متوسط طبقے کے ابھرنے کی صورت میں نظر آئے۔ اس کے ساتھ ریاست کا ڈھانچہ دوبارہ سے استوار ہوا۔ کہتے ہیں‘ کاغذوں میں تقریباً تین لاکھ فوج تھی‘ پولیس اور ایجنسیاں تھیں‘ ہوائی فوج بھی تھی۔ طالبان کی طرف سے مزاحمت چند سال کے بعد شروع ہو چکی تھی۔ ان کی قیادت نے تمامتر مشکلات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔ آخر امریکہ نے بادلِ نخواستہ وہی کیا جو وہ ویت نام میں کر چکا تھا۔ نکلنے کی راہ لی اور وہ بھی ایسی عجلت میں کہ سب بنا بنایا ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر