حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط 17
حیدر جاوید سید
اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحبزادی کا اغوا اور ان پر بے رحمانہ تشدد (مغویہ کو چند گھنٹے بعد اغوا کار اسلام آباد میں ہی پھینک کر فرار ہوگئے) کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم نے ملزمان کو 48گھنٹے میں گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سلسلہ علی کو بلیو ایریا سے اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کاروں نے اس پر بے رحمی سے تشدد کیا۔ چند گھنٹے بعد بے ہوشی کے عالم میں شہر کے معروف مقام پر پھینک گئے۔ بتایا گیا ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو مغویہ کے پاس (بعض ذرائع کے مطابق اغوا کار کرنسی نوٹ پر دھمکی لکھی اور ان کے منہ میں ٹھونس دی گئی تھی) سے ایک تحریر ملی جس پے لکھا ہے ’’اگلی باری تمہاری ہوگی‘‘۔ کہا جارہا ہے کہ یہ دھمکی افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کو دی گئی ہے۔
کسی بھی ملک کے دارالحکومت سے سفیر کی صاحبزادی کا پرہجوم علاقے سے اغوا اور اداروں کا چھ گھنٹے کے عرصہ میں سراغ لگانے میں ناکام رہنا بہت عجیب ہے۔
اسلام آباد کے معروف علاقے بارہ کہو میں سینکڑوں افغان خاندان کس قانون کے تحت آباد ہیں۔ مضافاتی بستیوں میں بھی ہزاروں افغان مہاجرین آباد ہیں۔ سٹریٹ کرائم اور منشیات و اسلحہ کی فروخت اور دوسرے جرائم میں 40فیصد کے قریب یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں (اسلام آباد پولیس کے ریکارڈ سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے) بارہ کہو میں حقانی گروپ کے متعدد خاندانوں کی رہائش بھی ہے اور کچھ ’’دوسروں‘‘ کی بھی۔
افغان سفیر کی صاحبزادی کے اغوا کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ اس واقعہ کے پاک افغان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہفتہ کو کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔
اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ اوپر نیچے چند واقعات ایسے رونما ہوئے جن کی وجہ سے بہت سارے محکموں کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ چند دن قبل داسو ڈیم کے قریب رونما ہوئے المناک سانحہ پر وزارت خارجہ نے احمقانہ موقف اپنایا (بس بے قابو ہوکر کھائی میں گرنے سے اموات ہوئیں) بعدازاں تصدیق ہوگئی کہ حادثہ دہشت گردی کی وجہ سے ہوا۔ دوست ملک چین کا ردعمل بڑا شدید تھا۔
اولاً اس نے اپنی تحقیقاتی ٹیم بھجوادی جو تفتیشی اداروں پر کھلا عدم اعتماد تھا ثانیاً داسو ڈیم پر کام بند کرنے کے ساتھ پاکستانی ملازمت کو فراغت کا نوٹس دے دیا گیا۔ گو فراغت نامہ واپس لے لیا گیا ہے مگر چین نے حتمی طور پر تصدیق نہیں کی رواں ماہ میں کسی وقت دوبارہ کام شروع ہوسکے گا یا نہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر چینی داسو ڈیم پر دوبارہ کام شروع نہیں کرتے تو سی پیک کے فیز ٹو کا کیا ہوگا؟
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وہی رٹا رٹایا بیان جاری کیا ہے ’’یہ سی پیک کے دشمنوں کی کارروائی ہے‘‘۔ کوئی ان مخدوم صاحب کو بتائے حادثہ پیش آنے سے چند دن قبل اسی علاقے میں مفرور طالبان کمانڈروں کا بلایا گیا ایک جرگہ منعقد ہوا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان بارے ہمارا سرکاری موقف یہی رہا ہے کہ اسے بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔
وزیر خارجہ سمیت دیگر حکومتی احباب کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کوہستان اور چیلاس کے اضلاع کی انتظامیہ اور پولیس افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی کیونکہ جرگہ چھومنتر کی طرح منعقد نہیں ہوا اس کے لئے ہفتہ بھر سے اعلان اور تیاریاں ہورہی تھیں۔
جن مفرور دہشت گرد کمانڈروں نے یہ جرگہ منعقد کیا وہ قبل ازیں گلگت بلتستان میں غیرملکی سیاحوں کو قتل کرنے کے ساتھ بعض کارروائیوں میں بھی ملوث رہے جس سے پاک چین تعلقات پر منفی اثرات پڑے تھے۔
2014ء میں چینی حکومت نے ان طالبان کمانڈروں (جنہوں نے جرگہ منعقد کیا) کے حوالے سے پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ یہ لوگ چین کی مسلم آبادی والے صوبوں میں شورش پیدا کرنے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔
ان مفرور کمانڈروں کا افغانستان کی بدلتی صورتحال اور طالبانائزیشن سے پیدا ہوئے مسائل کے دوران منظرعام پر آنا خطرے کی گھنٹی تھی جو ہمارے محکمہ جاتی ہیرو اور عظیم دفاعی تجزیہ نگار ہر دو نہیں سن پائے۔
چین جیسے بااعتماد دوست کے ساتھ دفتر خارجہ نے دو نمبری کیوں کی؟ یہ ایسا سوال ہے جسے کوئی بھی ذی شعور تو کیا ایک عام آدمی بھی جسے بہت زیادہ سیاسی امور کا نہ پتہ ہو حیران ہے۔
جب عینی شاہدین دھماکہ کی تصدیق کررہے تھے اور سکیورٹی پر مامور گاڑیوں کے اہلکاران بھی تو کس نے انہیں منہ بند رکھنے کا حکم دیا؟
تلخ نوائی سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ اس سارے معاملے میں ڈی پی او کوہستان کا کردار خاصا مشکوک ہے۔ ان موصوف کے ایک کالعدم جماعت سے روابط اور اس کالعدم جماعت کے لوگوں کو پولیس میں بھرتی کرنے کے الزامات بھی ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مفرور طالبان کمانڈروں کے بلائے گئے جرگہ میں انہوں نے خاموش سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
کسی پر الزام تراشی مقصود ہرگز نہیں البتہ یہ باتیں زبان زد عام ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر ڈی پی او کوہستان کو ان کے منصب سے ہٹاکر مفرورین کے جرگے کے انعقاد اور داسو ڈیم کے قریب ہوئی دہشت گردی کی واردات دونوں کی تحقیقات کروائی جائیں۔
وزارت خارجہ کے ’’بابو گروپ‘‘ سے بھی تحقیقاتی اداروں کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ ابتدائی تفتیشی نتائج سے قبل انہوں نے کیسے اخذ کرلیا کہ داسو ڈیم کے قریب پیش آیا واقعہ دہشت گردی نہیں بلکہ معمول کا ٹریفک حادثہ ہے؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ دفتر خارجہ کے ’’بابو گروپ‘‘ کے بیان پر دوست ملک نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ افغان سفیر کی صاحبزادی کے بلیو ایریا اسلام آباد سے اغوا کے معاملے پر بھی اس بابو گروپ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں
’’ان دنوں وزارت خارجہ میں نیچے سے اوپر تک مصنوعی پن اور چرب زبانی کا دور دورہ ہے‘‘۔
کسی بھی ملک کی وزارت خارجہ کو کتنا حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت بالکل نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں واقعات کے حوالے سے غیرذمہ دارانہ گفتگو (بیانات) کرنے والے بابو گروپ کے خلاف کوئی کارروائی بھی ہوتی ہے یا مٹی پائو پروگرام پر عمل کیا جاتا ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر