ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید شاعر جس دنیا کا خاکہ اور تخیل پیش کرتا ہے، وہ انسانی دنیا ہے۔ صرف اس معروف مقولے کی رو سے نہیں کہ ’انسان ہی اشیا کا پیمانہ ہے‘ ، بلکہ اس مفہوم میں بھی کہ یہاں کوئی شے، کوئی وجود، کوئی تصور، کوئی قدر انسانی پیمانے سے بلند نہیں ؛انسانی پیمانے کا تعین بھی انسان ہی کرنے کا مجاز ہے ؛وہ زوال اور کمال، بلندی اور پستی کو بھی انسانی آدرشوں، خوابوں، اعمال کی روشنی میں دیکھتا ہے (جس کا نتیجہ شدید نوعیت کی موضوعیت ہو سکتی ہے ) ۔ چوں کہ کچھ انسانی پیمانے سے بلند نہیں، اس لیے یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ؛ کوئی ایسا معبد نہیں جہاں انسان اپنے ہی تخیلات و توہمات کو اپنے روبرو نہ پاتا ہو، جسے انسانی توہم کا کارخانہ قرار نہ دیا جاسکتا ہو، اور جہاں کے خداؤں سے انسانی زبان میں کلام نہ کیا جاسکتا ہو، یا جہاں کے دیوتاؤں کی منطق کی تفسیر، انسانی منطق کی مدد سے نہ کی جا سکتی ہو۔ یہاں اشیا میں فرق ہیں، مگر محض اس فرق کی وجہ سے کسی شے کو کسی دوسری شے پر فضیلت حاصل نہیں ؛فرق معنی کا منبع ہو سکتا ہے، فضیلت کا نہیں۔ اسے آپ سیکولر دنیا بھی کہہ سکتے ہیں، ایک ایسی دنیا جس میں درجہ بندیوں کا کوئی نظام، کسی کو خاموش کرنے کے لیے موجود نہیں، جس میں ہر کوئی اپنے ڈھنگ سے جینے، اپنے نظام معنی سے دنیا کو سمجھنے کا حق رکھتا ہے، اور دوسروں کے اسی حق کا دل سے احترام کرتا ہے۔
سیکولر دنیا کے بارے میں اگر کوئی بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے تو یہ کہ ’یہ اس جدوجہد میں وجود رکھتی ہے، جو اسے وجود میں لانے کی خاطر کی جاتی ہے‘ ۔ ایک مسلسل کشمکش، مزاحمت، اور متبادلات پیش کرنے کی ان تھک جدوجہد اس کی تقدیر ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر دنیا محض عمومی منطق اور نظام مراتب کی تنسیخ کے دعوے سے وجود میں نہیں آجاتی۔ جدید شاعر اس ماورائی تخیل کی نعمت سے محروم ہے، جس میں بڑے بڑے دعوے کیے جا سکتے ہیں، جیسے باہر کی دنیا کے استبداد سے آزاد ہو کر ایک خود مختار دنیا خلق کرنے کا دعویٰ، اور اس میں مطلق آزادی کا تعیش حاصل کرنے کا دعویٰ۔ جدید شاعر کے تخیل میں اس دنیا، اور اس کے تضادات کا حشر برپا ہوتا ہے، جسے وہ حقیقی طور پر جی رہا ہوتا ہے، یا جسے دیکھنے، جاننے اور بھگتنے پر خود کو مجبور پاتا ہے ؛جدید شاعر کو وہ کچھ دیکھنا، جاننا اور بھگتنا پڑتا ہے، جس سے اس کی محدود ذاتی دنیا کا راست تعلق نہیں ہوتا؛اس کی زندگی میں بہت کچھ، باہر کا، اجنبی، غیر شامل ہوتا ہے، اور اس بنا پر ایک مسلسل دباؤ، ایک مسلط ہو جانے والی کیفیت، اور اس کے خلاف مزاحمت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید شاعر پر اس سے بڑی کوئی تہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ دنیا سے فرار اختیار کرتا ہے ؛یوں بھی فرار ممکن ہی نہیں، آدمی جس سے ڈر کر، بے زار ہو کر یا نفور ہو کر بھاگتا ہے، وہ خوابوں اور سایوں کی صورت اس کا پیچھا کرتا ہے ؛نیز یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر وہ شدید نوعیت کی موضوعیت سے محفوظ رہ سکتا ہے، اور یہی وہ سبب ہے کہ جدید نظم اور ترقی پسند نظم کا خط امتیاز دھندلا جاتا ہے۔ جدید شاعر کا تخیل ایک مسلسل اور کئی اطراف کی جدوجہد سے عبارت ہے، جو نظام مراتب کے جبر سے خلاصی، یعنی ہر لمحہ جینے کی سعی نئے سرے سے کرنے کی تمثیل ہے۔ جدید شاعر کو اپنی بقا کا معرکہ ہر لحظہ درپیش ہوتا ہے، اور ستم یہ کہ وہ اس کا عرفان بھی رکھتا ہے۔ جدید شاعر دنیا اور ذات ہی سے نہیں واقف ہوتا، ان دونوں سے اپنی تخلیقی جدوجہد سے بھی واقف ہوتا ہے ؛اس کی آگہی سہ طرفہ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں قمر جمیل کی (نثری) نظم ’درویش‘ دیکھیے، جس میں یہ سہ طرفہ آگہی نظر آتی ہے۔
میں ایک بوڑھے برگد کا درخت ہوں
جس کی شاخیں کٹ چکی ہیں اور پتے
بکھر چکے ہیں، میرے سینے میں ایک خلا ہے
جس میں ایک دن ایک بوڑھے بندر نے
پناہ لی تھی
نہیں اے بوڑھے برگد
تم اس گنبد والی عمارت سے
بہتر ہو جس میں ایک ظالم بادشاہ کی قبر ہے
نہیں تم نہیں جانتے اس گنبد کے پیچھے
جھونپڑیوں میں کچھ دیے جل رہے تھے
جن ہواؤں نے یہ دیے بجھائے ہیں
میں ان ہواؤں سے اب بھی
لڑ رہا ہوں
یہ نظم جدوجہد کا بیانیہ ہے، اس نظام مراتب کے خلاف جس کی روایتی علامتیں محل اور جھونپڑی ہیں۔ (سچی بات یہ ہے کہ جدید نظم کے باذوق قاری پر اس طرح کی روایتی علامتیں خاصی گراں گزرتی ہیں۔ اگر نظم میں برگد اور بندر اپنے اساطیری پس منظر کے ساتھ موجود نہ ہوتے۔ جس سے ایک طرح کی گروٹیسک صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ تو یہ نظم ذکر کے قابل نہ ہوتی) ۔ اس نظم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جدوجہد کا مرکز بہ یک وقت باہر اور اندر ہے۔ نظام مراتب باہر ہے، مگر اس کے گھاؤ اندر تک اترے ہوئے ہیں، اس لیے اس کے خلاف جدوجہد اگر ایک طرف اس کے خاتمے کے لیے ہے تو دوسری طرف اپنے زخموں کے اندمال کے لیے بھی۔ اصل یہ ہے کہ اپنی نجات کے بغیر، دنیا کی نجات کے کوئی معنی نہیں، اور باہر کی نئی دنیا کے معنی، اندر کی نئی دنیا کے معنی سے مشروط ہیں۔ اس طور جدید نظم میں سماجی اور نجی زندگی کی روایتی درجہ بندی کا خاتمہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک نئی دنیا کا ہیولیٰ ابھرتا محسوس ہوتا ہے۔
جدید شاعر اپنی مثالی صورت میں ایک ’مسلسل وجود میں آتی نئی دنیا‘ کا پیام بر ہے۔ کوئی نئی دنیا، پرانی دنیا کی منسوخی کے بغیر ممکن نہیں ؛نئی دنیا کی تخلیق اور پرانی دنیا کی منسوخی ایک مسلسل عمل ہے۔ پرانی دنیا کی منسوخی، پرانی دنیا کی موت ہے (اور نئی دنیا، پیدائش ہے ) ۔ اسی بنا پر موت، جدید شاعری کا اہم ترین موتیف ہے۔ گو مختلف تناظرات میں اس کا اظہار ہوا ہے، کہیں اردگرد موت (و تشدد) کے رقص کے مشاہدے کی صورت، کہیں جبلت مرگ کی صورت، کہیں خواہش مرگ کی صورت، کہیں مرگ سے قبل مرگ کے تجربے سے گزرنے کی آرزو کی صورت، تاہم ہر جگہ اس کا مفہوم مکمل خاتمہ ہے۔ البتہ کہیں مکمل خاتمے کا خوف ہے اور کہیں مکمل خاتمے کی آرزو، یعنی پرانی دنیا کی منسوخی، اور یہی فی الوقت ہمارے پیش نظر ہے :
موت اطراف و جوانب میں
کسی وحشی درندے کی طرح پھرتی ہے
ساقی فاروقی
ہر قدم پر ایک شہزادے کی موت
قمر جمیل
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
سارا شگفتہ
مجھ کو اپنی موت کی دستک نے زندہ کر دیا ہے
نصیر احمد ناصر
موت ایک اہم کام ہے
اسے یکسو ہو کر کرنا چاہیے
یا سارے کام نپٹا کر
(سید کاشف رضا)
پیش نظر رہے کہ ایک جرات مند تخیل کا مالک فرد ہی ایک دنیا کی موت کا اعلان کر سکتا ہے، کیوں کہ ایک دنیا کی موت سے حزن و المیے کے علاوہ بے کراں خلا کاجو احساس وابستہ ہے، اسے سہارنا آسان نہیں ؛اور ایک عظیم الشان تخیل کا حامل شاعر ہی ایک نظام کی موت کے بعد کی صورت حال کی نقش گری کر سکتا ہے۔ جدید اردو نظم میں ہمیں جرات مند تخیل کی کچھ مثالیں ملتی ہیں۔ اس ضمن میں پہلے یوسف ظفر کی نظم ’پرانی قدریں‘ کا یہ ٹکڑا دیکھیے۔
سحر کی نوخیز، نرم کرنوں نے گدگدایا
حسیں شوالے کے پرسکوں کندنی کلس کو
اور اس سے پھوٹے، چمکتے لہراتے، بے صدا قہقہوں کو سوتے
مگر ہر اک قہقہہ خوشی کا امیں نہیں ہے
یہ قہقہے درد کے پیامی ہیں رازداں ہیں غم دروں کے
یہ قہقہے اس خدا کی چیخیں ہیں جو شوالے میں ڈھونڈتا ہے
پروہتوں کو پجاریوں کو
بھکاریوں، دیوداسیوں کو
جو اس شوالے میں بت بنا سوچتا ہے کب سے ”خراب کیوں ہو گئی ہے دنیا“
”مرے تقدس کو کیا ہوا ہے“
”کہاں گئے میرے سنکھ
آواز تک نہیں ہے ”
کہاں گئے میرے برہمن!
ساز تک نہیں ہے ”
کہاں گئے وہ مرے پروہت! مرے پجاری
کہ اب در باز تک نہیں ہے ”
جرات مند تخیل کی دوسری مثال اختر الایمان کی نظم ’مسجد‘ ہے۔ یوسف ظفر نے شوالے کی دنیا کے منسوخ ہونے کا بیانیہ لکھا ہے، جب کہ اختر الایمان نے اپنی اس پابند نظم میں مسجد کی دنیا کے ویران اور کالعدم ہونے کا بیانیہ پیش کیا ہے۔ دونوں نظموں میں جدید شاعر کی پیمبرانہ آواز ہے، جسے پوری دیانت داری سے یہ کہنے میں عار نہیں کہ شوالہ کا خدا اپنے تقدس اور اپنے پجاریوں کی گم شدگی پر غم زدہ ہے، اور مسجد، مصلیٰ و منبر و موذن و امام کے غائب ہونے سے ملول و خاموش ہے۔ نظم ’مسجد‘ کے یہ چند بند ملاحظہ کیجیے۔
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کوئی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے!
فرش، جاروب کشی کیا ہے؟ سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک
اب مصلیٰ ہے نہ منبر، نہ موذن نہ امام
آچکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صداے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیل
یہ بات بار دگر کہنے کی ضرورت ہے کہ پرانی دنیا کی منسوخی، ایک پیمبرانہ جرات، اور پیمبرانہ تخیل دونوں چاہتی ہے۔ عظیم، مقدس آوازوں کی گم شدگی کا اعلان دل دہلا دینے والا ہے، یہ اس دیوتا کی موت کا اعلان ہے، جس سے کسی بستی کے ہر فرد کی سانس کی ڈور بندھی ہو؛نیز اس اعلان کے بعد آدمی خود کو ایک دشت میں پاتا ہے ؛ایک عظیم خلا، اور ایک گہرے گھاؤ کا سامنا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نظم میں قدیم کی منسوخی کا اعلان، شدید حزنیہ لے لیے ہوئے ہے۔ اس حزن کا راست تعلق وجود میں پڑنے والے گھاؤ سے ہے۔ یہ گھاؤ چیخ چیخ کر، سینے پر دو ہتڑ مار کر بتاتا ہے کہ قدیم معبدوں میں روشنی کے جو دیے تھے، وہ بجھ گئے ہیں، آسمانی آوازیں آنی بند ہو گئی ہیں۔ قدیم معبد ہی بے نور نہیں ہوئے، آدمی کے اندر بھی گہری گھنی تاریکی چھا گئی ہے۔ اب آدمی کو اپنے وجود کے دشت، مہیب خلا اور اپنی تنہائی کا سامنا ہے، وہ ایک تیرہ و تار دنیا کے روبرو ہے۔ میرا جی کی نظم ’سلسلۂ روز و شب‘ میں یہی بات کہی گئی ہے :
خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے
سمٹتے ہوئے دل میں وہ سوچتا ہے
تعجب کہ نور ازل مٹ چکا ہے
بہت دور انسان ٹھٹھکا ہوا ہے
اسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے
مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے
تخیل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے
محمد علوی کی نظم ’نوحہ‘ میں بھی سادہ بیانیہ انداز میں یہی موضوع پیش ہوا ہے۔
نہ مرنے کا ڈر ہے
نہ جینے میں کوئی مزا ہے
خلا ہی خلا ہے
ہر اک چیز جیسے
اندھیرے میں گم ہو گئی ہے
اجالے کی اک اک کرن کھو گئی ہے
ہر اک آرزو سو گئی ہے
گنہ میں بھی اب کوئی لذت نہیں ہے
وہ دوزخ نہیں
اب وہ جنت نہیں
کوئی بھی نہیں ہے
بس اب میں ہوں
اور میرا سنسان دل ہے
خدا کے نہ ہونے کا غم
کس قدر جاں گسل ہے
اپنے ہی وجود کا دشت، اس کے لیے ایک نئی اور اجنبی چیز ہے۔ وہ خود ہی سے پوری طرح متعارف نہیں، اور اسی لیے سہما ہوا ہے۔ راشد کی نظم ’زندگی سے ڈرتے ہو‘ کا موضوع بڑی حد تک یہی ہے۔
زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
مگر اسے معلوم ہے کہ یہی تنہائی، یہی دشت، یہی تاریکی، یہی ڈر اس کی تقدیر ہے۔ اسی میں اس نے اپنی دنیا تخلیق کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ادب کی روح میں یہ خیال اترا ہوا ہے کہ تاریکی و ظلمت بھی ’روشنی‘ کا منبع ہو سکتی ہیں۔ (یہ خیال قدیم زمانے میں بھی تھا، جس کا اظہار بعض اساطیر میں ہوا ہے)۔ جدید نظم میں ہمیں تاریکی، تنہائی، خوف کا ذکر بلاشبہ کثرت سے ملتا ہے، مگر یہ تو اپنے وجود کی نئی صورت حال سے تعارف کا ابتدائی مرحلہ ہے (اور کتنے ہی نظم نگار محض اس مرحلے پر رک کر رہ گئے ) ۔ آگے کے مراحل اسی تاریکی، اسی تنہائی اور اسی خوف سے ذات کی تکمیل کرنے کے ہیں۔ یعنی خود کو نیا جنم کے مراحل ہیں۔ جدید نظم، نئے انسان کے ظہور کا بیانیہ بلاوجہ نہیں گھڑتی۔
پیش نظر رہے کہ یہاں بھی جدید نظم دو طرح کے نظام مراتب۔ یعنی تعقل و وجدان اور روشنی و تاریکی کے نظام مراتب۔ کو ساقط کرتی ہے۔ مقدس معبدوں کی روشنی کا بجھنا، اس یقین کا خاتمہ ہے کہ وجدان ہی حقیقت تک رسائی کا واحد معتبر ذریعہ ہے۔ وجدان کی عظمت کا بیانیہ، انسانی تعقل کی تحقیر آمیز نارسائی کے اظہار سے عبارت رہا ہے۔ اس بیانیے میں بھی ایک گہرا تضاد موجود تھا۔ یہ کہ انسانی تعقل کی تحقیر کے لیے جتنے بھی دلائل لائے جاتے ہیں، وہ انسانی تعقل ہی کے گھڑے گئے ہوتے ہیں، با الفاظ دیگر وجدان کی عظمت کا بیانیہ، اپنے اسلوب، اپنی منطق کے لحاظ سے عقلی ہوتا ہے۔ جدید نظم، انسانی تعقل کی عظمت کا بیانیہ نہیں پیش کرتی (سوائے کچھ ترقی پسند شاعروں کی نظموں میں، جیسے کیفی اعظمی کی نظم ’آوارہ سجدے‘ کی یہ آخری لائنیں :جز مرے اور مرا راہنما کوئی نہیں ؍ایک کے بعد ایک خدا چلا آتا تھا؍کہ دیا عقل نے تنگ آ کے خدا کوئی نہیں ) کیوں کہ اس سے ایک بار پھر وہی نظام مراتب قائم ہوتا ہے، جسے نظم ختم کرنا چاہتی ہے۔ تاہم جدید نظم جس نئے انسان کی بشارت دیتی ہے، اس کا جنم وجود کے تاریک دشت میں ہوتا ہے؛ آدمی ہی اپنی حقیقت، اور حقیقی صورت حال کے عرفان و تسلیم سے نئے آدمی کو جنم دیتا ہے۔ یہ نیا آدمی روشنی، وجدان کی نفی نہیں کرتا، لیکن انھیں انسانی دسترس میں سمجھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ادب ،معنی اور معنویت۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
مزاحمت، دانشوری اور ادب ۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
ملتان اور رفعت عباس کی اوڈیسی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
انسانی ذات کا اندھا غار: ڈاکٹر اظہر کی بیٹی کا قتل اور خود کشی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر