مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ادارہ، جہاں میں کام کرتا تھا، اس کی اردو سروس کی نشریات پورے پاکستان کے لیے ہوتی ہیں۔
لیکن اردو سروس میں پنجاب اور کراچی کے لوگوں کا تسلط قائم ہے۔
سندھی بولنے والے صرف ایک صحافی ہیں۔ انھیں بھی گزشتہ سال نکال دیا گیا تھا۔ شکر ہے کہ وہ واپس آئے اور اب کام کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک پشتو بولنے والے صرف دو کارکن تھے۔ نئی بھرتیوں کے بارے میں علم نہیں۔
ایک ڈیڑھ سال پہلے ایک خاتون نے سروس میں نسلی امتیاز کا الزام لگایا۔
مہذب ملکوں میں ایسے الزام کو بہت سیریس لیا جاتا ہے۔
ایک سرکاری ایجنسی کا افسر آیا اور اس نے اردو سروس کے عملے سے اس بارے میں گفتگو کی۔
اس معاملے پر سروس چیف کو غصہ آیا اور الزام لگانے والی خاتون سے ان کی جھڑپ ہوئی۔
انھوں نے خاتون کا دوسری سروس میں تبادلہ کرادیا۔
اس دوران میڈیا ادارے کی نگراں ایجنسی نے بھی الزام سے متعلق چند کارکنوں سے پوچھ گچھ کی۔
باخبر ذرائع نے دلچسپ بات بتائی کہ اردو سروس کی ایک پنجابی منیجنگ ایڈیٹر نے دوسری پنجابی منیجنگ ایڈیٹر کی ایسی ای میلز تحقیقات کرنے والوں کو دے دیں جن میں انھوں نے پشتو بولنے والوں کے خلاف اظہار خیال کیا تھا۔
ممکن ہے کہ وہ منیجنگ ایڈیٹر چاہتی ہوں کہ سروس چیف اور ان کی قریبی ساتھی کا پتا کٹے تو وہ سروس چیف بن جائیں۔
سازشوں کے گڑھ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ جسے موقع ملے، وہ پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتا ہے۔
بظاہر شواہد سامنے آچکے تھے۔ کچھ نہ کچھ کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن نہیں ہوئی۔
باخبر ذرائع کے مطابق الزام لگانے والی خاتون کو مستقل ملازمت اور کچھ رقم کی پیشکش کی گئی تاکہ معاملہ دبادیا جائے۔ لیکن وہ نہیں مانیں۔
یہ سب کچھ کہاں ہورہا ہے؟ ایک میڈیا ادارے میں۔ اور وہ بھی ایسے ادارے میں، جسے اپنی ساکھ اور نیک نامی کی بہت فکر ہے۔
اتنی فکر کہ ایک ٹوئیٹ یا نجی فیس بک پوسٹ پر بھی کسی کو ملازمت سے نکال دیتا ہے۔
حکام کو ذرا جھک کر نیچے دیکھنا چاہیے۔ ساکھ وہیں کہیں پڑی ہوگی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر