عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر مساجد کے مرکزی داخلی دروازے کی چوکھٹ پہ عین وسط میں قرآن پاک کی آیت کریمہ درج ہوتی ہے:
من دخلہ کان امنا
جو اس میں داخل ہوا وہ امن پاگیا
مہینہ ہے محرم کا جس میں جنگ جائز نہیں – امن کا مہنیہ ہے-
لیکن اگر مسجد کی چھت پر سے پرآمن لوگوں کے جلوس پہ بم پھینکا جائے، فائرنگ ہو اور پکڑے جانے والے افراد کے چہرے پہ لمبی اور گھنی داڑھی ہو تو انسان سوچ میں ضرور پڑے گا کہ مسلمانوں کی تاریخ میں وہ کون سا گروہ تھا جو قرآن اور سنت رسول اللہ کو ہی اپنی تعبیر سے پرامن لوگوں کے خون بہانے کو جائز بلکہ قابل ثواب کام بنالیا کرتا تھا؟
ایک گروہ تو خوارج کا تھا – دوسرا گروہ وہ تھا جسے، زکر آلِ محمد سے سخت دشمنی تھی وہ اہل بیت اطہار سے محبت کرنے والوں کو دین علی کا پیرو کہتا اور اُن کو قتل کرنے پہ فخر کرتا –
میں اسلام کی ابتدائی تاریخ کا طالب علم ہوں اور میں نے ابومخنف، نصر بن مزاحم، ابن سعد کوفی کے متون اور پھر تاریخ طبری میں جنگِ جُمل کے دوران ایک شخص ابن یثربی کا قصہ پڑھا جس نے حضرت عماریاسر رضی اللہ عنہ کے مدمقابل آکر یہ رجز پڑھا
انا لمن انکر ابن یثربی – قاتل لعباء و ہند الجملی…… و قتل صوحان بن زید علی دین علی
کون انکار کرسکتا ہے کہ میں ابن یثریبی ہوں اور میں نے لعباء الدوسی، ہند الجملی اور صوحان بن زید کو قتل کیا جو دین علی (علیہ السلام) پر تھے –
اسلامی تاریخ کے ابتدائی متون کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے سامنے یہ بات آئی کہ بنوامیہ کے جملہ ادوار حکومت میں سوائے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور کے جس کے بارے میں یہ پتا چلتا کہ وہ آل محمد کا پیرو ہے تو وہ اگر گرفت میں آجاتا تو اُس کے سامنے یہ شرط رکھ دی جاتی کہ اگر وہ دین علی کا پیرو ہونے سے انکار کردے تو اُسے چھوڑا جاسکتا ہے-
یہاں تک کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو جب گرفتار کرلیا گیا تو اُن کے سامنے بھی یہی شرط رکھی گئی کہ وہ دین علی کی پیروی ترک کردیں –
حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے کریم بن عفیف الخثمعی ان کی سفارش شمر الجوشن نے کی کہ اُس کے قبیلے کا ہے چھوڑ دیا جاۂے، کہا گیا کہ جو اسے کہا جائے وہ کہہ دے تو چھوڑ دیا جائے گا، کہا گیا کہ یہ کہے کہ میں دین علی کی پیروی ترک کرتا ہوں….. ابنِ عفیف یہ کہنے پہ تیار نہ ہوئے –
عمار بن یاسر کو جنگ صفین میں شہید کرنے والے جتھے نے کہا کہ اُن پہ عمار یاسر کا قتل اس لیے واجب ہوا کہ وہ دین علی پہ ہے –
اس طرح کی ذہنیت کو تاریخ "ناصبیت” سے تعبیر کرتی ہے اور اسے اہل سُنت اور اہل تشیع دونوں نے رد کردیا-
ناصبیت کل بھی مساجد کا امن برباد کرتی اور زکر آل محمد کرنے والوں کا قتل کیا کرتی تھی اور آج بھی کرتی ہے –
یہ اہل سنت اور اہل تشیع کو بہ بدست و گریباں کرانا چاہتی ہے – یہ چاہتی ہے کہ لوگ آج بھی ماضی کی تاریخ کی شخصیات کے کاسٹیوم پہن کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں تاکہ ان کی فتنہ انگیز بیمار نفسیات کی تسکین کا سامان ہوسکے –
بہاولنگر کی جس مسجد کا تقدس عاشورہ کے جلوس پہ دھماکہ خیز مواد پھینکنے والوں نے خراب کیا ہے اُس مسجد کے نمازیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ اُن کی صفوں میں ناصبیت کی فکر کو پھیلانے والے کون ہیں؟ پاکستان کے مایہ ناز ماہرین نفسیات کو بم پھینکنے والے افراد سے بات کرنے کی اجازت ملنی چاہیے وہ مفصل بات چیت سے یہ پتا چلائیں کہ وہ کون سے لوگ اور گروہ ہیں جو ان کے ذہنوں میں شیعہ شناخت اور شیعہ کی مذھبی ثقافت کے حاملین سے جینے کا حق تک چھیننے پہ تیار ہوجاتے ہیں؟
پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی مذھبی آزادی، اُن کے شعائر، مذھبی ثقادتی رسومات مسلسل نشانہ بن رہی ہیں اور ان پہ حملے اُن کی نسل کشی تک جا پہنچتے ہیں –
یہ شیعہ – سُنی لڑائی نہیں، یہ دو فرقوں کا تنازعہ نہیں ہے –
کربلا کا واقعہ دو شہزادوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا – وہ قریش کے دو قبیلوں کی باہمی چشمک کا نتیجہ نہیں تھا – کربلا ملوکانہ تعبیر اسلام کے ماننے والے حکمران طبقے کی بربریت، ظلم اور جبر تھا – اور آج کربلا والوں کی یاد منانے والوں کونشانہ بھی وہی بناتے ہیں جو اموی ملوکیت سے پیدا ثقافت کو معتبر مسلم روایت بنانے پہ اصرار کرتے ہیں –
سچائی تو یہ ہے کہ کربلا سُنی شعیان آل محمد اور امامی شیعان آل محمد کی مشترکہ میراث ہے اور ان کی مشترکہ دشمن ناصبیت ہے جو زبردستی سُنی اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے –
یہ اموی نواز ناصبیت علمی میدان میں اہل سُنت اور اہل تشیع سے اپنی ملوکانہ تعبیر جب منوا نہیں پاتی اور عوامی ثقافتی مظاہر میں کربلا کی ثقافت کے مقابلے میں کوئی اور ثقافت کا چَلن لا نہیں پاتی تو ماضی میں تیر و تلوار و نیزوں سے کربلا کی ثقافت کو چھلنی کرتی تھی، آج گولی، بم اور بارود سے کرتی ہے – دین علی پہ ہونے والوں کا قتل کل بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہورہا ہے لیکن کربلا کی ثقافت سے نہ کل عوام بے گانہ ہوئے نہ آج بے گانہ ہوں گے –
یہ بھی پڑھیے:
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر