اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سماجی کارکن یاسمین رفیق سے خصوصی گفتگو| محمد صابر عطا

انہوں نے بتایا کہ وہ سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ نعت خوانی بھی کرتی ہیں مختلف میلاد کی۔محافل میں جاتی ہیں جہاں سے ملنے والے عطیہ رقم وہ مستحق خواتین میں تقسیم کر دیتی ہیں۔

محمد صابر عطا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رومانہ سلطان ڈویلپمنٹ سوسائیٹی کی صدر یاسمین رفیق سے گفتگو۔
خواتین ہماری کل آبادی کا اکاون فی صد ہیں۔لیکن ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی میں ان کے کردار کو ہم نے ادا ہی نہیں ہونے دیا بقول اشو لعل ہم نے خواتین کو تین وقت کی روٹی پکانے میں مصروف کر دیا ہے ان سے معاشی ترقی کے لیے کوئ کام ہم لینے کو تیار نہیں ہے لیکن مایوسی کفر ہے کے مصداق ہماری خواتین معاشی ترقی اور خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے شاندار کام کرتی نظر آ رہی ہیں ہماری آج کی شخصیت محترمہ یاسمین رفیق صاحبہ بھی ان چند خواتین میں سے ہیں جنہوں نے خواتین کی معاشی ترقی اور خصوصا بیوگان اور طلاق یافتہ خواتین کو ہنر مند بنانے کے لیے عملی طور پر کام کیا ہے اور کر رہی ہیں۔
یاسمین رفیق صاحبہ 2جنوری 1977ء کو شیخوپورہ کے نواحی گاؤں جنڈیالہ کلساں میں واپڈا ملازم محمد رفیق بھٹی کے گھر پیدا ہوئیں ۔
عمر پانچ سال ہوئ تو گاؤں میں بچیوں کی تعلیم کا انتظام نہ ہونے وجہ سے ان کے والد شہر ننکانہ منتقل ہوگئے جہاں پر گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول سے تعلیم کا آغاز کیا ،گرلز ہائ سکول سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ گرلز کالج ننکانہ میں گریجو ایشن کے لیے داخل ہو گئیں اسی کالج سے گریجو ایشن کر نے کے بعد یونیورسٹی آف لاء کالج ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔1995ء میں پنجاب یونیورسٹی ایم اے انگلش کیا۔ںعد ازاں پرائیویٹ طور پر جینڈر سٹڈی میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔
عملی زندگی آغاز بطور مدرس کیا اور ننکانہ کے پرائیویٹ سکول تعمیر وطن میں پڑھانے کا آغاز کیا۔
سماج سیوا کا جذبہ جاگا تو سدھار آئ ٹی اے الائنس این جی او کو بطور سوشل موبلائزر جوائن کر لیا اور انٹر نیشنل پراجیکٹ سیو دی چلڈرن پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔200سے زائد دیہی سکولز میں ٫٫ریڈنگ اور ہیلتھ کلبز،،کوٹریننگ دی اور سپروائز کیا ۔
اس کے بعد بطور موڈیولز ڈویلپمنٹ اسسٹنٹ کے طور پر ماڈل ٹاؤن میں کام کیا اور اس پروگرام کے تحت تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو تربیت دینا تھا ۔
بعد ازاں انٹر نیشنل ادارے پی پی اے میں بطور ماسٹرٹرینر خدمات دیں اور نارووال،قصور،صوبہ سندھ کے ضلع بدین میں لٹریسی سکولز کے اساتذہ کی پروفیشنل تربیت کی۔
این سی ایچ ڈی اے ادارے میں لٹریسی کوآرڈی نیٹر آفیسر کے طور پر ضلع ننکانہ کے پسماندہ علاقوں اور اقلیتی حلقوں میں سینکڑوں لٹریسی سنٹرز قائم کیے جہاں بالغان کی تعلیم کو فروغ دیا ۔خانہ بدوشوں کے لیے لٹریسی سکولز بنائے ۔
یاسمین رفیق نے گفتگو کے دوران بتایا کہ جب این سی ایچ اے کے لیے کام کر رہیں تھیں تو پاک آرمی کے میجر شاہ رخ عباس اور کرنل توصیف احمد صاحب نے ان کے کام کو بے حد سراہا۔
انہوں نے بتایا کہ 2009ء میں آر سی ڈی ایس ادارے کو بیگم کورٹ برانچ میں بطور آفیسر مائیکرو فنانس جوائن کیا ۔شاندار کام۔کی بدولت منڈی فیض آباد کی ٹیم کی قیادت انہیں سونپی گئ۔
2011ء میں اسی ادارے نے ان کا ضلع لیہ ٹرانسفر کر دیا یہاں ٹریننگ آفیسر سوشل موبلائزیشن پروگرام کی ذمہ داری دی گئ بعد ازاں ترقی دیکر سوشل موبلائزیشن کوآرڈی نیٹر بنا دیا گیا اس پلیٹ فارم پہ دیہی علاقوں میں خواتین کمیونٹی کی سینکڑوں تنظیمیں تشکیل دیں جن کا مقصد واتین کو اپنی مدد آپ کے تحت ان کے پاؤں پر کھڑا کرنا تھاادارہ کا پراجیکٹ مکمل۔ہوا تو اس خطے کی محبت نے واپس نہیں جانے دیا ایک ارادہ بن چکا تھا کہ یہاں کی غربت کے خاتمے کے لیے خواتین کے کردار کو جاندار بنانا ہے ۔
اسی جذبےکےتحت 2014ءمیں زیست فاؤنڈیشن کے نام سے ادارہ قائم کیا۔جس کے پلیٹ فارم پر ہزاروں خواتین کو منظم کیا اور دستکاری سکول قائم۔کیے احسان یوسف پلازہ پہ بہت بڑا دستکاری سکول قائم کیا گیا۔جہاں پر ہر ماہ مستحق خواتین کو راشن بھی فراہم کیا جاتا تھا ۔اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بحرانی کیفیت پیدا ہوئ تو زیست کا کام مزید آگے نہ بڑھ سکا۔مرشد حضرت باہو سلطان کےگدی نشین حضرت نجیب سلطان کی خلیفہ رومانہ سلطان صاحبہ کے ذریعہ حضرت سلطان باہو کا فیض ملا اور اندر کی دنیا مزید بدل گئ ایک روحانی طاقت تھی جس نے خواتین کے کام کرنے کے جذبے کو ایک بار پھر بیدار کیا ۔سلطان باہو ڈویلپمنٹ سوسائیٹی کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کے تحت ہم۔نے مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل اپنی مدد آپ کے تحت اور چند مہربانوں کےتعاون سے دستکاری سکولز قائم کیے ہیں گاؤں کی سطح پہ خواتین کو ممظم کیا ہے تاکہ معاشی ترقی کے لیے نہ صرف ان کی تربیت کی جا سکے بلکہ انہیں ہنر مند بنا کر پاؤں پہ کھڑا کیا جا سکے۔
باہو سلطان ڈویلپمنٹ سوسائیٹی کی رجسٹریشن کا پراسس بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر مکمل نہ ہو سکا جس پر ہم نے رومانہ سلطان ڈویلپمنٹ سوسائیٹی کے نام سے ادارہ قائم کیا ہے اور اس کی رجسٹریشن کا پراسس جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر جمعہ کو دفتر میں درود وسلام کا اہتمام کیا جاتا ہے ،ہر گیارہویں شریف کو خصوصی دعا اور لنگر کا اہتمام ہوتا ہے جس میں سینکڑوں خواتین شرکت کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ نعت خوانی بھی کرتی ہیں مختلف میلاد کی۔محافل میں جاتی ہیں جہاں سے ملنے والے عطیہ رقم وہ مستحق خواتین میں تقسیم کر دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رومانہ سلطان ڈویلپمنٹ سوسائیٹی کے زیر انتظام پانچ یونین کونسلز جنال چھپری،چوک اعظم رورل،فتح پور رورل،اولکھ تھل کلاں اور لیہ تھل کلاں میں اس وقت 10سے زائد دستکاری سکول کام کر ہے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ان سکولز کا مقصد بچیوں کو گاؤں کی سطح پر ہنر مند بنانا ہے معمولی سے فیس سے ان سکولز کا انتظام چلایا جا رہا ہے سیکھنے کے بعد بچی کو سلائ مشین بھی مفت فراہم کی جاتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا مشاہدے میں آیا ہے بیوگان اور خصوصاََ طق یافتہ خواتین کے لیے بقیہ زندگی اگر وہ ہنر مند نہیں تو اذیت ناک ہوتی ہے ۔بیوگی یا طلاق کے بعد خواتین جب میکے واپس آتی ہیں تو بھائیوں یا والدین پر بوجھ تصور ہوتی ہیں۔اس کے بعد ان خواتین کی اور ان کے بچوں کی زندگی خیرات ،صدقات اور عطیات پر گزرتی ہے ان بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوجاتا ہے اور وہ بچے عملی زندگی آگے نہیں بڑھ سکتے اور معاشرے میں باوقار زندگی نہیں گزار سکتے۔جب خاتون ہنر مند ہوگی تو اپنی زندگی میں وہ کسی پر بھی بوجھ تصور نہیں ہو گی وہ اپنے ہنر سے اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنا سکے گی ۔ہمارے اس منصوبے کا مقصد خواتین کو ہنر مند بنا کر نہ صرف ان کو روزگار فراہم کرنا ہے بلکہ غربت کے خاتمے کے ساتھ ان کی زندگی کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں خواتین کے لیے ہیلتھ سنٹرزبنارہے ہیں جہاں پر خواتین کی صحت سے متعلق مسائل کو حل کیا جائے میڈیکل کیمپ لگائے جائیں گے جہاں پر مفت ٹیسٹ کیے جائیں گے اور چیک اپ کے بعد ادویات فراہم کی جائیں گی
دستکاری سکولز کو روزگار سنٹرز میں تبدیل کریں گے جہاں سے تیار ہونے والی پراڈکٹس کو اسی گاؤں کے نوجوان مارکیٹ میں فروخت کرکے روزگار کمائیں گے۔
انہوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی بتاتے ہوئے کہا کہ کمیونٹی آرگنائزیشنز کے ساتھ مل گاؤں کی سطح پہ "چوپال”قائم کریں گے جہاں پر مقامی لوگ مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کریں گے اور تھانہ کچہری سے بچیں گے۔
انہی سکولز میں آگے جا کر نوجوان نسل کے لیے کمپیوٹر کلاسز اور مکینیکل کام سکھائے جائیں گے اور سیکھنے والوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سارے کام ریاست اور حکومت نے نہیں کرنے ہوتے معاشرے کی ترقی کے لیے ہم سب کو حکومت اور ریاست کا ساتھ دینا ہوگا اور ہنر مند بن کر معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہم اپنے پلیٹ فارم پر ایسا ہی کرنے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کالج لائف این سی سی پریڈ میں کالج کی سطح پر بطور کمپنی کمانڈر ٹیم کو لیڈ کیا اور ٹرافیاں حاصل کیں۔
کھیلوں میں دل چسپی کی وجہ سے کالج ٹیم کے طور پر قریبی اضلاع کے والی بال اور بیڈ منٹن کے مقابلے جیتے ہیں۔
کھلاڑی ہوں اس لیے جذبے مانند نہیں پڑتے اور اوپر سے باہو سلطان سرکار ،نجیب سلطان سرکار کا فیضان نظر ہے حوصلے بلند ہیں اور انشاءاللہ ضلع لیہ میں خواتین کو ہنر مند بنا کر ملکی ترقی اور غربت کے خاتمے میں ان کا کردار جاندار بناؤں گی۔

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

محمد صابر عطا کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: