عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامراجی اور اُن کی باجگزار ریاستیں جنگ میں بھاڑے کے ٹٹوؤں /پیدل سپاہیوں کی لاشوں کو بھی اپنا جنگ پرست بیانیہ بنانے سنوارنے کے لیے استوار کرتی ہیں اور اپنی خون آشامی کو چھپانے کے لیے اُس بیانیے کو فریب پہ مبنی معانی پہناتی ہیں –
طالبان جو سامراج کی خون آشام سرمایہ داریت کے بطن سے پیدا ہوئے، جب سامراجیت کے تضادات میں سامراجیت سے ٹکراؤ میں آئے تو اُن کے خاتمے کے نام پہ ہم نے افغانستان کو مہذب بنانے کے نعرے کے ساتھ سامراجی جنگ کو پھیلتے دیکھا، دونوں عوام دشمن قوتیں عوام کے خلاف طرسرپیکار تھیں اور دونوں اپنے پیدل سپاہیوں کے خون سے اپنے بیانیوں کو رنگ رہی تھیں اور آج بھی سامراجی اور ان کے اتحادی جہاں افغان محنت کشوں کو مذھبی اور نسلی فرقہ وارانہ تقسیم کرکے اور کمزور نسلی و مذھبی گروہوں کے احساس عدم تحفظ کا استحصال کرکے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں اور دوسری طرف سامراجیوں اور اُن کی کٹھ پتلی علاقائی طاقتوں کی پالیسیوں کی پیدوار طالبان وہ بھیڑیے ہیں جنھیں بھیڑ کی کھال پہنانی کی کوشش ہورہی ہے –
ہمیں سامراج کو "امن کا ضامن” سمجھنے یا ان کی اُن کے طفیلیوں میں سے کسی ایک طفیلی کی مکمل فتح سے بہتری کی امید رکھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے – افغانستان میں نہ تو سامراج کی کٹھ پُتلی امن کی حامی ہے اور نہ ہی افغان طالبان….. امن کی کنجی ورکنگ کلاسز /محنت کش طبقات کا جنگ مخالف تحریک کا ہر اول دستہ ہونے میں ہے-
ہمیں ہر اُس نظریے کو رد کرنا جو محنت کش طبقات کو نسلی و مذھبی فرقہ وارانہ تقسیم کی نذر کرتا ہو
یہ بھی پڑھیے:
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر