اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

استاد کا احترام ۔۔۔||گلزار احمد

وجاہت علی عمرانی صاحب جو انجم صاحب کے شاگرد نہ ہونے پر کف افسوس ملتے رہتے ہیں خود انجم صاحب کے حکم پر ہمارے قافلے میں شامل ہو گیے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‌اس گیے گزرے دور میں بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں استاد کے احترام و عزت کی ایک عملی مثال میرے سامنے آئی ہے جس نے مجھے خوشی اورحیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔یہ شاندار مثال پیپلز پارٹی ڈیرہ کے ڈویژنل صدر اور سماجی شخصیت جناب امان الحق غزنی خیل اور ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر شاھد مسعود خٹک نے میرے آنکھوں کے سامنے پیش کی۔ ہوا یوں کہ یہ دونوں حضرات یہاں کے ایک ممتاز ماہر تعلیم محترم ریاض انجم صاحب کےپینتالیس سال پہلے گورنمنٹ جامع ہائی سکول جو اب وینسم کالج کہلاتا ہے میں شاگرد رہے تھے۔ ریاض انجم صاحب آجکل بھکر مقیم ہیں۔ ان دونوں حضرات نے مجھے کہا کہ وہ اپنے استاد محترم ریاض انجم کو ملنے بھکر جانا چاہتے ہیں اور میں ان کے ساتھ چلوں ۔ میری ریاض انجم صاحب سے واقفیت ایک دو سال پرانی ہے اور میں بھی ان کی علمی خوبیوں کا فین ہوں اس لیے فورا” تیار ہو گیا بقول فراز چلو انجم صاحب کو ان کے گھر چل کے دیکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے امان الحق صاحب اپنے استاد ریاض انجم کو 45 سال بعد ملے۔ انجم صاحب کے دو شاگرد سلیم اعوان اور شوکت منیر بھی ہمارے ساتھ گیے۔ ادھرانجم صاحب عرفان مغل کے والد صاحب کے پرانے دوست تھے وہ بھی تیار ہو گیے۔ وجاہت علی عمرانی صاحب جو انجم صاحب کے شاگرد نہ ہونے پر کف افسوس ملتے رہتے ہیں خود انجم صاحب کے حکم پر ہمارے قافلے میں شامل ہو گیے۔ جمعرات کے روز سہ پہر چار بجے جب ڈیرہ کی فضا 47 ڈگری سینٹی گریڈ سے دہک رہی تھی ہمارا کاروان نیشنل کلب سے دو گاڑیوں میں بھکر روانہ ہوا اور پانچ بجے بھکر پہنچ گیا۔بھکر ایک سرائیکی وسیب کا خوبصورت تاریخی شھر ہے جو دریاے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔1901ء سے پہلے جب انگریزوں نے NWFP کا نیا صوبہ بنایا تو ڈیرہ ضلع کو کاٹ کر اس نیے صوبے میں شامل کر لیا جبکہ اس سے پہلے لیہ۔بھکر ڈیرہ اسماعیل کے ضلع کا حصہ تھے۔
‌ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ آج سے 170 سال پہلے ڈیرہ سے بھکر کا پندرہ میل کا فاصلہ دریا پر کشتیوں کے ذریعے تین دن میں طے ہوتا تھا۔ انگریز محقق میجر ہربرٹ ایڈورڈز اپنی کتاب
‌ A year on the frontier Punjab 1848-49
‌ میں ڈیرہ کے متعلق لکھتے ہیں
یہ بات زیادہ حیران کن نہیں کہ دریائے سندھ کا پاٹ (ڈیرہ سے بھکر تک) تقریباً پندرہ میل چوڑا ہے اور یہاں پر دریا کی تین شاخیں ہوجاتی ہیں۔ڈیرہ سے بھکر تک کشتیوں کے ذریعے تین دنوں میں پہنچا جاتا ہے۔مئی کے مہینے میں جب مجھے دریا کو پار کرنے کا موقع ملا تو اس کی تین شاخیں دیکھنے کو ملیں۔مشرقی اور مغربی طرف کی دو چھوٹی شاخیں اور بیچ میں سمندر جیسی لمبی شاخ۔۔
بہر حال آج ہم بھکر ایک گھنٹے سے کم وقت میں پہنچے اور انجم صآحب کو۔ زندہ رود کے ساحلوں پر۔۔ کتاب شائع کرنے پر مبارکباد دی ۔

%d bloggers like this: