عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بغداد منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوا، اُس وقت بغداد فلسفیوں، آزاد خیال ادیبوں، دانشوروں کا قبرستان بن چُکا تھا، ہر وہ شخص زندیق تھا جس کو یونانی فلسفہ، نو فلاطونیت سے شغف تھا – سرکاری طور پہ تمام کلیسا بند کردیے گئے تھے، باطنیت کے نام پہ ہر وہ خانقاہ برباد اور وہ صوفی سولی چڑھا جس سے عباسی حکومت کو خطرہ لگا اور الزام وہی پرانا کہ بے دین ہے، زندیق ہے، باطنیہ سے تعلق رکھتا ہے – ابن رشد، ابن سینا، فارابی یہ اُس دور کے سب سے زیادہ قابل نفرت شخصیات تھیں-
بغداد شہر منگولوں کے محاصرے سے قبل ہی بدترین فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا-
عباسی بادشاہ کا ولی عہد بیٹا ابوبکر مسلح لشکریوں کے ساتھ بغداد کے محلے کرخ پہ رات کی تاریکی میں ٹوٹ پڑا اور کرخ کے مسلمانوں کی شیعہ شناخت کی بنیاد پہ انھیں تہہ تیغ کردیا – اسماعیلی شیعی شناخت اور وحدت الوجودی صوفی شناخت یا فلسفی ہونے کی شناخت بغداد میں موت کو کھلی دعوت دینے کے مترادف تھی – کرسچن، یہودی ان کے لیے گلے میں زمی ہونے کا پٹہ ڈالنا لازم اور ان کے کلیساؤں پہ تالے پڑے تھے جب کہ پارسیوں کے سامنے ایک ہی راستا تھا یا تو اسلام قبول کرلیں یا اپنی شناخت کو ظاہر مت کریں –
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب منگول حملہ ہوا تو بغداد نہ تو ہارون رشید کے دور کا بغداد تھا(ہارون رشید کے زمانے میں حکومت علوی اولاد کا حق سمجھنے والوں کے لیے موت و قید و بند و کوڑے برسانے کے پروانے جاری کرتی تھی)
نہ وہ مامون الرشید کے دور کا بغداد تھا جہاں عقلی علوم روبہ ترقی تھے بلکہ یہ تو عقل دشمنی کی علامت شہر تھا-
بیت الحکمت اگر اُس زمانے میں تھا بھی تو وہاں فلسفہ اور عقلی علوم کی کتابوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی –
وسیم الطاف بغداد کی تباہی پہ پوسٹ بناتے وقت یہ سب باتیں کرنا بھول کیسے گئے؟
کیا انھیں نہیں پتا کہ مذھبی آزادی اور فکری آزاد روش کے لیے بغداد اپنی تباہی کے وقت بدترین حالات سے دوچار تھا؟
بغداد سمیت عراق اُس زمانے میں شدت پسند حنبلیت کے کنٹرول میں تھا اور عراق سے ملحق فارس اور آج کی وسط ایشیائی ریاستوں کے علاقے میں غزالی کی اینٹی فارابی و ابن سینا و ابن رشد تحریک بلکہ اینٹی فلسفہ تحریک کی زد میں تھا-تو اُس وقت الطاف وسیم کونسے علوم و فنون کی منگول کے ہاتھوں تباہی کا "غم” اپنی پوسٹ میں بنارہا ہے؟
بیت الحکمہ کے حوالے سے یہ اقتباس دیکھیں :
Yale University Arabist Dimitri Gutas disputes the existence of the House of Wisdom as is its form and function. He posits in his 1998 book that "House of Wisdom” is a translation error from Khizanat al-Hikma, which he asserts simply means a storehouse, and that there are few sources from the era during the Abbasid Era that mention the House of Wisdom by the name Bayt al-Hikma.[1] Gutas asserts that, without consistent naming conventions, a physical ruin, or corroborating texts, the phrase "House of Wisdom” may just as well have been a metaphor for the larger Academic community in Baghdad rather than a physical academy specializing in translation work.Gutas mentions that in all of the Graeco-Arabic translations none of them mention the House of Wisdom, including the notable Hunayn ibn Ishaq.
Wikipedia
یہ بھی پڑھیے:
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر