حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید قرباں سے قبل سوشل میڈیا پر دو موضوعات تھے ۔ اولاً یہ کہ جانوروں کی قربانی کی بجائے اس رقم سے ضرورت مندوں کی مدد کر دی جائے اس میں خیر کے بہت پہلو ہیں۔گوشت سے صرف لذت دہن ہی مقصود ہے یہ لذت تو سال بھر حاصل کی ہی جاتی ہے
جواباً سنتوں اور فرائض کے دروس تھے کچھ طعنے بھی خیریہ طعنے بازوں کا مسئلہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کے بہتے خون اور اس کی باقیات کو ماحول دشمن قرار دینے والوں نے ماحول دوست پروگرام پر عمل کے حوالے سے کب کب کیا کیا؟ ۔
دوسرا موضوع افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغواء ‘ تشدد اور اس سے آگے کے معاملات تھا۔ حب الوطنی کی محبت میں جکڑے سکہ بند مسلمانوں نے اس معاملے سے سوالات اٹھانے والوں کو خوب گالیاں دیں۔ غدار وطن فروش کہا اور یہ بھی کہ نکل جاو اس ملک سے
اچھا کیوں نکل جائیں اختلاف رائے رکھنے والے اس ملک سے یہ ملک کسی کی جاگیر ہے یا جہیز میں آیا سامان یا پھر مفتوحہ علاقہ کے فاتحین کی اولاد اس کی مالک ہے؟
بہت ادب کے ساتھ یقیناً یہ بہت کڑوا سوال ہے لیکن کیااس سوال کی کڑواہٹ گالی سے زیادہ ہے؟ ۔
جب یہ عرض کرتا ہوں کے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدزبان نسل تیار کرنے مارکیٹ میں چھوڑی گئی ہے تو بہت سارے دوست ناراض ہوتے ہیں۔
تلخ حقیقت یہی ہے کہ آپ کسی بھی ایسے سماج میں چلے جائیں جہاں عوام کے حق حکمرانی کے نام پر بالادست طبقات حکمرانی کرتے ہوں ملازمین خود کو مالک و فاتح سمجھ رہے ہی نا ہوں بلکہ ان کی سوچ یہ ہو کہ خلق خدا عوام کا نہیں رعایا کا درجہ رکھتی ہے اور رعایا تو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اس سماج میں بد زبانوں کے لشکر دندناتے پھرتے دکھائی دیں گے ہمارے یہاں کچھ بھی مختلف نہیں ہو رہا۔
ہمیں اور کتنی پستی اور زوال کا سامنا کرنا ہے اس بارے کچھ علم نہیں وجہ یہ ہے کہ ہر قسم کی دو نمبری یہاں رواج پا چکی ہے ۔حب الوطنی کا معیار یہ ہے کہ آپ مالکان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ مثلاً جب کوئی ا فغان پالیسی پر سوال اٹھائے تو کھٹ سے بھارتی ایجنٹ قرار دے دیجئے باقی کا کام وہ مادر پدر آزاد مخلوق سنبھال لے گی جو محنت کے ساتھ پچھلے بیس برسوں میں تیار کی گئی ہے ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کسی دن ٹھنڈے دل کے ساتھ 42برسوں پر پھیلی افغان پالیسی کا تجزیہ پیش کریں تو جواب فقط یہ ہوگا
”افغان پالیسی ایک کاروبار ہے جسے چلانے والوں اور فرنچائزریوں کے تو وارے نیارے ہوگئے زخم جدائیاں لاشیں رعایا کے حصے میں آئیں”
یہی تلخ حقیقت ہے پتہ نہیں ہم اس سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں سادہ سی بات یہ ہے کہ زندگی کے تلخ حقائق اور سوالات سے آنکھیں چرانے کی بجائے ان کا سامنا کیا جانا چاہئے۔
اب آتے ہیں عید قربان کے موضوع پر قربانی کی عید سے قبل اس کے حوالے سے شروع ہونے والے ملاکھڑوں میں گزشتہ چند برسوں سے جب سے سوشل میڈیا آیا ہے ملحدین بھی رنگ بھرنے لگے ہیں ان کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ اولاً یہ عمل ماحول دوست نہیں جانوروں کا اتنے بڑے پیمانے پر ذبح کیا جانا غلط ہے کچھ تواسے شقاوت قلبی بھی کہتے ہیں۔
چند کی رائے ہے کہ جو رقم قربانی کے جانوروں پر خرچ کی جاتی ہے اس سے مستحق لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے ۔
اگر تو یہ مشورہ پانچ دس لاکھ کا بیل اور دو تین لاکھ کا بکرا خرید کر نمائش کرنے والے نودولتیوں کے لئے ہے تو یقیناً بہت مناسب ہے اور اگر یہ مشورہ سال بھر پائی پائی جمع کرکے قربانی کرنے والے کے لئے تو یہ نامناسب ہے
کیونکہ یہی وہ شخص ہے جو قربانی کے اپنے جانور میں سے ایک وقت کے سالن کے لئے گوشت رکھتا ہے باقی غرباء ومساکین میں تقسیم کر دیتا ہے بہت کم بھی کہیں تو اس ملک کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے
آبادی کے اس حصے کے لیے سوچنے والا یہی بیس فیصد پوش طبقہ ہے جو ایثار کی دولت سے مالا مال ہے ۔
وہ نمائشی قربانی کرنے والے نہیں جو دو تین لاکھ کا بکرا یا پانچ دس لاکھ کا بیل اور گائے خرید کر اترائے پھرتے ہیں
کڑوا سچ یہ ہے کہ ان میں سے 98فیصد ایثار اور انسان پرستی کی نعمتوں سے محروم ہیں۔
میرا سوال البتہ مختلف ہے وہ یہ کہ قربانی کے خلاف دلائل کا انبار لگاتے ہوئے ماحول دوست احباب ‘ ملحدین اور دوسرے یہ تو بتائیں کہ انہوں نے پچھلی عید قرباں سے اب تک کے درمیانی عرصہ میں کتنے لوگوں کی مدد کی۔
ان میں سے کتنوں نے اپنے مستحق بہن بھائیوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھا کہ انہیں کن مسائل کا سامنا ہے؟
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ انسانیت کے درد ماحول دوستی اور جانوروں سے محبت میں مبتلا یہ عزیزان کرام اگر اپنی زندگی میں عملی طور پر خدمت خلق نہیں کرتے تو دوسروں کو درس دینے کی بجائے اپنی اصلاح کریں۔
میں ذاتی طور پر ان چند ہم خیال دوستوں کی رائے سے ہمیشہ متفق رہا ہوں کہ فرائض سے منہ موڑنے کا جرم مسلسل کرنے والوں کو ڈرامے بازی بالکل نہیں کرنی چاہئے ۔
ثانیاً یہ کہ جو کام ہم نہیں کر پاتے یعنی اپنے حصے کی روٹی میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتے اس کی تبلیغ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔
مستحق لوگوں کی مدد صرف قربانی کے جانوروں پر اٹھنے والی رقم سے ہی کیوں۔ ایسا کیوں نہ کریں خاص ملکی اور مذہبی ایام پر سال بھر میں اٹھنے والے اخراجات کم از کم پانچ سال کے لئے کسی ایسے فنڈ میں جمع کروائے جائیں جس کی نگرانی لائق اور اہلیت رکھنے والے دیانتدار افراد کریں اور وہ ان رقوم سے صنعتی ادارے قائم کریں ہسپتال بنائیں تعلیمی ادارے قائم کریں
یقین کیجئے آج اس پروگرام پر اگر صرف پانچ سال عمل ہو تو غربت و پسماندگی سے نجات مل جائے گی۔
آخری بات یہ ہے کہ دوستو!
اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ایثار پر آمادہ کیجئے لیکن پہلے خود میں یہ حوصلہ پیدا کیجئے کہ اپنے حصے کی ایک روٹی میں کسی مستحق کو شریک کریں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر