نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"درختوں کے احساسات”||خضرجسکانی

میری اکثر، والدہ محترمہ اور بیگم سے اس کے متعلق بات ہوتی رہتی تھی کہ یہ کیسا باہمت ہونے کا درس دیتا ہے۔ اس پر کیسی کیسی مصیبتیں آ پڑیں لیکن یہ پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔

خضرجسکانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریبا 14 ماہ پہلے، اپنے گھر میں ایک پھولدار درخت لگایا تھا۔ اس کی چند شاخیں تھیں۔ تھوڑے دنوں میں کچھ شاخیں سوکھ گئیں اور کچھ کمزور ہوتی گئیں، اتنا کہ اپنے پتوں کا وزن بھی نہیں اُٹھا سکتی تھیں۔ بالآخر ان کو دیوار کا سہارا دینا پڑا۔ لیکن کچھ دنوں بعد، اسی درخت کی جڑ سے ایک اور طاقتور شاخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑھتی چلی گئی۔ تاہم وہ کمزور شاخیں مزید نہ بڑھ سکیں۔
غرضیکہ وہی درخت نئی سمت سے اپنا راستہ بنا کر نمودار ہوگیا۔ اُس شاخ پر کئی ٹہنیاں نکلیں جن پر گھنے پتے اور پھول لگے، موسم بہار میں گویا وہ درخت اپنے جوبن پر تھا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ کسی بکری نے اس کی ایک ٹہنی کھا لی، کسی ٹہنی کو چھوٹے بچوں نے توڑ ڈالا اور کچھ ٹہنیاں تیز ہوا کے جھونکوں سے ٹوٹ گئیں۔ جنہوں نے پہلے اسے دیکھا تھا، وہ لوگ کہتے تھے کہ جیسے اس کی خوبصورتی کو کسی کی بد نظر لگ گئی ہو۔
خیر ایک آدھ ماہ تک نئی ٹہنیاں پھوٹ پڑیں، لیکن نئی پھوٹنے والی ٹہنیوں کو بھی کسی بڑے قد والی بکری نے آ لیا۔ لیکن وہ اب پھر نئے راستوں سے نئی ٹہنیاں نکال رہا ہے۔ کتنا ہمت والا ہے یہ درخت۔۔!!
میری اکثر، والدہ محترمہ اور بیگم سے اس کے متعلق بات ہوتی رہتی تھی کہ یہ کیسا باہمت ہونے کا درس دیتا ہے۔ اس پر کیسی کیسی مصیبتیں آ پڑیں لیکن یہ پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔
کل، اپنی بیٹی کے پیدائش کے فورا بعد وفات پا جانے کے بعد میں اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھا، انھیں یاد دلا کر دلاسا دے رہا تھا کہ دیکھو ہم انسان ہیں، ہمیں کم از کم اُس درخت سے کچھ سیکھنا چاہیئے۔
کہنے لگیں، "آپ ٹھیک کہتے ہیں، مگر اُن کے کہاں احساسات ہوتے ہیں؟” میں بولا جاندار ہیں، ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر شاید بیچارے اپنی بے اختیاری کی وجہ سے بیان نہ کر پاتے ہوں اور گھٹن کا شکار ہو جاتے ہوں اور پھر اپنی گھٹن دور کرنے کے لیے ہمت پکڑ کر بڑھنے لگتے ہوں۔
پھر ہم دونوں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔ شاید یہ آنسو اُن تمام بے اختیار درختوں کے احساسات کے حصے کے آنسو تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

خضر جسکانی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author