اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"1871 کی قبر اور سر کٹا انگریز ” ||رمیض حبیب

تاریخ سے محبت رکھنے اکثر ڈیرے وال بھائی اس کھوج میں رہتے ہیں کہ یہ تاریخی قبر کہاں واقع ہے تو ان کی آسانی کے لیے بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں بچپن سے سنتا آ رہا تھا کے ڈیرہ چھاونی والے گرجا گھر میں سر کٹے انگریز کی قبر ہے جو رات کے وقت دیکھائی دیتا ہے میری شوق جستجو نے اس تاریخی قبر کی تحقیق کرنے پر مجبور کیا تو پتہ چلا یہ کوئی سر کٹہ انگریز نہیں یہ تو ڈیورنڈ لائن کے خالق مورٹائمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری ڈیورنڈ کی قبر ہے جو 1871 میں ٹانک ایک ہاتھی سے گر کر مر گیا.

کہ یہ قبر ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے جی, پی, او موڑ سے چھاؤنی والے راستے کے دائیں طرف ایک بڑے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی پروٹسٹنٹ گرجا گھر کی عالیشان عمارت کے احاطے میں موجود ہے

چھاؤنی کے اندر داخل ہوتے ہی سنگ مرمر سے تیار کردہ یہ تاریخی قبر دور سے دیکھائی دینے لگتی ہے .

( ہنری ڈیورنڈ کی زندگی کا خاکہ )

سر ہنری ڈیورنڈ جو 6 نومبر 1812 میں انگلستان کے شہر ریڈیکاس میں پیدا ہوئے آپ کے والد رائل آرمی میں رسالہ آفیسر تھے.والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا

ابتدائی تعلیم ایسٹ انڈیا کمپنی کی بدولت آپ نے ریڈیکا ملٹری کالج میں حاصل کی. 16 سال کی عمر میں ڈیورنڈ نے بنگال انجینئرز میں بطور لیفٹینٹ کمیشن حاصل کیا.
اور 1829 میں الیگزینڈر ڈف کے ہمراہ ہندوستان کا سفر کیا. جہاں ہندوستان کی انگریز حکومت نے انہیں پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ سے منسلک کر دیا

1835 کی جنگ میں ڈیورنڈ نے کابل و غزنی کی تسخیر میں اہم کردار ادا کیا.

چیف انجنیئر کئین تھامسن نے جب جنگی حکمت عملی تیار کی تو اس حساس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نوجوان ڈیورنڈ کا انتخاب کرنا پڑا.

سر ہنری ڈیورنڈ کو اس حساس منصوبہ کی حکمت عملی کے تحت راستوں میں بارود سے بھرے تھیلے اور بارودی سرنگیں بچھا کے دھماکے کرنے تھے.ڈیورنڈ جب بارودی سرنگیں بچھانے والے دستہ کے ہمراہ گیٹ سے 150 گز کے فاصلے پر پہنچا تو گھاٹ میں بیٹھے دشمنوں کی زد میں آ گیا. نوجوان ڈیورنڈ نے پھرتی اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جماعت سمیت خود کو اچانک حملوں سے بچا کے بغیر کسی جانی نقصان کیے کابل گیٹ تک رسائی حاصل کر لی. سر ہنری ڈیورنڈ نے بارود کی متعین مقدار گیٹ کے سامنے رکھ کر بارودی دھماکوں کے ذریعے کابل گیٹ کو اڑا دیا. 23 جولائی 1839 کو انگریز فورسز نے غزنی فتح کر لیا.
1840 کا پورا سال ڈیورنڈ نے پہاڑی میسور پر گزارا اسی مہم کے نقشہ جات, منصوبہ بندی اور رپورٹیں تیار کرتا رہا.

1843 میں ڈیورنڈ نے میجر جرنل سر جان میکائیل (.k. E. B کی ,بیٹی مریم سے شادی کر لی.اسی زمانہ میں اگست 1943 میں انہیں کیپٹن کے عہدہ پر ترقی مل گئی,

1848 میں سکھوں سے جنگ چھڑ جانے کے کچھ عرصہ بعد سر ہنری ڈیورنڈ کو مظفر گڑھ کے مقام پر کمانڈر انچیف لارڈ گوہ سے ملنے کا حکم ملا, ملاقات کے بعد ڈیورنڈ مایوسی کا شکار ہو گیا کیونکہ انہیں کوئی عہدہ بھی ٹینا سیرئم کمشنر شپ کے برابر نہیں لگتا تھا.

1857 کی غدر میں ڈیورنڈ کے سکندر بیگم اور مقامی حکام کے مابین خوشگوار تعلقات کام آئے.

سر ہنری ڈیورنڈ کو 1867 میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر (KESI) جیسے اعلیٰ امتیازات سے نوازا گیا.


آخرکار 1870 میں سر ہنری ڈیورنڈ کو پنجاب کا لیفٹینٹ گورنر تعینات کیا گیا جو اس کی زندگی کے آخری وقت تک رہا.

سر ہنری ڈیورنڈ نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک چوکی کا پیدل دورہ کرنے کے بعد, نواب صاحب کے تاریخی گارڈن دیکھنے کے لیے ہاتھی سواری کی خواہش ظاہر کی . سر ڈیورنڈ نے شائستگی سے نواب صاحب کو ہاتھی پر چڑھنے کی آواز دی. نواب ٹانک ہاتھی پر سر ہنری ڈیورنڈ کے ساتھ بیٹھ گیا.
اور دوسرے ہاتھی پر پانچ اہلکار ایک پیڈ پر بیٹھے گئے یعنی بریگیڈیئر جنرل کینر, کرنل گراہم, کرنل مکلاگن, کرنل کینیڈی, اور کرنل بلیک وغیرہ.

سر ہنری ڈیورنڈ کا ہاتھی جسے قلعہ کے گیٹ سے باہر آنے لگا ہاتھی کے برکنے کی وجہ سے ڈیورنڈ کا سر گیٹ کے محراب سے اس زور سے ٹکرایا جس سے سر ہنری اور نواب صاحب زمین پر گر گئے.
جب اہلکا سر ہنری کو اٹھانے آۂے تو اس کے منہ اور ناک سے بہت خون آ رہا تھا اور ریڑھ کی ہڈی میں اس شدید سے چوٹ لگی کہ باقی جسم سارے اعضاء مفلوج ہو گئے تھے. اور نواب شاہنواز خان صاحب کی بھی تین پسلیاں ٹوٹ گئی.

یکم جنوری 1871 کو اتوار کا دن تھا ڈیورنڈ بہت کمزور نظر آیا لیکن اس کا پورا ہوش ابھی تک برقرار تھا.

دوپہر کے وقت ڈاکٹروں نے سمجھ لیا کہ سر ہنری کی زندگی زیادہ دن نہیں چل سکتی. تو انکے بیٹے اور دو بیٹیوں کو بلوا بھیجا گیا.

سر ہنری ڈیورنڈ نے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو آخری نصیحت کرتے ہوئے کہا میں مر رہا ہوں اوپر مسیح کی طرف دیکھو جس نے صرف روح کے ذریعہ جنم لیا اور خدا کی محبت اور خوف …. یہ الفاظ منہ میں تھے اسکے بعد سر ہنری خالق حقیقی سے جا ملا.

سر ہنری کی لاش اونٹوں کی ایک گاڑی پر ڈیرہ اسماعیل خان لائی گئی. اور 5 جنوری 1871 کو چھاؤنی گرجا گھر کی عمارت کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا.
پولو گراونڈ سے 95 منٹ بندوقوں سے فائر کر کے ڈیورنڈ کو سلامی پیش کی گئی .
سنگ مرمر کا ایک سیدھا سا ٹکڑا اس آخری آرام گاہ پر محیط ہے اور اس پر وہ الفاظ تراشے گئے جو اس کی زندگی میں اپنے حکمران بنانے پر دوہراے تھے .
” اے انسان, اس نے تجھے بنایا ہے کہ بھلائی کیا ہے, اور خداوند آپ سے کیا مانگتا ہے,
لیکن انصاف کے ساتھ اور رحمت سے محبت کرنے اور اپنے خدا کے ساتھ عاجزی کے ساتھ چلنے کے لئے ہیں.”

آج بھی ٹانک کے مین بازار میں ڈیورنڈ گیٹ کے نام سے ایک مقام منسوب ہے ۔ جہاں ان کا انتقال ہوا تھا ۔

نوٹ. سر ہنری ڈیورنڈ نے انگلینڈ میں قیام کے دوران جنگ افغانستان پر ایک جامع کتاب بھی لکھی تھی جو آپ کی وفات کے کئی سال بعد آپ کے بیٹے سر مورٹائمر ڈیورنڈ نے1897 میں شائع کروائی.

نوٹ : تحریر میں کچھ حوالے کتاب ” جنگ دہشت گردی ” سے لئے گئے ہیں.

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: