مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتانیوں کی ایک روایت شکن شام||حیدر جاوید سید

سرائیکی وسیب کے ترقی پسند دانشور اور پیپلزپارٹی کی فیڈرل کونسل کے رکن سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کی یاد میں چند دن اُدھر کی ایک شام میں اہل ملتان بڑی تعداد میں ملتان ٹی ہاوس کے کانفرنس ہال میں جمع ہوئے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی وسیب کے ترقی پسند دانشور اور پیپلزپارٹی کی فیڈرل کونسل کے رکن سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کی یاد میں چند دن اُدھر کی ایک شام میں اہل ملتان بڑی تعداد میں ملتان ٹی ہاوس کے کانفرنس ہال میں جمع ہوئے۔ تقریب سے ہفتہ بھر قبل ہمارے دوست حارث اظہر نے اطلاع دی کہ سیدی حیدر عباس گردیزی مرحوم کی یادیں تازہ کرنے کے لئے ’’شامِ حیدر عباس گردیزی‘‘ کا اہتمام کیا جارہا ہے آپ کی شرکت لازمی ہے۔
عرض کیا رزق سے بندھی ہجرت کے اسیر اس ملتانی کو تو ملتان آنے کے لئے بہانہ چاہیے لیکن یہ تو واجب حاضری سے عبارت حکم ہے سر کے بل حاضری دوں گا۔
گزشتہ چار ماہ سے گھٹنے کی تکلیف کے باعث چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتا ہوں۔ اسٹک کے سہارے کمرے سے لائبریری تک کی مسافت بھی بہت کھلتی ہے لیکن ملتان کا سفر تو واجب عین ہوچکا تھا۔
31جولائی کی دوپہر جب لاہور سے ملتان کے لئے روانہ ہورہا تھا تو برادر عزیز اور ملتانی دانش کے روشن چہرے شاکر حسین شاکر کا پیغام بھی موصول ہوگیا
’’دوست منتظر ہیں‘‘۔ جواب بھیجا ہم بھی عازم سفر ہوچکے۔
ملتان ٹی ہاوس کے کانفرنس ہال میں روایات پسند ملتانیوں نے تقریب کے آغاز پر روایت شکنی کی نئی تاریخ لکھ دی۔
تقریب کی صدارت مرحوم سید حیدر عباس گردیزی کی تینوں صاحبزادیوں سے کرائی۔ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔ روایت شکن اس لئے کہ مردانہ تعصبات میں گردن تک دھنسے سماج میں ملتانیوں کی بعض باتیں ہمیشہ سے روایت شکنی کے زمرے میں آتی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر۔ ڈاکٹر انوار احمد، شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی، ندیم پاشا ایڈووکیٹ، سید زاہد حسین گردیزی، جمشید رضوانی، معروف کالم نگار وجاہت مسعود اور اس تحریر نویس نے مرحوم دوست کی زندگی، جدوجہد اور فکری اٹھان کے حوالے سے یادیں تازہ کیں۔
افضل شیخ کی تحریر شاکر حسین شاکر نے پڑھ کر سنائی۔ سیدی مرحوم کی صاحبزادی سیدہ اُمِ کلثوم گردیزی نے اپنے والد بزرگوار کا ذکر خیر کرنے کے ساتھ تقریب میں شرکت کے لئے آئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب کی نظامت ڈاکٹر سید مقبول گیلانی نے نبھائی۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما چودھری اعتزاز حسن، ترقی پسند دانشور فرخ سہیل گوئیندی، سہیل وڑائچ، فرحت اللہ بابر اور معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے علاوہ مرحوم کے کچھ دوستوں کے آڈیو ویڈیو پیغامات بھی شرکا کو سنوائے گئے۔
حارث اظہر اور علی نقوی نے تقریب کے انعقاد کے لئے محنت و حوصلہ سے مراحل سر کئے۔
سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کے تعارف کے نصف درجن حوالے ہیں اور سارے معتبر بھی۔
مرحوم سیدی سرائیکی وسیب کے بلند پایہ شاعروادیب سید حسن رضا گردیزی مرحوم کے فرزند تھے تو پاکستان میں ترقی پسند سیاست کے چندے آفتاب سید محمد قسور گردیزی کے داماد، سید محمد قسور گردیزی نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ بعدازاں بزنجو صاحب کی پاکستان نیشنل پارٹی کا حصہ بنے۔
سید حیدر عباس گردیزی نے شعوری طورپر سیاسی سفر کا آغاز نیپ سے شروع کیا پھر این ڈی پی کا حصہ بنے۔ 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور پھر اسی کے ہوکر رہ گئے۔ این ڈی پی میں وہ ملتان کے ضلعی صدر تھے اور یہ تحریر نویس جنرل سیکرٹری۔ این ڈی پی سے الگ ہونے کی داستان کچھ یوں ہے کہ بھٹو کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو کچھ عرصہ بعد حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماوں کو حیدر آباد سنٹرل جیل سے رہا کردیا گیا
یہ سازش کیس اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر اور پیپلزپارٹی کے بانی رہنما حیات محمد خان شیرپاو کے بم دھماکے میں جاں بحق ہونے کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر لگائی گئی پابندی (اس پابندی کی سپریم کورٹ نے حکومت کی طرف سے بھجوائے گئے ریفرنس کی منظوری دے کر تائید کی تھی) کے بعد قائم ہوا تھا۔
مارشل لاء حکومت نے یہ مقدمہ واپس لے لیا تو اس میں گرفتار رہنما رہا ہوگئے اور رہائی کے بعد نیپ میں مشترکہ جدوجہد کرنے والے بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کے راستے جدا ہوگئے۔
سرائیکی وسیب سے نیپ کے جو سابقین این ڈی پی میں شامل تھے ان کی بڑی تعداد نے کبیروالا میں مخدوم پور پہوڑاں روڈ میں ایک احاطے میں منعقد کئے جانے والے استقبالی جلسہ میں خان عبدالولی خان کی تقریر کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔
خان صاحب نے اس جلسہ میں پہلے احتساب پھر انتخاب کروانے کے حوالے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے کچھ باتیں ایسی کہیں جن سے یہ بات واضح ہوئی کہ این ڈی پی فوجی حکومت کو جائز سمجھتی ہے۔
خان عبدالولی خان کے دورہ ملتان کے بعد این ڈی پی کے دوستوں کا اجلاس سید حیدر عباس گردیزی کی قیام گاہ پر ہوا۔ اکثریت کا فیصلہ تھا کہ ہم سیاسی کارکن ہیں، پیپلزپارٹی سے اختلافات ہیں بھی تو سیاسی شعور کی بنیاد پر ہیں لیکن صرف پیپلزپارٹی کی مخالفت میں مارشل لاء حکومت کی حمایت کرنا اور اس موقف کی تائید کرنا کہ پہلے احتساب کیا جائے پھر انتخابات کروائے جائیں، سیاسی شعور کی توہین ہے۔
اسی اجلاس میں این ڈی پی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ہوا ہم نے ایک اجتماعی استعفیٰ تحریر کیا (اس تحریر کو لکھنے کا فرض میں نے ادا کیا) گیا جس میں ہم نے پارٹی (این ڈی پی) کے مرکزی صدر سردار شیر باز مزاری اور صوبائی صدر راو مہروز اختر کو لکھا کہ چونکہ پارٹی نے مارشل لاء کو جائز قرار دیا ہے اور پارٹی کے پلیٹ فارم سے خان عبدالولی خان یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی حکومت پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کا احتساب کرے اور احتساب مکمل ہونے پر انتخابات کروائے جائیں اس سے یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ این ڈی پی سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمن میں تبدیل کرنے کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ان حالات میں جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں کا این ڈی پی کے تنظیمی عہدوں اور رکنیت سے مستعفی ہونا ہی جمہوری روایات کی پاسداری ہوگا۔
اس مشترکہ استعفیٰ پر سید حیدر عباس گردیزی، عمر علی خان بلوچ اور میرے علاوہ 27 افراد نے دستخط کئے جو ضلع ملتان اور تحصیلوں کی سطح پر پارٹی کے عہدیدار تھے۔
ملتانیوں کی سیاسی تاریخ کا یہ باب لکھنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ماضی کے سیاسی ادوار میں سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پارٹی کی مرکزی قیادتوں سے نہ صرف کھل کر اختلاف کرتے تھے بلکہ جس عمل اور بات کو جمہوری روایات سے انحراف سمجھتے اس سے برات کا اظہار بھی کرتے تھے۔
سید حیدر عباس گردیزی مرحوم کی شخصیت و تعارف کے حوالے سے لکھے گئے گزشتہ کالم میں کافی ساری تفصیلات عرض کی تھیں۔
یہاں اس تاریخی اہمیت کے حامل معاملہ کا ذکر بھی ضروری تھا۔ مرحوم کی یاد میں منائی گئی شام میں بھی میں نے عرض کیا تھا کہ قبضہ گیر ریاست میں خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 72برسوں سے زمین زادوں کے خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوتے آئے ہیں یہ بھی عرض کیا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے لڑسکتے ہیں مگر اجل سے نہیں۔
ہمارے دوست وجاہت مسعود نے اپنی تقریر میں جواباً کہا کہ "کورونا وبا کی صورت میں آنے والی اجل سے محفوظ رہنے کے لئے تو ویکسین بنالی گئی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ سے بچنے کی ویکسین نہیں بن سکی‘‘۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے محفوظ رہنے کی ویکسین جمہوریت اور صرف جمہوریت ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کے نام پر طبقاتی نظام کا گلے پڑا ڈھول بجایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: