حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم کسی نئے ایڈونچر کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ سیاسی جماعتیں جیسی بھی اور جہاں بھی ہیں انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہوگی ، کیسے؟ وہ ایسے کہ سیاسی جماعتیں(قائدین و مالکان) عقل کو ہاتھ ماریں جماعتوں میں سیاسی کارکنوں کے کلچر کو فروغ دیں۔ نامزدگیوں کی بجائے انتخابی عمل کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ حقیقی سیاسی کارکن آگے آسکیں۔
سٹڈی سرکل کے تربیتی عمل کو پھر سے متعارف کروانا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت پروان چڑھی تو یہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور اگلے مرحلہ پر سیکولر جمہوریت کے قیام میں معاون ثابت ہو گی۔
ایک کثیر القومی اور کثیر المسلکی ملک میں لوگوں کا اعتماد ایک سیکولر نظام سے ہی بحال ہو سکتا ہے
ہمیشہ عرض کیا کہ مذہبی ریاست یا مذہبی نظام ہر دو کی تعبیر بالادست عقیدے سے ہی ہوتی ہے اس صورت میں مذہب یا مذاہب کے دوسرے فرقے نظر انداز ہوتے ہیں۔
یہیں سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں فی ا لوقت جمہوریت کے نام پر سول ملٹری اشرافیہ اور بالادست طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتا نظام ہے ووٹ اس میں عوام دیتے ہیں ۔ نتیجہ کوئی
اور بناتا ہے
یہی وجہ ہے کہ مسائل کم ہونے میں نہیں آرہے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ہمارے محبوب اور محب وطن جرنیلوں نے لگ بھگ چار بار براہ راست اقتدار سنبھالا۔ ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی ” پرعزم جدوجہد ” میں وہ دو چار قدم دوری پر تھے کہ منظر بدل گئے ۔
چار میں سے تین فوجی حکومتیں امریکہ کے سہارے چلیں ‘ ایوب امریکہ کو عزیز ہوئے سوویت یونین کی جاسوسی میں معاونت فراہم کرنے پر
جنرل ضیاء سوویت امریکہ جنگ میں معاونت پر گیارہ سال نکال گئے ۔
ہزار زوایہ کی الٹی زقند بھر کر جنرل مشرف نے دس سال نکالے ۔
یحییٰ خان کا مارشل لاء معروضی حالات کا نتیجہ تھا یا ایوب خان کے انتقام کاحصہ اس پر کبھی مکالمہ ہوا ہی نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پچھلے بہتر سالوں میں بہت تجربات ہو گئے ۔ آخری تجربہ جو ہم پر ہوا وہ 2018ء کے انتخابات اور نتائج کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
آپ کو اختلاف کا حق ہے لیکن میری رائے یہی ہے کہ اس ملک کے ہر الیکشن میں خواب تعبیروں سے پہلے پوری ہونے کی روایت کا جادو سر چڑھ بول رہا ہے ۔
سچ یہ ہے کہ ہم روز اول سے زمینی حقائق کو سمجھ نہیں پائے ۔ اس انڈس ویلی میں(آج کا پاکستان) آباد قومیتوں کی ہزاریوں پر پھیلی شناخت کو 1947ء کے بٹوارے نے یوں روندا کہ آنے والوں کی خوشی کے لئے ہماری قومی شناخت ‘ تاریخ و تہذیب تک کو بدل ڈالا گیا۔
ایک شب کے فاصلے پر صرف ولن ہیرو نہیں بنے بلکہ تاریخ بھی بدل گئی۔ نتیجہ کیا نکلا؟
کیا زبردستی کی قوم سازی ہو پائی؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے ۔
کیونکہ اس زور زبردستی کو قرار داد مقاصد سے سہارا دینے کی کوشش کے تباہ کن نتائج ہم بھگت رہے ہیں
فرقہ پرستی ‘ تعصبات ‘ جہاد اور شوق تھانیداری ان سارے کاروباروں کا منافع کس نے اٹھایا؟
چار اٙور کے لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لیجئے مجال ہے کہ کوئی اصل ذمہ دار کا نام لے پائے ۔ سرگوشیوں میں بھی نہیں ،
ہم کیسے بدقسمت لوگ ہیں اپنے قومی مجرموں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ اطاعت ‘ منافقت ‘ خود غرضی یہ سب ہمارے خون میں شامل ہیں ہم منہ پھاڑ کر سیاست دانوں کو گالی دیتے ہیں لیکن کیا ملک کو صرف سیاستدانوں کے ایک طبقہ نے لوٹا؟
وہ جو 34 برس تک براہ راست اقتدار پر قابض رہے ان کی دولت وثروت ان کےخاندانی بیک گراونڈ کے مطابق ہے ؟
کم سے کم 50 نجات دہندوں کے نام معاف کیجئے گا اہم کرداروں کے نام لکھ سکتا ہوں مگر فائدہ ۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز دھندوں کو تحفظ دینے والی پالیسیاں بناتے ہیں یہ چند درجن افراد کا دھندہ ہے منافع وہی کماتے کھاتے ہیں۔
ہم جنہیں منتخب نمائندہ سمجھتے ہیں ان کی اوقات یہ ہے کہ وہ سیاستدانوں کو گالیاں دینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کسی اور شخص یا محکمے کی کرپشن کہانی پراٹھتے سوالات کا راستہ روکنے کے لئے قانون بنا دیتے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں دو ایسے قانون بنائے گئے جن سے دو اداروں کے حاضر و سابق افسروں کو تحفظ عطا کیا گیا کہ آپ یا عدالےان سے کسی سے کبھی بھی کسی بھی معاملے میں سوال نہیں کر سکتے ۔
پھر وزارت دفاع کے ماتحت محکموں پر سوالات کا راستہ روکنے کا قانون آیا پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال کی سزا ۔ کیاہمارے علاوہ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا کوئی قانون موجود ہے؟
کم از کم میری نظروں سے نہیں گزرا ہاں ملوکیت پر مبنی نظام اور مذہبی ریاستوں میں یہ کیا اس سے سخت قوانین موجود رہے اور اب بھی ہیں۔
ارے تو پھر کیا ہم خاندان غلامان کے غلام ہیں بادشاہت ہے اس ملک میں؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایک طبقے کی بادشاہت ہی قائم ہے وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو ہم پر مسلط کرتا رہتا ہے بہت ادب کے ساتھ معافی چاہتا ہوں کچھ زیادہ تلخ باتیں ہو گئیں۔
لیکن کیا کیجئے اس ملک میں جہاں ہم اور آپ رہ رہے ہیں اس پر ہمارا حق تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
یہی اصل خرابی ہے چلیں اس بحث میں نہیں پڑتے کہ برصغیر کا بٹوارہ کیوں ہوا۔ ہو گیا اب آگے بڑھتے ہیں ۔
ہم میں تو اتنا حوصلہ نہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقی وجوہات پر مکالمہ کرسکیں۔ جھوٹی رام لیلائوں اور کردار کشی سے جی بہلاتے رہیں گے ۔
ذرا کتاب تاریخ (جیسی بھی ہے) کہ اوراق الٹ کر دیکھ لیں ہم (مغربی پاکستان والوں ) نے مشرقی پاکستان والوں کو کب برابر کاشہری سمجھا۔
بھاڑے کی ایک برابری مسلط کی ون یونٹ کے نام پر کیا اس کے بعد نظام حکومت اور دیگر امور میں وفاقی سطح پر بنگالیوں کو پچاس فیصد نمائندگی ملی؟
جی نہیں حضور!
ملی ہوتی تو 16 دسمبر 1971ء نہ دیکھنا پڑتا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہمیں اطاعت کی بجائے اپنے حقوق حاصل کرنا ہوں گے یہ ملک ہمارا ہے ہم سب کا ہے ہم سبھی اس کے مساوی شہری ہیں۔
طبقاتی جمہوریت بہت بھگت لی۔ نجات دھندہ بھی دیکھ لئے انڈس ویلی کے لوگ اکٹھا رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت ہے جوتسلیم کرے تو یہ ایک قومی نہیں قومیتوں کا ملک ہے ۔
ایک سیکولر جمہوری نظام ہی ہمارے بچوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے باقی سب فریب ہے ویسا فریب جو ہم 72برسوں سے خوشی کے ساتھ کھاتے چلے آرہے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر