اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مظفر آباد سے مہنگائی تک||حیدر جاوید سید

وہی ہوا جس خدشے کا اظہار چند دن قبل ان سطور میں کیا تھا۔ ’’آزاد کشمیر اسمبلی کی انتخابی مہم میں مروجہ پاکستانی سیاست کی زبان اپنائے ’’رہنمائوں‘‘ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں‘‘۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی ہوا جس خدشے کا اظہار چند دن قبل ان سطور میں کیا تھا۔ ’’آزاد کشمیر اسمبلی کی انتخابی مہم میں مروجہ پاکستانی سیاست کی زبان اپنائے ’’رہنمائوں‘‘ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں‘‘۔
مسائل پیدا ہوگئے۔ پہلے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور پر ایک جلسہ میں جوتا اچھالا گیا۔ جمعرات کو مظفر آباد سے چناری جانے والے پی ٹی آئی کے قافلے کے خلاف احتجاج ہوا۔ یہ احتجاج تلخی میں بدلا پھر پتھرائو کی نوبت آئی کہا جارہا ہے کہ اس کے بعد وفاقی وزیر گنڈاپور اپنا پسٹل لئے گاڑی سے نکلے اور انہوں نے فائرنگ شروع کردی بعض عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ وفاقی وزیر گنڈاپور کے بھائی نے کی
لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ اس ویڈیو کو لے اڑے اور کہا جانے لگا ’’پاکستانی وزیر امور کشمیر مظفر آباد کے قریب ان مظاہرین پر فائرنگ کررہے ہیں جو آزاد کشمیر میں پاکستانی مداخلت کے خلاف احتجاج کررہے تھے‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں جاری زبان درازیوں کے نتائج کا کسی کو احساس نہیں ناتجربہ کار پاکستانی وزراء کشمیری تحریک مزاحمت کے بیس کیمپ کو بھی لاہور ، راولپنڈی اور اسلام آباد سمجھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔
گزشتہ روز کا واقعہ نیک شگون ہرگز نہیں۔ وفاقی وزیر کے منصب پر فائز شخص کا ردعمل اور زبان دانی بوکھلاہٹ، غصے اور جارحیت سے عبارت ہی ہے
کوہالہ سے اس طرف کی سیاسی گندگی کو اُس طرف لے جانے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ کسی ایک بھی صاحب اقتدار نے اپنے ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں کیا کرنا کہنا ہے۔
اگر کوئی معاملات کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے صاف نشانی یہ ہے کہ وفاقی وزیر پر جوتا اچھالنے والے نوجوان کی ضمانت پر رہائی کے بعد استقبالی جلوس وزیر کے جلسہ سے سو گنا بڑا تھا۔
جوتا اچھالنا قابل مذمت فعل ہے۔ اخلاقی اور سماجی روایات کے یکسر منافی۔ اسی طرح سکیورٹی پروٹوکول کے حصار میں منہ آئی بات کہہ دینا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ بھی درست ہرگز نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلے بیس سال میں تیار کی جانے والی مخلوق اور مختلف جماعتوں سے جمع کئے گئے مال کو اخلاقی و سیاسی روایات سے کوئی دلچسپی نہیں ان کاخیال ہے کہ مخالف کو بڑی سے بڑی گالی دے کر وہ مقبولیت ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ اس سے مخالفین کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔
بہرطور جمعرات کو مظفر آباد چناری روڈ پر پیش آئے واقعہ کی وجہ سے ریاستی سیاست میں جو تلخی بڑھی ہے اسے کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔ وفاقی وزراء کو یہ بات بطور خاص سمجھنا ہوگی کہ وہ ریاستی انتخابی مہم میں شریک ہیں۔ انتخابی مہم لشکر کشی نہیں ہوتی ثانیاً یہ کہ کسی بھی غیرمعمولی بات کو مخالفین اور خصوصاً بھارتی میڈیا بتنگڑ بناکر پیش کرے گا۔ جیسا کہ جمعرات کو ہوا۔
مکر یہ عرض کردوں کہ آزا کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر کا فرض ہے کہ وہ ایسی تقاریر اور معاملات کا نوٹس لیں جس سے تصادم کا خطرہ ہو اور اس سے بھارت فائدہ اٹھاسکے۔
صبح دم کے ساتھ ہمارے دوست چودھری خرم مشتاق کا ایک میسج موصول ہوا۔ چودھری صاحب لکھتے ہیں ’’سوچا آپ کو یاد کرادوں کہ تین سال قبل آج کے دن ڈالر 103روپے کا تھا۔ سونا 49ہزار روپے تولہ، گھی 120روپے کلو۔ آٹا 35 روپے کلو، چینی 55روپے کلو اور پٹرول 64روپے ملتا تھا‘‘۔
چودھری خرم مشتاق درست کہتے ہیں تین سال میں صرف مندرجہ بالا چیزوں کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ ناقابل برداشت ہوچکا۔ لوگ جینے سے زیادہ سسک رہے ہیں اور اگر اہل اقتدار کی توجہ دلائی جائے تو جواب ملتا ہے کہ پچھلے حکمران لوٹ کر کھاگئے۔
ارے بھائی آپ نے تین سال میں لوٹ کا کتنا مال نکلوالیا؟ اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ ناقابل بیان و اشاعت ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ اہل اقتدار بنیادی مسائل اور ان سے پیدا شدہ عذابوں سے ناواقف ہیں ان میں اکثر کی حالت لاہور ریلوے سٹیشن کے باہر لگی ریڑھیوں پر چلتی اس ٹیپ ریکاڈر کی طرح ہے جس میں ایک ہی بات بھری ہوتی ہے۔
” خالص جوس بڑا گلاس 20روپے چھوٹا گلاس 10روپے”۔
خدا کے بندو تین سال میں آپ سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہوئی۔ 120روپے کلو والا گھی 310روپے کلو ہے، 55روپے والی چینی 110روپے کلو۔ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اسی طرح سو سے دو سو اڑھائی سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مقابلتاً آمدنی کے ذرائع محدود ہوئے۔ کورونا کی وجہ سے مسائل ضرور پیدا ہوئے لیکن کورونا پر ملبہ ڈال کر ناتجربہ کاری کو چھپایا نہیں جاسکتا۔
ادھرگزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ ایک ماہ (15جون سے15 جولائی تک) کے دوران صرف پٹرول کی قیمت میں 9روپے 55پیسے اضافہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں عالمی مارکیٹ میں فی بیرل قیمت کم ہوئی ہے۔ وفاقی وزراء نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا ایک تقابلی چارٹ سوشل میڈیا پر اپنے اکائونٹس پر ڈالا ہے۔
مہربانی کرکے یہ وزراء صاحبان ہمیں یہ بھی بتادیں کہ گندم، چینی، آٹا، گھی وغیرہ کی ان ممالک میں کیا قیمت ہے؟
گزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کا صرف ایک مقصد ہے وہ حکومت کی خالص آمدنی میں اضافہ کرنا اور یہ حکومت کی مجبوری ہے۔ جناب عمران خان کی کچھ تقاریر یاد آرہی ہیں لیکن جب وہ خود ہی اپنی بات یاد نہیں رکھتے تو انہیں یاد دلانے کا کیا فائدہ؟

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: