مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

1960 کی دہائی کا ڈیرہ غازی خان – کچھ یادیں (1)||ساجد منصور قیصرانی

ایسے لوگ بھی شہر کی سڑکوں پر گھومتے تھے جنہیں لوگ دہریہ کہتے تھے مگر انہیں کوئی آزار نہیں پہنچاتا تھا۔ اور وہ اپنی مرضی اور منشا سے تہوار مناتے تھے۔
ساجد منصور قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدیں
1960 کی دہائی کا ڈیرہ غازی خان ایک درمیانے سائز کا خوبصورت اور پر سکون شہر تھا۔ ہر روز میونسپل کمیٹی طرف سے شہر کی گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کی جاتی تھی ، جبکہ گرمیوں کے موسم میں شام کو بڑی سڑکوں پر چھڑکائو کیا جاتا تھا۔ گندے پانی کے نکاس کی نالیوں میں باقاعدگی سے چُونا ڈالا جاتا تھا، تاکہ نہ صرف جراثیم وغیرہ کو تلف کیا جائے بلکہ بدبو کا بھی تدارک کیا جائے۔ شہر کے چند گنے چنے لوگوں کے پاس کاریں تھیں جبکہ زیادہ تر لوگ سائیکل پر ، تانگے پر یا پیدل سفر کرتے تھے۔
عیدیں شہر کا ایک بڑا تہوار تھیں، جو شہر کی معمول کی سست اور یکسانیت سے بوجھل فضا کو چند دنوں کیلئے رفتار عطا کردیتیں ۔ عید سے پہلے ہی اس کی تیاریوں سے ہل چل مچ جاتی۔ عید کی صبح مرد حضرات نئے کپڑے پہن کر بچوں کو ساتھ لے کر عید نماز پڑھنے کیلئے نکلتے، اور عورتیں عید کے خاص پکوان پکانے میں مصروف ہو جاتیں۔
اس زمانے میں شہر میں عید کے تین اجتماعات ہوا کرتے تھے۔ عید کا سب سے بڑا اجتماع عید گاہ میں ہوتا تھا۔ دوسرا اجتماع مولانا فضلِ حق کی مسجد میں ہوتا تھا اور تیسرا اہلِ تشیع کا اجتماع ان کی بلاک یو والی امام بارگاہ اور جامع مسجد میں ہوتا تھا۔
عید گاہ کمپنی باغ کے شمالی کونے پر ایک وسیع قطعہ اراضی پر تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں ہونے والے اجتماع میں شہر کے لوگوں کی اکثریت شریک ہوتی تھی اور نماز کے وقت تک عید گاہ اور اس کے باہر وسیع علاقے پر لوگ جائے نماز ، چادریں اور دریاں بچھا کر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ وہ موقع ہوتا تھا جہاں شہر کے ان لوگوں کی آپس میں ملاقات بھی ہو جایا کرتی تھی جو عام طور سے ایک دوسرے سے نہیں مل پاتے تھے۔ یہاں نماز کی امامت مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا غلام جہانیاں صاحب کرتے تھے۔ تحریک ِ آزادی میں اپنے کردار کی وجہ سےمولانا غلام جہانیاں کا بڑا احترام تھا ۔ میرے والد ڈاکٹر احمد یار خان قیصرانی اور ان کے تحریکِ پاکستان کے دوستوں کی مولانا غلام جہانیاں سے کافی بے تکلفی تھی اور وہ خطبہ طویل ہونے کی صورت میں ان سے شکایت بھی کیاکرتے تھے۔ عید نماز کے بعد اکثر لوگوں سے وہیں عید مل بھی لیا جاتا تھا۔
میرے والد اور ان کے دوست عید نماز سے پہلے اپنے دوست اور شہر کی نامور شخصیت شیخ سجاد حیدر کے گھر پر جمع ہوتے جو عید گاہ کے عین سامنے واقع تھا۔ وہاں گپیں لگائی جاتیں اور عید کا خطبہ شروع ہونے تک قیام کیا جاتا۔ نماز سے عین پہلے یہ لوگ عید گاہ پہنچتے اور نماز ادا کرنے کے بعد پھر گپیں لگانے اور حقہ پینے واپس وہیں پہنچ جاتے۔
مولانا فضلِ حق کی مسجد 28 بلاک کے جنوب مشرقی کونے میں واقع تھی۔ وہاں نمازِ عید ادا کرنے والوں کی اکثریت ڈیرہ غازی خان شہر کے نواحی دیہات سے ہوتی تھی خاص طور پر وہ دیہات جو شہر کے شمال اور مشرق میں واقع تھے۔
مولانا غلام جہانیاں اور مولانا فضل حق سنی فرقہ کے دو بڑے دھڑوں کی نمائندگی کرتے تھے اور دونوں کے مابین مختلف مسائل پر کشمکش چلتی رہتی تھی۔
اہلِ تشیع عید کی نماز بلاک یو کی امام بارگا ہ اور جامع مسجد میں ادا کر تے تھے۔
عید کا واحد میلہ عیدگاہ سے متصل گرائونڈ میں لگتا تھا جہاں بچوں کیلئے کھلونوں اور کھانوں کے سٹالز کے علاوہ جھولے وغیرہ بھی لگائے جاتے تھے تھے۔
اس وقت شہر میں اقلیتی برادی کے لوگ بھی رہتے تھے مگر ان کے خلاف کسی تعصب کی بات کبھی نہیں سنی گئی۔ ایسے لوگ بھی شہر کی سڑکوں پر گھومتے تھے جنہیں لوگ دہریہ کہتے تھے مگر انہیں کوئی آزار نہیں پہنچاتا تھا۔ اور وہ اپنی مرضی اور منشا سے تہوار مناتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے:

ساجد منصور قیصرانی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: