حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ و سیاسیات کے طالب علم اس قلم مزدور کو بہت حیرانی ہوئی جب یہ کہا گیا کہ پیپلزپارٹی، روز اول سے اسٹیبلشمنٹ کی پٹھو جماعت تھی اور یہ کہ خان عبدالولی خان نے مارشل لاء حکومت کو پہلے احتساب اور پھر انتخابات کا کہہ کر کیا غلط کیا۔
ایک تاثر یہ بھی دیا گیا کہ گزشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کا ایک حصہ پاور پالیٹیکس میں جانے کے لئے بہانے تلاش کرتا اور پیش کرتا رہا۔
مجموعی طور پر یہ تین باتیں ہیں۔ ہم ان پر بات کرلیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی، ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی حکومت میں وزارت خارجہ کا منصب چھوڑنے (استعفیٰ دینے) کے بعد بنائی۔
پیپلزپارٹی کے قیام سے قبل ان کی عوامی نیشنل پارٹی اور کونسل مسلم لیگ کے قائدین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان سے ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئیں اس راز سے سب سے پہلے جماعت اسلامی کے حامی صحافیوں نے پردہ اٹھایا۔ ان کے مطابق بھٹو نے عوامی نیشنل پارٹی سے سیکرٹری جنرل کا عہدہ طلب کیا اور کونسل مسلم لیگ سے صدارت کا منصب۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں دعوے یا انکشافات 1970ء کی دہائی کے دوران ضیائی مارشل لاء میں اس وقت سامنے آئے جب بھٹو زیرعتاب تھے اور مجاہدین اسلام و نظام مصطفی ان کے خون کے پیاسے ۔
اور یہ کہ بڑے بڑے جئید سیاستدان نجی محفلوں میں یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ ہم نے جنرل ضیاء الحق کو بتادیا ہے کہ قبر ایک ہے اور مردے دو۔ یعنی اگر تم (ضیاء) نے بھٹو کو قبر میں نہ ڈالا تو بھٹو تمہیں قبر میں سلادے گا۔
پیپلزپارٹی لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر بنی، تاسیسی اجلاس یہیں ہوا البتہ پہلا ورکر کنوشن مخدوم طالب المولیٰ کے ہاں ہالہ شریف سندھ میں منعقد ہوا۔
لاہور کے تاسیسی اجلاس میں محمد حنیف رامے، جے اے رحیم، شیخ رشید، محمود علی قصوری، معراج محمد خان، مختار رانا سید علی جعفر زیدی اور دوسرے بہت سارے وہ لوگ بھی شامل تھے جن کا سیاسی حوالہ بائیں بازو کی سیاست تھا۔
1960ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب پیپلزپارٹی بنی اس وقت اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کی پٹھو جاعت تھی تو پھر ڈاکٹر مبشر حسن سے مختار رانا تک اسٹیبلشمنٹ کے لوگ شمار ہوں گے جو یقیناً کسی کے اشارے پر اس جماعت میں گئے۔
پیپلزپارٹی کے خلاف پہلے یو ڈی ایف اور پھر پی این اے کے نام سے سیاسی اتحاد بنے۔ پی این اے کی تشکیل اصل میں یو ڈی ایف کو وسعت دینا تھی۔
اس اتحاد کے قیام کے وقت تین بڑے ملکوں کے سفارتکار ڈیوس روڈ لاہور میں مسلم لیگ کے اس وقت کے صوبائی سیکرٹری غلام حیدر وائیں کے کمرہ میں موجود تھے اور امریکی سفیر کچھ فاصلے پر واقعہ ایک ہوٹل میں ایک ریاستی محکمے کے سربراہ بھی اسی ہوٹل میں موجود تھے۔
پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ تھے یہ راز ہائے درون سینہ نہیں۔ عالمی بالادست قوتوں نے ترقی پذیر ممالک میں اپنے ایجنڈوں سے متصادم شخصیات کو کیسے راستے سے ہٹایا، شاہ فیصل، بھٹو، سوئیکارنو وغیرہ کا انجام یاد کرلیجئے۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے جب امریکہ، جنرل ضیاء اور پی این اے (یہ اتحاد فوجی حکومت کا حصہ تھا) پر مشتمل تگڑم کے ہاتھوں پھانسی چڑھے بھٹو اور اس کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کا پٹھو کہا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والے حیدر آباد سازش کیس سے رہا ہونے والے نیپ کے رہنمائوں میں ہوئی تقسیم اور دونوں گروپوں کے ایک دوسرے پر الزامات کو زیربحث نہیں لاتے۔
بھٹو صاحب انسان تھے، گنج بخش ہجویریؒ یا شاہ شمس تبریزؒ کی طرح کے ولی ہونے کے دعویدار ہرگز نہیں وہ سیاسی عمل میں بھی سکندر مرزا کے دور حکومت میں آئے پھر ایوبی حکومت کا حصہ بنے، الگ ہوئے۔ اپنی جماعت بنائی، اقتدار حاصل کیا، ان کا تختہ الٹوایا گیا پھر پھانسی مقدر ٹھہری۔
سوال یہ ہے کہ خان عبدالولی خان یا دوسروں نے جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت سے پہلے احتساب اور انتخابات کا مطالبہ کیوں کیا؟
کیا سیاسی فہم انتخابی عمل کو احتساب کا ذریعہ قرار نہیں دیتی؟
فوجی حکومت سے احتساب کا مطالبہ کرنا تو سیاسی عمل پر عدم اعتماد تھا۔
یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رکھیں کہ اس وقت کے ایک سیاستدان اصغر خان تو بھٹو کی پھانسی سے کم پر راضی ہوتے تھے نہ ہی بات کرتے تھے۔
پی این اے نے بطور اتحاد بھٹو کی پھانسی میں معاونت کی یہی ہماری تاریخ ہے۔
پی این اے کی بعض جماعتیں بعد میں ایم آر ڈی (یہ اتحاد فوجی حکومت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے بنا تھا) میں شامل ہوئیں، کھلے دل سے مان لیجئے کہ پیپلزپارٹی نے شخصی انتقام کا راستہ اپنانے کی بجائے جمہوریت کی بحالی کو مقدم سمجھا اور جنرل ضیاء کا ساتھ دینے والی جماعتوں سے سیاسی اتحاد کیا۔
پیپلزپارٹی غلط تھی تو یہ اتحاد کیوں بنا اور نظام مصطفی کے لئے تحریک چلاکر قوم پر فوجی حکومت مسلط کروانے والے کس چیز کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ایم آر ڈی میں شامل ہوئے؟
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ بعض لوگ آج بھی بھٹو اور پیپلزپارٹی سے شخصی نفرت کا شکار ہیں۔ وہ تاریخ پر بات کرتے ہوئے صرف اپنا موقف پیش کرتے ہیں اس موقف کی بنیاد بھی 1970 اور 1980 کی دو دہائیوں میں رجعت پسندوں کے پروپیگنڈے پر اٹھائی گئی ہے۔
این ڈی پی سے اختلاف کرکے اس وقت جن لوگوں نے استعفیٰ دیا، سیاسی شعور کے حوالے سے ان کا موقف درست تھا کہ احتساب صرف عوام کرتے ہیں ووٹ کی طاقت ہے۔
آئین معطل کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوجی حکومت غیرقانونی ہے۔
اس عمل کو ہم اعلیٰ سیاسی شعور کا مظاہرہ کہہ سکتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں جانے کی خواہش نہیں
یہاں ایک اور بات جان لیجئے ایم آر ڈی سے آزاد کشمیر والے ” مجاہد اول ” سردار عبدالقیوم خان اس وقت الگ ہوئے جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہوا تھا۔
پھر جب تحریک بحالی جمہوریت (جسے پاکستان بچائو تحریک کا نام دیا گیا تھا) اپنے عروج پر تھی تو این ڈی پی کے قائم مقام صدر اور اس وقت ایم آر ڈی کے سربراہ
(ایم آر ڈی کی سربراہی مرحلہ وار ہر جماعت کے حصے میں آتی تھی)
حاجی غلام احمد بلور نے ایک پریس کانفرنس میں تحریک سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا
’’ہم عدم تشدد کے قائل ہیں تحریک میں تشدد داخل ہوگیا ہے اس لئے اس سے الگ ہورہے ہیں‘‘۔
یہاں سوال یہ ہے کہ تشدد تو ریاست کررہی تھی ایم آر ڈی کی تحریک میں شامل کارکنوں اور عوام پر، بلور صاحب کے فیصلے اور موقف کو کیا مطلب دیا جائے؟
حرف آخر یہ ہے کہ سیاسی تاریخ کا تجزیہ شخصی تعصب اور نفرت پر نہیں بلکہ زمینی حقائق پر ہی درست ہوگا۔ تعصب اور نفرت سے گھٹن، حبس اور انھدیرا بڑھیں گے۔ اختلاف کیجئے یہ میرا اور آپ کا حق ہے اور اس مسلمہ حق سے انکار ممکن نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ