مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزاد کشمیر میں حکومت سازی کا عمل||حیدر جاوید سید

آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے سردارعبد القیوم خان نیازی 33ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہو گئے اپوزیشن کے امیدوار لطیف اکبر کو 15 ووٹ ملے ۔ قبل ازیں پی ٹی آئی کے ہی انوار الحق سپیکر اور ریاض گجر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے سردارعبد القیوم خان نیازی 33ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہو گئے اپوزیشن کے امیدوار لطیف اکبر کو 15 ووٹ ملے ۔ قبل ازیں پی ٹی آئی کے ہی انوار الحق سپیکر اور ریاض گجر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ دونوں کو 23/32 ووٹ ملے تھے جبکہ متحدہ اپوزیشن کے امیدواروں فیصل ممتاز حسین راٹھور اور نثار عباسی کو 15/15ووٹ ملے تھے ۔
پی پی پی کے دو ارکان اور مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد خان حلف نہ اٹھا سکنے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالا متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 16 ہے اصولی طور پر متحدہ اپوزیشن کے امیدواروں کو سولہ ووٹ ملنا چاہئے تھے ان کا ایک ووٹ کم ہے ۔
سردار عتیق ابھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دیں گے یا حکومتی جماعت پی ٹی آئی کا۔ گزشتہ دور انہوں نے پی ٹی آئی کے اتحادی کے طور پر بسر کیا عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے کچھ حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی عمومی رائے یہ تھی کہ مسلم کانفرنس تین سے پانچ نشستیں حاصل کرے گی لیکن ملی صرف ایک نشست ‘
پی پی پی نے گیارہ نشستیں جیتیں ‘ خواتین کی ایک مخصوص نشست ملی نون لیگ نے چھ جیتیں ایک خواتین کی نشست ملی۔
بدھ کو نون لیگ کے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے اعلان کیا ان کی جماعت انتخابی نتائج تسلیم نہیں کرے گی۔ حکمت عملی کیا ہوگی اور لانگ مارچ کب ہو گا اس معاملے میں انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ بدھ کے روز سوشل میڈیا مجاہدین ہوا میں تلواریں چلاتے اور دھول اڑاتے رہے ۔ اکا دکا لوگ جانتے تھے کہ نو منتخب وزیر اعظم آزاد کشمیر ذات کے نیازی نہیں "دولی مغل” ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے اے کے نیازی سے عمران احمد خان نیازی تک باتیں ہوتی رہیں۔
سردار عبد القیوم نیازی سے کسی نے یہ جملہ منسوب کرکے آگے بڑھایا کہ وہ جوانی میں معروف شاعر منیر نیازی کو پسند کرتے تھے اس لئے نیازی تخلص رکھ لیا۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اپنی جوانی کے دنوں میں سردار عبدالقیوم نیازی دو شخصیات کے عشق میں گرفتار تھے اولاً سردار عبدالقیوم خان کے جوان کے سیاسی قائد تھے تب موجودہ عبد القیوم کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگایا کرتے تھے ۔ ثانیاً معروف عالم دین مولانا عبدالستار خان نیازی مرحوم ‘ نیازی تخلص دراصل انہوں نے مولانا عبدالستار خان نیازی سے اپنی عقیدت پر پسند کیا۔ شاعری سے ان کا دور دور تک کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
نومنتخب ریاستی وزیر اعظم کا خاندان مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آزاد کشمیر پہنچا اور کنٹرول لائن کے قریب ایک دیہات میں مقیم ہوا۔ سیاسی زندگی کا آغاز مسلم کانفرنس سے کیا ماضی میں رکن اسمبلی اور وزیر جیل خانہ جات بھی رہے ۔
ارب پتی تنویر الیاس جن کی وجہ سے ایک محکمے کے آزاد کشمیر میں سربراہ کو ملازمت سے جبری رخصت ہونا پڑا۔ سینئر وزیر بن کر خوش ہیں البتہ چوہدری نور حسین مرحوم کے فرزند ارجمند اور پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نا خوش ہیں پارٹی کی ریاستی شاخ کے سربراہ کے طور پر وہ خود کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز دیکھ رہے تھے ۔
کہا جارہا ہے کہ انہیں ریاست کا صدر بنانے کا لالی پاپ دیا گیا ہے جبکہ اطلاع یہ ہے کہ آئندہ ریاستی صدر اور مظفر آباد سے رکن اسمبلی خواجہ فاروق ہوں گے ۔ نو منتخب وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی وزارت عظمیٰ کے حصول کی دوڑ میں شامل نہیں تھے ۔
ابتدائی طور پر تین امیدوار تھے تنویر الیاس ‘ سلطان محمود اور خواجہ فاروق۔ ایک مرحلہ پر خواجہ فاروق سے سپیکر بننے کے لئے کہا گیا لیکن پھر ان سے وعد ہ کیا گیا کہ انہیں صدر منتخب کروایا جائے گا۔ یوں اب صدارت کی گاڑی میں سوار ہونے کے دو خواہش مند ہیں سلطان محمود اور خواجہ فاروق ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں بھی سرپرائز ملے اور پی ٹی آئی کو مسلم لیگ نون کی طرح ”باہر” کا صدر تسلیم کرنا پڑے ۔ باہر سے مراد پارٹی سے باہر کا ہے ۔
بدھ کی شام اپنی محفل شب میں سلطان محمود بہت اداس اور مایوس تھے انہوں نے کچھ دوستوں اورسرپرستوں کی وعدہ شکنی پر افسوس کا اظہار کیا۔ اخبار نویسوں سے وہ صرف یہ کہہ پائے کہ میں سردار عبدالقیوم خان نیازی کے ساتھ چلنے کی پوری کوشش کروں گا۔ بیرسٹر سلطان محمود کے مزاج شناس کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ”ہمارا جواب ہے”۔
آزاد کشمیر کے نومنتخب وزیر اعظم کی لاٹری نکلنے پر نصف درجن کہانیاں ہیں اہم ترین یہ کہ وہ استخارہ سے برآمد ہوئے ان کے نام میں شامل حرف”ع” نے ان کی قسمت چمکائی۔
ایک صحافی ان کا پیر بھی تلاش کر لائے اور دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ انہیں صاحبان مزارات سے خصوصی عقیدت ہے یہی خوبی کام آئی۔
دستیاب معلومات کے مطابق دونوں باتیں نہیں ہیں سلطان محمود جیسے طاقتور اور تنویر الیاس جیسے مالدار امیدواروں کے مقابلے میں ان کی لاٹری اس لئے نکلی کہ وہ وزیر اعظم کو اپنے نام کی وجہ سے پسند آئے مگر اس سے زیادہ ریاستی معاملات دیکھنے ‘ چلانے والے محکموں سے ان کے دیرینہ وفادارانہ تعلقات تھے ۔
وہ دو سال قبل مسلم کانفرنس سے الگ ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ۔ ویسے آزاد کشمیر کی تحریک انصاف مسلم کانفرنس ‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سیاسی مہاجرین پر مشتمل جماعت ہے ۔
سابق مسلم کانفرنسی کا وزیر اعظم بن جانا یا بنا دیا جانا کتنا فائدہ مند رہے گا فوری طور پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہے البتہ بیرسٹر سلطان محمود نچلے نہیں بیٹھنے والے ۔
غضب کے زود رنج ہیں سلطان محمود اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ مل کر متحدہ اپوزیشن پر ڈورے ڈالیں گے سردار عتیق اگر متحدہ اپوزیشن کا حصہ بنے تو بیس ارکان مستقبل کے جوڑ توڑ میں اہم ہوں گے ۔
خیر فی الوقت یہ اطلاع بھی ہے کہ نون لیگ و مسلم کانفرنس کے میلاپ کے لئے بھی کچھ باتیں ہو رہی ہیں۔ نون لیگ کو مسلم کانفرنس میں ضم کرانے کا سوچ رکھنے والے جو حضرات گزشتہ چند دنوں سے دونوں جانب کے بڑوں سے میل ملاقاتوں میں مصروف ہیں ان کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں تو ریاستی سیاست نیا رخ اختیار کرسکتی ہے

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: