محمد اکبر رانجھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
چوبارہ تھل کے مقامی لوگوں کی سادگی اور کھرے پن کو آپ جہالت کہیں، شعور کی کمی کہیں یا سہولیات کے فقدان کو آڑے ڈالیں مگر اس بات سے آپ ہرگز اختلاف نہیں کر سکتے کہ آج بھی احترام اور مہمان نوازی میں سادہ لوگ ہی سب سے آگے ہیں۔
بندہ ماڈرن ماحول کیطرف تبھی راغب ہوتا ہے جب اسے کوئی سورس جیسے ٹی وی، اینڈرائڈ موبائل، اخبار، میگزین، رسالہ وغیرہ جیسی سوشل سرگرمیاں ہمہ وقت دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔
چوبارہ تھل میں بسنے والے لوگ وہی لوگ ہیں جو آج سے ایک صدی پہلے موجود تھے۔ آج بھی وہاں بھیڑ بکریاں پالنے اور جنگلات میں چرا کر روزی کمانے کو ایک بہت بڑا ذریعہ آمدن سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ آج بھی ریت کے ریگزاروں میں جھلستی دھوپ میں کام کرتے ہیں، وہاں آج بھی مختلف فنون کے ماہر موجود ہیں جیسے کُوزہ گری(مٹی کے برتن بنانے کا عمل)، کپڑے بُننے، کھجور کے پتوں سے ہاتھ والے پنکھے تیار کرنے، کپڑوں کی سلائی کرنے، دولہا کیلئے چھری پہ ڈیزائننگ کرنے، ہار، مالہے تیار کرنے، دھاگہ کے ذریعہ کپڑوں پہ نام لکھنے، چادریں اور کھیس تیار کرنے، نماز کیلئے جاۓ نماز بنانے جیسے مشغلے شامل ہیں۔
آج بھی وہاں بیل اور اونٹ کے بل بوتے پہ چلنے والے کنویں اور ٹوکہ مشینیں دستیاب ہیں۔
رات کو جلد سونے اور صبح صادق اٹھ کر نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک کے ساتھ دن کے آغاز کرنے کو ایک بہت بڑی نعمت اور سعادت سمجھا جاتا ہے۔ بھیڑ بکریوں، گاۓ بھینس اور اونٹنی کے خالص دودھ پہ پلنے والے یہ سادہ اور کھرے لوگ ذہانت اور صحت میں سب سے آگے ہیں۔
ایک بار مجھے ایک انکل ملے اور پوچھنے لگے،
"بیٹا آپکی پڑھائی کہاں تک پہنچی؟”
میں نے کہا انکل بارہ تک پڑھنے کے بعد ایک ٹیسٹ دیا تھا اور اب ڈاکٹری کا کورس کر رہا ہوں۔ وہ سادہ لوہ انسان کہنے لگے بیٹا پہلے سولہ تک تعلیم تو حاصل کر لیتے پہلے کورسز کے چکر میں پڑ گۓ ہو۔ میں نے انتہائی ہمدردی سے سمجھایا،
"چاچا میں وڈا ڈاکٹر بنڑساں(انشاء اللہ)”
کہنے لگے بیٹا فلاں کے بیٹے نے سولہ تک تعلیم حاصل کی ہے اور آپ نے کیوں نہیں کی۔ خیر آخر میں کہنے لگے
” بیٹا تو جتنا وڈا ڈاکٹر بنڑ ونج پر سولہ دا اپنا مزہ ھائ….!!”
(بیٹا جتنے بڑے ڈاکٹر بن جاؤ پر سولہ کلاسز کا اپنا ہی مزہ تھا)
اور پھر اچانک کہنے لگے،
” پتر اس کورس دے نال نال پڑھیں وی سہی صرف کورس دے چکر اچ ناں راہویں”
اب اس بیچارہ کو کیا پتہ کہ ایم بی بی ایس میں ہم کتنا ذلیل ہوتے ہیں۔ خیر اس ذلالت کو ابھی رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔۔۔۔!!
تھل میں ریت کے ٹیلے پہ ٹھنڈی ہوا کیطرف رخ موڑے سورج کے ڈھلتے ساۓ میں گھر کی ایک نُکر پہ دوستوں بزرگوں کا اکٹھے مل بیٹھنا، گپ شپ کرنا، لطیفے سنانا اور حالاتِ زندگی پہ تبصرہ کرنا ایک خوش آئند عمل تصور کیا جاتا ہے۔ روز مرہ کی بنیاد پہ سجنے والی یہ محفل دراصل پیار،محبت اور ہمدردی کی عکاسی کرتی ہے۔ کاشتکاری کے موقع پہ ایک دوسرے کی مدد کو آن پہنچتے ہیں اور کھیتوں میں جگہ جگہ بزرگوں اور جوانوں کے ہشاش بشاش ٹولے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آج بھی گردونواح میں کسی کے ہاں فوتگی ہو جائے تو اگلے کچھ دنوں تک ہمسائے ٹریکڑ پہ لگی ٹیپ(MP3) بند کر کے، مالی مدد کرکے، مہمانوں کی آؤ بھگت کیلئے جگہ مہیا کرکے اور برابر کے سوگ میں شامل ہوکر حقیقت میں ماں جاۓ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ لوگ آج بھی اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہوکر اور غمی کے موقع پر صفِ اول رہ کر پیار اور محبت کی مثال قائم کیے ہوۓ ہیں۔ مگر بد قسمتی سے آج کل یہ ساری روایات آہستہ آہستہ جدیدیت کی نظر ہوتی چلی جار ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی