حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھونگ میں مندر اور امام بارگاہ پر ہوئے حالیہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری بحث کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو لوگوں کی اکثریت نے صرف مندر پر حملے کی مذمت کی۔ علاقائی اور عالمی طور پر بھی مندر کے معاملے کو شہرت ملی۔ بی بی سی نے بھونگ واقعہ کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں البتہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے سپریم کورٹ میں دیئے گئے بیان کے اس حصہ کو ضرور شامل کیا کہ ’’حملہ آوروں نے مندر پر حملے سے قبل مقامی امام بارگاہ پر بھی حملہ کیا اور توڑپھوڑ کی‘‘۔
این جی اوز مافیا اور دیگر لوگوں نے بھی واقعہ کے ایک رخ کی تصویر سامنے رکھی۔ صرف پیپلزپارٹی کے کلچر ونگ کو یہ توفیق ہوئی کہ اس نے دورہ بھونگ کے دوران دونوں متاثرہ عبادت گاہوں میں جاکر منسلک لوگوں سے اظہار یکجہتی کیا اور کہا پیپلزپارٹی بلاامتیاز مذہب و عقیدہ سماج کے ہر مظلوم شخص اور طبقے کے ساتھ کھڑی ہے۔
اس ضمن میں لکھے گئے میرے گزشتہ کالم میں ایک سہو یہ ہوا کہ بزم فرید رحیم یار خان کا ذکر نہیں کرپایا۔ اس قدیم ادبی تنظیم نے اپنی سماجی ذمہ داریاں یوں ادا کیں کہ ان کے ذمہ داران بھی پیپلزپارٹی کے وفد کے ساتھ بھونگ گئے۔ برادر محترم سید خلیل بخاری نے اس طرف متوجہ کیا، ان کا شکر گزار ہوں۔
عالمی سرائیکی کانگریس کے سربراہ عبید خواجہ نے (ہمارے یہ دوست امریکہ میں مقیم ہیں) سوشل میڈیا پر بھونگ واقعہ کے خلاف سماجی شعور کی بیداری کے لئے منظم مہم چلائی۔ اسی طرح دوسرے قوم پرست دوستوں نے بھی مذمت کی۔
پچھلے کالم میں سرائیکی قوم پرست جماعتوں سے اس حوالے سے جو شکوہ کیا تھا اس پر قوم پرست جماعتوں کے چند ذمہ داران نے تفصیل کے ساتھ اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ چند مہربانوں نے حسب توفیق جیالا ہونے اور ایک دو نے میری مسلکی شناخت پر پھبتی کسی۔ اللہ ان کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ لگ بھگ ساڑھے چار دہائیوں (جب سے کالم لکھ رہا ہوں) سے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ مذہب اور عقیدہ میرا خالص نجی معاملہ ہے۔ قلم مزدوری محض حصول رزق کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی نظریاتی فہم کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ میری تحریر سے اختلاف دلیل کے ساتھ کیجئے ناکہ میرے عقیدے کی شناخت کا تمسخر اڑاکر اپنی بات کہیں۔ مجھ طالب علم کو ذات اور قوم کی بنیادی شناخت اور تعارف کے اصول معلوم ہیں۔ ثانیاً یہ کہ سماجی زندگی میں سیکولر رویوں کی ترویج کا حامی ہوں۔ عقیدوں کے شدت پسند رویوں کے ساتھ ہم سماجی زندگی کا حق ادا نہیں کرسکتے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو میرے نزدیک چند کمزوریوں کے باوجود یہ واحد جماعت ہے جو ابھی تک مذاہب و عقائد کے تعصبات سے محفوظ ہے۔ سیاسی عمل میں دوسری جماعتوں کی نسبت اس کی اپروچ قدرے درست سمجھتا ہوں۔ ہمیشہ یہ کوشش کی کہ سرائیکی قوم پرست اور پیپلزپارٹی کے درمیان مکالمہ ہوتا کہ اختلافات کم سے کم ہوں۔
میرے سرائیکی قوم پرست دوستوں کا ایک حصہ کہتا ہے پی پی پی جنوبی پنجاب کیوں کہتی ہے۔ عرض کرتا ہوں تمام جماعتوں کا مشترکہ وفد بناکر پی پی پی کے ذمہ داران سے ملیں انہیں اپنے موقف سے آگاہ کریں۔
جواب ملتا ہے جی نہیں پی پی پی کلچر ونگ کے دوستوں کو جماعتی عہدے اس وقت تک قبول نہیں کرنے چاہئیں تھے جب تک نوٹیفکیشن میں جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی وسیب نہ لکھا جاتا۔
ایک حد تک ان کی بات درست ہے لیکن کلی طور پر نہیں کیونکہ جماعتی نظم و ضبط کے تقاضے یکسر مختلف ہیں مثلاً جن دوستوں نے کلچر ونگ میں عہدے قبول کئے ان کا موقف ہے ہم نے عہدے پارٹی ڈسپلن میں لئے البتہ ہم پارٹی کے ذمہ داروں سے مکالمے پر یقین رکھتے ہیں کہ پی پی پی جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی وسیب لکھیں۔
پی پی پی اور قوم پرستوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے لئے چند ماہ قبل ان کالموں میں جو سلسلہ شروع کیا تھا اس پر خود پی پی پی کے ایک جنونی حامی (جنونی اس لئے لکھا ہے کہ ان موصوف نے ایک ویڈیو میں پی پی پی کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے والوں کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دی تھیں) نے ارشاد کیا کالم میں شائع کئے جانے والے مراسلے میں نے معاوضے پر لکھے اور دوسروں کے نام سے شائع کئے۔
تبھی جواباً عرض کیا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی کا جو تفصیلی موقف اپنے کالم میں شائع کیا اس کی انہوں نے مجھے کیا اجرت دی جاکر معلوم کرلیجئے۔
یہ تفصیل مکرر عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی لکھنے والے کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ تمام طبقات کو خوش کرسکے۔
میں خود اپنے دوستوں اور ہمعصر کالم نگاروں سے اختلاف کرتا ہوں تو ان کی خدمت میں دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتا ہوں۔ زندگی کا حسن یہی ہے کہ گالی کی بجائے دلیل سے بات کی جائے۔
میرے لئے حیران کن بات ہے کہ ایک بڑے قوم پرست رہنما کا بھونگ واقعہ پر وہی موقف ہے جو 8سالہ مجذوب ہندو بچے پر مقدمہ درج کروانے والوں کا ہے۔
ان صاحب نے اپنی جماعت کے وفد کو بھونگ کا دورہ کرنے سے روکا۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے طویل عرصہ سے عرض کررہا ہوں کہ قوم پرستوں کو عقیدوں کے تعصب کا شکار نہیں ہونا چاہیے یہ کبھی نہیں کہا کہ قوم پرست مذہب و عقیدہ ترک کردیں۔
باردیگر عرض کرتا ہوں کہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کی شناخت میں میرا ووٹ سرائیکی وسیب کی شناخت کے حق میں ہے۔ وسیب کے دوست اور دوسرے لوگ اس حوالے سے اس قلم مزدور کی دوٹوک رائے سے واقف ہیں۔
ڈاکٹر اشو لال نے بھی بھونگ میں گفتگو کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کا لفظ استعمال کیا۔ مناسب ہوتا وہ سرائیکی وسیب کہتے۔ البتہ اس بات پر میں منہ بھر کے انہیں یا پیپلزپارٹی کو گالی دینے کا روادار نہیں ہوں۔
گزشتہ روز وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب دونوں نے بہاولپور میں کھڑے ہوکر سرائیکی وسیب کی سیاسی و شعوری توہین کی۔ مسلسل جنوبی پنجاب کی تکرار کی۔ ایمانداری سے بتایئے جتنی گالیاں یا تنقید پچھلے چند ماہ میں پی پی پی پر ہوئی اس کا دسواں حصہ بھی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پر تنقید ہوئی؟
ایک پرانی بات مکررعرض کردیتا ہوں۔ پشتونوں کو اپنے صوبے کا نام این ڈبلیو ایف پی سے خیبر پختونخوا کروانے میں کتنا عرصہ لگا؟
تلخ بات یہ ہے کہ میرے سرائیکی قوم پرست دوست صوبائی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ ہر کس و ناکس ان کی اطاعت کرے۔
آخری بات یہ ہے کہ حضور وسعت قلبی پیدا کیجئے، گالی کی جگہ دلیل لایئے۔ عوام الناس میں اپنی سیاسی قوت بنایئے تاکہ وفاقی پارٹیاں آپ سے اشتراک عمل پر مجبور ہوں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ