مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی پی پی کلچر ونگ کا دورہ بھونگ||حیدر جاوید سید

وہ یہ کہ سانحہ بھونگ کے بعد انہوں نے اپنی اپنی جماعت یا مشترکہ وفد کی صورت میں بھونگ تشریف لے جانے کی زحمت کیوں نہیں کی؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپلزپارٹی سرائیکی وسیب کے کلچر ونگ کے ایک وفد نے ڈاکٹر اشو لال کی قیادت میں بھونگ میں حالیہ بلوے میں متاثر ہونے والی امام بارگاہ اور مندر کا دورہ کیا۔ کلچر ونگ کے سینئر نائب صدر میر احمد کامران مگسی اور پی پی پی کے دوسرے فعال کارکنوں کے ساتھ سرائیکی ایکشن کمیٹی کے سربراہ راشد عزیز بھٹہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔
پی پی پی کلچر ونگ کے وفد نے دونوں عبادت گاہوں پر حملوں، توڑپھوڑ اور مقدسات کی توہین پر گہرے افسوس کے ساتھ متاثرہ مذہبی برادریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ سیاسی و سماجی حوالوں سے پی پی پی کلچر ونگ کا یہ عمل لائق تحسین ہے۔
سوشل میڈیا پر سرائیکی وسیب اور جنوبی پنجاب کا تنازع ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس بحث کے آغاز پر ان سطور میں تفصیل کے ساتھ معروضات عرض کرچکا فی الوقت اس بحث کو مزید بڑھاوا دینے کی بجائے سرائیکی وسیب کی سیاست کے کلی مالک و مختار ہونے کے مدعی قوم پرستوں سے ایک سادہ سا سوال ہے۔
وہ یہ کہ سانحہ بھونگ کے بعد انہوں نے اپنی اپنی جماعت یا مشترکہ وفد کی صورت میں بھونگ تشریف لے جانے کی زحمت کیوں نہیں کی؟
ضمنی سوال یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے یہ فرض ادا کرہی دیا ہے تو اس میں کیڑے نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
سرائیکی قوم پرستوں کو بطور خاص یہ سمجھنا ہوگا کہ قوم پرستی کی سیاست مذاہب و عقیدوں سے بالاتر وسیبی سیاست ہوتی ہے۔ اصولی طور پر سانحہ بھونگ کے بعد قوم پرستوں کو سب سے پہلے متاثرہ علاقے اور عبادت گاہوں کا دورہ کرکے بلوے سے زخم کھانے والی مذہبی برادریوں سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے تھا۔
ایک قدم آگے بڑھ کر اگر یہ عرض کروں کہ قوم پرستوں کا فرض تھا وہ متاثرہ علاقے میں پہنچ کر نہ صرف وسیبی حق ادا کرتے بلکہ انہیں مشترکہ طور پر وہاں دھرنا دے کر بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ ملزمان، ان کے سرپرستوں کی گرفتاری اور ریاست کی طرف سے متاثرین کی عملی دلجوئی تک۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور عرض کئے دیتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب لکھنے یا بولنے پر اس تحریر نویس کو نہ صرف پیپلزپارٹی سے اختلاف ہے بلکہ شائستہ انداز میں اپنی رائے کا اظہار ان سطور میں کرچکا۔ میری اب بھی یہی رائے ہے کہ سرائیکی قوم پرستوں کو کم از کم ان جماعتوں کے لئے دل ودماغ اور گھر کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں جو ان کے قومی سوال اور صوبے کے قیام کے حق میں ہیں۔
ثانیاً یہ کہ وفاقی سیاست کے تقاضے قوم پرست سیاست سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت وہ پیپلزپارٹی ہی کیوں نہ ہو، قوم پرستی کی سیاست یا یوں کہہ لیجئے کسی وسیب کی عمومی سیاست اور ضرورتوں پر سوفیصد پورا نہیں اترسکتی۔
سیاست کے مرکزی دھارے میں سرگرم عمل جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل قوم پرست جماعتوں کی ضرورت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔
میں کبھی بھی اس سوچ کا حامی نہیں رہا کہ وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کو گالی دیئے یا وسیب سے جلاوطن کئے بغیر قوم پرست سیاست یا جماعت کا احیاء نہیں ہوسکتا۔
دونوں (قوم پرست اور وفاقی سیاست والے) کو یہ امر بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ دونوں کی سیاست کے کچھ تقاضے اور حدود ہیں ان سے تجاوز ممکن ہی نہیں۔
معاف کیجئے گا بات دور نکل گئی۔ موضوع یہ تھا کہ سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے بھونگ جانے کی زحمت کیوں نہ کی۔ ان سطور کے لکھے جانے تک بھونگ کی متاثرہ عبادت گاہوں تک صرف دو وفود پہنچے۔
اولاً وہ وفد جو ہمارے برادرِ عزیز اور امن کمیٹی کے رکن ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ کی رہنمائی اور مولانا ابوالخبیر آزاد کی قیادت میں گیا تھا۔ ثانیاً پی پی پی کلچر ونگ سرائیکی وسیب کا وفد جو گزشتہ روز وہاں پہنچا۔
قوم پرستوں نے چند بیان ضرور دیئے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج بھی کیا لیکن ان کا فرض یہ تھا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر بھونگ جاتے اور متاثرہ عبادت گاہوں کے متعلقین سے مل کر نقصانات کی تفصیل حاصل کرنے کے ساتھ اس سانحہ کے پس منظر سے آگاہی حاصل کرکے حقائق قوم کے سامنے لاتے اور مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اب کھلے دل سے مان لیجئے کہ قوم پرستوں نے وسیبی حق اس طور ادا نہیں کیا جو ان کا فرض تھا کیونکہ ان کا دعویٰ یہی ہے کہ ہم وسیب میں مقیم ہر شخص کی آواز ہیں وہ بھی کسی مذہب و عقیدے اور لسانی شناخت کی تمیز کئے بغیر۔
ان حالات میں اگر پیپلزپارٹی کے کلچر ونگ نے سیاسی و سماجی ذمہ داری پوری کی ہے تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے ناکہ طعنے بازی یا کیڑے نکالنے کا شوق پورا کرنے کے لئے ہاتھ پاوں مارے جائیں۔
مکرر عرض کئے دیتا ہوں سرائیکی قوم پرستوں نے وسیبی حق ادا کرنے کا موقع گنوادیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ خوداحتسابی کریں۔
اس امر پر غوروفکر کہ وسیبی سیاست کے تقاضے کیا ہیں اور حالیہ واقعہ کے بعد ان سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غلطی کہاں سرزد ہوئی۔
پی پی پی کلچر ونگ کے سربراہ ڈاکٹر اشو لال، سینئر نائب صدر میر احمد کامران مگسی، شہزاد شفیع، دانیال گھلو اور وہ دوسرے دوست جنہوں نے بھونگ کے متاثرین کے درد کو محسوس کیا اور وفد کی صورت میں راشد عزیز بھٹہ کے ہمراہ وہاں پہنچے انہوں نے وسیب کا حق ادا کیا۔
راشد عزیز بھٹہ پر کسی گئی پھبتی بھی فضول ہے کہ وہ تو جی جیالا ہے۔
امید کا دامن تھامے سفر حیات طے کرتے ایک وسیب زادے کی حیثیت سے مجھے امید ہے کہ سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے دوست اپنی کوتاہی پر غور کریں گے۔
بلاشک وہ پیپلزپارٹی کے عمل کی تحسین نہ کریں لیکن یہ ضرور سوچیں کہ وہ خود اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ایک آدھ مذمتی بیان دے کر ان کا فرض پورا ہوگیا؟ امید واثق ہے کہ میرے یہ قابل احترام دوست وسیبی حق کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے پر خود احتسابی ضرور کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: