حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھونگ میں مندر پرحملہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی طرف سے لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حملہ آوروں نے مندر پر حملہ سے قبل ایک اور عبادت گاہ پر حملہ کیا اور توڑپھوڑ کے ساتھ اس عبادت گاہ کے مقدسات نذر آتش کئے۔
آئی جی پنجاب بتارہے تھے کہ حملہ آور کچے کے علاقے سے آئے تھے۔ پولیس کے مثبت کردار کی بدولت زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور آئی جی پنجاب کے بیانات کو ملاکر پڑھیں یا الگ الگ کرکے اصل سوال وہی ہے جو چیف جسٹس نے کیا
’’تین دن گزرجانے کے باوجود ایک بھی ذمہ دار شخص گرفتار کیوں نہیں ہوا؟‘‘
لاکھ قراردادیں منظور کیجئے اور مذمتی بیانات سے جی بہلایئے، سچ یہ ہے کہ بلوائیوں نے ہمارے چہروں پر کالک مل دی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ پہلے ہندو برادری کے ایک نوجوان کو توہین مقدسات کا الزام لگاکر گرفتار کروایا گیا۔پولیس تفتیش میں الزام درست ثابت نہ ہوا جس پر عدالت نے اسے رہا کردیا۔ پھر ہندو برادری کے ایک آٹھ سالہ بچے پر الزام لگایا گیا کہ اس نے مقامی مدرسہ کی لائبریری میں داخل ہوکر اس میں پیشاب کردیا۔ دونوں واقعات کے درمیانی عرصہ میں بھونگ اور گردونواح کی بستیوں میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جاتا رہا۔ متعدد اجلاس ہوئے۔ نعرہ بازی اور بدلہ لینے کے اعلانات۔ تھانہ بھونگ کے پولیس اہلکار ہوں یا ضلعی سکیورٹی کے اہلکار، دونوں نجانے کن ہوائوں میں اڑتے پھر رہے تھے۔
بھونگ واقعہ کے حوالے سے ایک اور رائے یہ ہے کہ عید قرباں کے تیسرے دن مقامی ہندو برادری کا 8سالہ بچہ جوکہ مجذوب بتایا جاتا ہے، مقامی مسجد میں داخل ہوگیا۔ اس بچے کو مسجد یا لائبریری (کیونکہ دونوں مقامات بتائے جارہے ہیں) میں داخل ہونے پر ڈانٹا گیا تو اس کا خوف سے پیشاب خارج ہوگیا جس پر کچھ لوگوں نے اس بچے پر بے حرمتی کا الزام لگایا اور مقدمہ درج کروادیا۔
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ مندر اور دوسری عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے مقامی لوگ نہیں تھے بلکہ یہ بھونگ کے گردونواح میں مقیم ایک قبیلے کے لوگ تھے اور وہ اصل میں بھونگ بازار کو لوٹنے کے لئے حملہ آور ہوئے لیکن ان کے حملہ کی پیشگی اطلاع ملنے پر بازار بند کروادیا گیا تھا جس کے بعد یہ لوگ مندر اور دوسری عبادت گاہ پر حملہ آور ہوئے۔
بھونگ واقعہ کے حوالے سے یہ دوسری رائے رحیم یار خان کے ایک وکیل دوست کے توسط سے مجھ تک پہنچی ان کا کہنا ہے کہ یہ معلومات رئیس وزیر کے منیجر نے انہیں فراہم کی ہیں۔ دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات اس سے یکسر مختلف ہیں یہ کہانی آئی جی پولیس کی اس کہانی میں رنگ بھرنے کا کام دے سکتی ہے کہ ’’حملہ آور کچے کے علاقے سے آئے تھے‘‘۔ بھونگ مندر پر حملے کی ایک سے زائد ویڈیوز موجود ہیں۔ ہر ویڈیو چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ حملہ آوروں کا ہدف کیا تھا۔ ڈنڈوں لاٹھیوں اور پتھروں سے مسلح حملہ آور جس ’’جذبہ ایمانی‘‘ سے نعرے لگاتے اور دونوں عبادت گاہوں میں توڑپھوڑ کے ساتھ مقدسات کو جلاتے دکھائی دیتے ہیں یہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا مقصد کیا تھا۔
بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ ’’حملہ آور مقامی نہیں تھے وہ قرب و جوار میں آباد ایک قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اس قبیلے کی وجہ شہرت جرائم پیشہ ہونا ہے یہ لوگ بھونگ بازار کو لوٹنے آئے تھے”۔ پیشگی اطلاع ملنے پر بازار بند کروادیئے گئے۔
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جن رئیس صاحبان نے پیشگی اطلاع مل جانے پر مقامی بازار بند کروادیئے ان بااختیار و باوسائل رئیس صاحبان نے ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کو اس کی اطلاع دی کہ لٹیروں کا ایک ہجوم بھونگ شہر کو لوٹنے کے لئے بڑھتا چلا آرہا ہے؟
ایسا نہیں ہوا یہ دوسری کہانی انتظامیہ اور مقامی جاگیرداروں کی گھڑی ہوئی ہے۔ آئی جی پولیس نے یہی کہانی سپریم کورٹ میں سناکر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ بظاہر اس کہانی کا مقصد بلوے کے مقامی کرداروں کو بچانا ہے، کیوں؟ یہ رئیس صاحبان کی سیاسی ضرورت اور مجبوری ہوسکتی ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ ہندو برادری کے لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک عرصہ سے کچھ لوگ ان کے مندر اور مکانوں والی قیمتی جگہ ہتھیانے کے لئے سازشوں میں مصروف ہیں اور حالیہ واقعہ بھی سازش کا حصہ ہے۔
ثانیاً یہ کہ مندر سمیت دو عبادت گاہوں پر حملے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کے ذمہ داران ان ویڈیوز میں موجود بلوائیوں کی شناخت کے لئے نادرا سے مدد کیوں نہیں لیتے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے؟
یہ عرض کرنے دیجئے کہ سارا معاملہ ایسے بالکل نہیں جیسے آئی جی پنجاب، مقامی انتظامیہ اور رئیس صاحبان پیش کررہے ہیں۔ یہ سبھی آخر ’’گھٹالے‘‘ کی پردہ پوشی چاہتے ہی کیوں ہیں؟
علاقائی سیاسی مفادات اور فتویٰ بازی کا خوف، اصولی طور پر اب تک ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بن جانی چاہیے تھی لیکن اس سے قبل رحیم یارخان کے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او صادق آباد کے اسسٹنٹ کمشنر، سرکل پولیس آفیسر اور بھونگ کے ایس ایچ او کی معطلی ضروری ہے کیونکہ ان 5افراد کی موجودگی میں آزادانہ تحقیقات ممکن نہیں۔
بھونگ میں مندر اور دوسری عبادت گاہ پر حملہ، توڑپھوڑ اور مقدسات کو جلائے جانے کا معاملہ اتنا سادہ ہرگز نہیں جتنا کچھ بڑے لوگ اور انتظامیہ وغیرہ سمجھانے رٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کی اعلیٰ سطح تحقیقات بہت ضروری ہے۔ سرائیکی وسیب میں مختلف مذاہب و عقائد کے لوگ صدیوں سے اخوت و بھائی چارے سے اکٹھے رہتے بستے آرہے ہیں مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو بڑھاوا دینے کی سازش کرنے اور بلوہ کرنے والے وسیب، امن اور انسانیت کے دشمن ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اتحاد بین المسلمین امن کمیٹی کے رکن اور ملتان کی معروف سماجی و مذہبی شخصیت ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ تو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مولانا عبدالخبیر آزاد اور ایک وفد کے ہمراہ طویل مسافت طے کرکے بھونگ میں دھرتی جائے ہندوئوں کی دلجوئی اور ان سے یکجہتی کے لئے پہنچ گئے لیکن مقامی اور ضلعی انتظامیہ نے کسی طور یہ قدم اٹھانے کا حوصلہ نہ کیا۔ ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ نے قدیم ملتانی روایت کے مطابق اپنے سر سے ٹوپی اتار کر ہندو برادری سے معافی مانگی۔ یہ عمل خیرسگالی، دلجوئی کے ساتھ زخموں کو بھرنے کا کام دے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ سانحہ بھونگ کی جوڈیشل انکوائری بہت ضروری ہے۔ محض پولیس کی تفتیش پر نہیں رہا جاسکتا کیونکہ پولیس کا عام مقامی اہلکار ہو یا آئی جی، دونوں حقائق کو مسخ کرنے میں مصروف ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر