حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر جاوید
لیجئے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات مکمل ہوئے ۔ نتائج ماضی کے انتخابات کے عین مطابق ہیں۔ تحریک انصاف نے مجموعی طور پر چھ لاکھ 13 ہزار 590 ووٹ لے کر 26 نشستیں حاصل کیں۔ ان میں سے 9نشستیں پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی ہیں جبکہ 17آزاد کشمیر سے ‘
نون لیگ نے چار لاکھ 91 ہزار 91 ووٹ اور چھ نشستیں حاصل کیں چار آزاد کشمیر میں اور دو مہاجرین کی نشستیں ایک راولپنڈی سے اور دوسری سیالکوٹ سے
پیپلز پارٹی نے تین لاکھ 49 ہزار 896 ووٹ۔ 11 نشستوں میں سے 10آزاد کشمیر سے اور ایک مہاجر نشست پاکستان سے ۔ مجموعی ووٹوں کے حساب سے نشستیں نہ ملنے کے حوالے سے نون لیگ کے رہنمائوں اور سوشل میڈیا مجاہدین کا موقف یہی ہے جو 2013ء میں تحریک انصاف کا تھا ۔
دونوں سے غلطی یہ ہو رہی ہے کہ وہ حاصل کردہ ووٹوں کوحلقہ ہائے انتخابات کے رزلٹ کی بجائے مجموعی حساب کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ مجموعی حساب متناسب نمائندگی والے انتخابی عمل کا ہوتا ہے ۔
تحریک انصاف کی نو مہاجر نشستیں حیران کن ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں پنجاب اور خصوصاً وسطی و بالائی پنجاب میں قومی اور پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں نون لیگ نے پی ٹی آئی کے حکومتی امیدواروں کوشکست دی تھی۔
ایک رائے یہ ہے کہ وہ ضمنی انتخابات پی ڈی ایم نے مل کر لڑے تھے ۔
لیکن اس تحریر نویس کی رائے یہ ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں اگر نون لیگ کو پڑنے والے ووٹوں میں سے بیس فیصد ووٹ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے مان بھی لئے جائیں تو 80فیصد ووٹ نون لیگ کے اپنے تھے ۔ اب ایسا کیا ہوا کہ کشمیری مہاجرین کی دو نشستیں نون لیگ کو مل سکیں ؟
انتخابی عمل میں سرکاری وسائل استعمال ہوئے ایک وفاقی وزیر نے پیسہ تقسیم کیا۔ انتخابی قوانین روندے گئے ۔
آزاد کشمیر میں عبوری حکومت نون لیگ کی ہے۔ یہ عبوری حکومت محض قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہوتی ہے روز مرہ کے امور کے علاوہ اس کی کوئی نہیں سنتا
اسی لئے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے بعض احکامات چیف سیکرٹری نے ہوا میں اڑا دیئے ۔
مثلاً انہوں نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سے کہا کہ آزاد کشمیر کے باہر سے آنے والے ایف سی اہلکاروں اور پولیس والوں کے ہمراہ مقامی عملہ نصف رکھا جائے تاکہ مقامی روایات سے ناواقف غیر مقامی اہلکاروں کی وجہ سے مسائل پیدا نہ ہوں۔
معاملات وزیر اعظم کے حکم کے مطابق نہیں ہوئے اس لئے بعض مسائل پیدا ہوئے جیسا کہ گزشتہ روزشاردہ میں پیش آنے والا واقعہ ہے جوایک نوجوان کی جان لے گیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تقریباً سبھی کے اندازوں کے یکسر برعکس تھا۔
آزاد کشمیر کی سیاست میں پی پی پی ‘ نون لیگ اور پی ٹی آئی کو غیر ریاستی جماعتیں سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان کے ووٹر ‘ حامی ‘ رہنما بھی کشمیری ہی ہوتے ہیں۔ اس سوچ کے حساب سے اب یہ تیسری حکومت ہو گی جو غیر ریاستی جماعت بنائے گی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کر دوں کہ آزاد کشمیر کی چار بڑی(ویسے تو تین ہیں) سیاسی جماعتیں ‘ پی پی پی ‘ نون لیگ ‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سے اولین تین جماعتوں نے مسلم کانفرنس کے اندر جنم لیا۔
تحریک انصاف میں البتہ مسلم کانفرنس ‘ پی پی پی اور نون لیگ کے مہاجرین شامل ہیں۔
دوطرح کے سابقین آپ کہہ سکتے ہیں اولاً وہ جنہوں نے پاپولر پاکستانی سیاست سے متاثر ہو کر آزاد کشمیر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی ثانیاً وہ جو حالیہ انتخابات سے قبل کمپنی بہادر کے حکم پر مسلم کانفرنس نون لیگ اور پی پی پی سے الگ ہو کر پی ٹی آئی کے ٹرک پرسوار ہوئے
ان میں بعض تو پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت نہ صرف آزاد کشمیر کی حکومت میں وزیر تھے بلکہ نون لیگ کے ٹکٹ پر امیدوار ریاستی اسمبلی بھی۔
ویسے ان میں زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے ماضی میں مسلم کانفرنس کی پشت میں چھرا گھونپ کر نون لیگ بنائی تھی۔
فقیر راحموں کے بقول جیسی کرنی ویسی بھرنی والا معاملہ ہے ۔
آزاد کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں بہر طور پی ٹی آئی 26 نشستیں لے کر حکومت سازی کی پوزیشن میں ہے ۔ امید یہی ہے کہ سردار عتیق احمد خان حکومتی اتحادی ہوں گے کیونکہ اپنی جماعت توڑے جانے کے باوجود انہوں نے پی ٹی آئی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی ۔
یہ اطلاع بھی ہے کہ نون لیگ متحدہ حزب اختلاف کا حصہ بننے کی بجائے الگ اپوزیشن گروپ کے طور پر اسمبلی میں رہے گی اس کی وجہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاکستانی سیاست میں موجود اختلافات نہیں بلکہ راجہ فاروق حیدر(نون لیگ کے ریاستی صدراور وزیر اعظم) کی پیپلز پارٹی سے ذاتی نفرت ہے ۔
خیر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو تحریک انصاف اپنے ایجنڈے کے مطابق ریاستی اسمبلی سے آزاد کشمیر کو صوبہ بناو یا پھر وزیر اعظم کے حالیہ اعلان کے مطابق 2 ریفرنڈم کروانے کی قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔
اس امر پر دو آراء ہر گز نہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج توحسب سابق ہیں جیسا کے ماضی میں ہوئے یعنی جس جماعت کی اسلام آباد میں حکومت ہو اس کی آزاد کشمیر میں لیکن اس بار معاملہ صرف اس فارمولے تک محدود نہیں بلکہ اس پلان کا ہے جو 2019ء میں پینٹاگون میں بنا اور 5اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کا پہلا مرحلہ مکمل کیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ اگست 2019ء میں انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ بھارتی اقدام سے امریکہ فروری 2019ء سے ہی آگاہ تھا ہانک کانگ میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں بھارت اور امریکی وزیر خارجہ کی گفتگو کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ کی خبر یہ تھی کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے امریکہ کو اعتماد میں لے لیا ہے
گوامریکیوں نے فوری طور پر اس کی تردید کی مگر بعد کے واقعات نے تصدیق کی کہ ہانگ کانگ ملاقات اور گفتگومحض ہوائی نہیں تھی ۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تب بھی یہ کہا گیا کہ امریکہ نے اس حوالے سے پاکستان کو اعتماد میں لیا ہے یہی وجہ ہے کہ اُس سال نجی دورہ امریکہ پر گئے وزیر اعظم عمران خان کو صدر ٹرمپ سے نجی ملاقات کا دعوت نامہ دلوایا گیایہ وہی وقت ہے جب ”آرمی چیف جنرل قمر باجوہ پینٹاگون کا دورہ کر رہے تھے” ۔ راوی کہتے ہیں کہ جناب باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع بھی "طے شدہ امر تھا”
بہر طور اب دیکھنا یہ ہے کہ کمپنی بہادر مزید کیا کرتی ہے اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کو صوبہ بناو مہم کب شروع کرتی ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر