مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے گمان ہے کہ اعلیٰ نظریات، بڑے آدرش، عظیم وچار اور شاندار خیالات رکھنے والے دوست سمجھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے اور مبشر علی زیدی نام کے باولے نے ایجنسیوں کے اشارے پر کسی طالع آزما جرنیل کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے ڈالی ہے۔
چار دن پہلے میں نے جو لکھا، اس کے بعد بعض دوستوں نے نیت پر شک کیا۔ کچھ پھکڑ پن پر اتر آئے۔ چند ایک نے دماغی حالت پر شبہ کیا۔ جو زیادہ ہمدرد تھے، انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ میں مذاق کررہا ہوں۔
گویا کوئی رائے رکھنا اور اسے ظاہر کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ بندہ دشمنوں سے لڑ لے لیکن دوستوں سے تو لڑا بھی نہیں جاسکتا۔
عرض ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے ہی نہیں۔ اس تحریر کے ساتھ میری پرانی فیس بک پوسٹس کے عکس ہیں۔ ایک نظر ان پر ڈال لیں۔ میں پہلی بار یہ بات نہیں کررہا۔
بہت سے لوگ اس پردے دار مارشل لا کو پہچان نہیں پارہے۔ جو پہچان گئے ہیں، وہ بھی کچھ تاخیر سے۔ میں تو اولین لوگوں میں سے تھا جنھوں نے نقاب پوش آمریت کا نام لیا۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ سینئر صحافیوں کے کالم رکنے کا آغاز بعد میں ہوا، اس سلسلے میں سب سے پہلے جنگ میں میری کہانی بند ہوئی۔ یعنی منظم سنسرشپ کا پہلا شکار میں تھا۔
کیا سنسرشپ ختم ہوگئی؟ یا کسی میں اس کی خلاف ورزی کی جرات بھی پیدا ہوئی؟
کیا سیاسی جماعتیں، صحافی اور صحافتی تنظیمیں، انسانی حقوق کے ادارے، باضمیر جج اور عدالتیں، طلبہ، استاد، وکلا، دانشور اور ایکٹوسٹس مل کر بھی الیکشن میں دھاندلی روک سکے؟
جو سادہ دل دوست سمجھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے، وہی خفا ہوکر کہہ سکتے ہیں کہ مارشل لا کو آواز مت دو۔ حقیقت یہ ہے کہ میں کہہ رہا ہوں کہ مارشل لا تو لگا ہوا ہے۔ لیکن اس مارشل لا کی قیادت نااہل ہے۔ اس کی ٹیم احمقوں کا ٹولہ ہے۔ اس کی کٹھ پتلی پاگل ہے۔
ملک ڈوب رہا ہے اور بہت تیزی سے ڈوب رہا ہے۔ اچھی بات تو یہی ہوگی کہ شفاف الیکشن ہوں اور باشعور سیاسی قیادت اقتدار میں آکر حالات درست کرے۔ لیکن آپ سوچ کر بتائیں، ایسا ہونے کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ ملک کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے فوج کے اندر سے تبدیلی ضروری ہے۔ عبدالوحید کاکڑ جیسا کوئی جرنیل سامنے آئے، جو حالات کم از کم اس نہج پر پہنچادے جہاں سے آگے سویلین قیادت ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لے۔
ہاں، یہ سوال معقول ہے کہ کوئی جرنیل اپنے ادارے کے خلاف کیوں اقدام کرے گا۔ میرا خیال ہے کہ ملک کی خاطر ایسا کرنا چاہیے۔
یہ محض ایک رائے ہے اور اس پر عمل کا ہرگز کوئی امکان نہیں ہے، دوست احباب حوصلہ نہ ہاریں اور جمہوریت کے لیے عظیم جدوجہد جاری رکھیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر