مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاض ہاشمی اور سرائیکی قومیتی سوال|| عبید خواجہ

دوران ترجمہ ہم نے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی کہ اصل مسودےاور موضوع سے ہٹے بغیر اپنی اس کاوش میں مد نظر رکھا. قارئین کے ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے چند تاریخی حقائق، دستاویزات اور تصاویر شامل کی ہیں.

عبید خواجہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مصنف کی ابتدائی زندگی
———————————————————————–

مقدمہ صوبہ بہاولپور( سرائیکستان ) کے مصنف جناب ریاض ہاشمی صاحب ایڈوکیٹ 1924 کو میرے آبائی شہر خانپور کٹورہ ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئے. انکے والد ڈاکٹر فیض الحسن ہاشمی ایک انتہائی قابل ڈاکٹر اور خداترس انسان تھے. انکا شمار ریاست بہاولپور کے اولین مقامی میڈیکل ڈاکٹرز میں ہوتا ہے.
محترم ریاض ہاشمی کاخاندان ریاست بہاولپور کے معزز اور تعلیم یافتہ ہونیکی وجہ ریاست بھر میں معروف تھا. انکے خاندان کے کئی بزرگ عالم اور مفتی تھے جو ریاست بہاولپور کے اعلی سرکاری عہدوں پر فائض تھے.
ریاض ہاشمی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی سے اپنی وکالت کا آغاز کیا( یاد رہے اسوقت کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا).
ریاض ہاشمی عظیم حریت پسند رہنما مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کی فکر سے انتہائی متآثر تھےاور بجا طور پر انہیں اپنا سیاسی استاد مانتے تھے. انکے والد مولانا سندھی ؒ کے ذاتی معالج ہونیکے ساتھ ساتھ مولانا ؒ سے انتہائی قریبی مراسم تھے. مولانا سندھی ؒ کی زندگی کے آخری سالوں میں ریاض ہاشمی اپنے والد کومولانا کے علاج اور طبی معائینے کیلئے سائیکل پر دینپور شریف لے جایا کرتے تھے اور مولانا سندھی مرحوم سے بیشمار نشستیں کی اور ان سے روحانی، سیاسی فیض حاصل کیا.
خانپور میں ریاض ہاشمی کا آبائی گھر پرانا سینما روڈ پر واقع تھا اور اسکے ایک حصہ میں انکے والد کا کلینک تھا اور اسی مکان سے ہی ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاولپور صوبہ تحریک اور بعد ازاں سرائیکی قومیتی تحریک کا آغاز کیا. حسن اتفاق دیکھیں کہ یہی مکان بعد ازاں کئی جگہ فروخت ہونیکے بعد سرائیکی تحریک کے معروف رہنما مرحوم سجاد حیدر رحمانی نے خرید ا یوں پھر یہ مکان 1990 کی دہائی میں ایک مرتبہ پھر سرائیکی تحریک کا مرکز بنا.سرائیکی تحریک کے معروف رہنما بیرسٹر تاج لنگاہ مرحوم، حمید اصغر شاہین مرحوم، راز جتوئی مرحوم، میاں سراج دین سانول مرحول، مرحوم منیر دھریجہ،. بابو عبدالمجید خان کانجو سمیت دیگر اعلی سیاسی قیادت، علماء، شعراء، ادیب، دانشور، گلوکار یہاں تشریف لائے،یہاں قیام و طعام کیا. بندہ ناچیز سے پہلی مرتبہ معروف چولستانی لوک فنکار مرحوم فقیرا بھگت سے یہاں ملاقات ہوئی. بعد ازاں انتہائی مجبوری کے عالم میں سجاد رحمانی صاحب کو یہ مکان فروخت کرکے رحمان کالونی شفٹ ہونا پڑا. ہوا کچھ یوں کہ مکان کے ایک طرف لکڑی کا کارخانہ اور فرنیچر شاپ قائم تھی. دوسری چکی اور تیل نکالنے والا کارخانہ تھا دو طرفہ شور کیوجہ سے سجاد رحمانی کی والدہ علیل اور ضعیف ہونیکی وجہ سے انتہائی تکلیف اور ڈپریشن کا شکار ہوگئیں. معاملہ عدالت تک جا پہنچا، یوں یہ تاریخی مکان سجاد رحمانی مرحوم فروخت کرنے پر مجبور ہوئے.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ ( تصنیف ہذا ) کے محرکات اور پس منظر

رہاض ہاشمی صاحب کی یہ کتاب مقدمہ صوبہ بہاولپور(سرائیکستان) یعنی
Brief for Bahawalpur province
سے تعارف اور آگاہی استاد محترم مرحوم سردار اکبر بابر ایڈووکیٹ کے توسط سے ہوئی( یاد رہے ریاض ہاشمی صاحب اپنی یہ کتاب دو شخصیات کے نام منسوب کی ہے جناب اکبر بابر صاحب اور پرنس مامون الرشید عباسی مرحوم). استاد محترم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اپنا ذاتی نسخہ جو ریاض ہاشمی صاحب نے انہیں دیا تھا بعینہ وہی کاپی مجھے عنائت فرمائی.
یہ غالبا 1990 کی دہائی کے اوائل برس تھے طالبعلمی کا دور تھا، کچھ سیکھنے اور کر گزرنےکی جستجو جوبن پر تھی. استاد محترم بابر صاحب مرحوم سے قومیتی فلسفہ سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور سرائیکی قومیتی تحریک کا قومی و بین الاقوامی تحاریک سے تقابل اور تناظر بابتجب بھی گفتگو ہوئی انہوں نے ہمیشہ اس کتاب کے حوالہ جات کو دوران مکالمہ سر فہرست رکھا. کیونکہ تصنیف ہذا میں میں مصنف مرحوم ریاض ہاشمی میں کتاب کی اشاعت( 1972) تک کے کم و بیش ملکی سیاسی واقعات کے علاوہ مختلف نو آبادیاتی کالونیز کے سرحدی، ریاستی، صوبائی، قومیتی، لسانی، ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی تناظر میں دنیا بھر کے مختلف خطوں یورپ، افریقہ، شمالی و جنوبی امریکا، مشرق وسطی میں ہونیوالی تبدیلیوں کا مرحلہ وار ذکر کیا ہے کہ کسطرح ان خطوں کے رہنے والوں نے قومیتی مسائیل کو حل کیا. یہی سبب اس کتاب کے ترجمہ کا محرک بنا کہ سرائیکی قومیتی تحریک سے منسلک بیشتر احباب تک مرحوم ریاض ہاشمی کی اس کاوش کو پہنچایا جائے.
کتاب کے مختلف ابواب اور موضوعات پر بارہا ڈسکشن ہوئی اور مرحوم بابر صاحب کے تحریک پر اس کے ترجمہ کا آغاز ہوا.( بندہ نا چیز نے بطور ایک طالبعلم اور سرائیکی قومیتی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے ایک قومی مشن سمجھتے ہوئے اس کام کا آغاز کیا. میرا نہ ہی کبھی کوئی لکھنے یا ترجمہ کرنے کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی میرا اردو اور انگریزی پر عبور کا دعوی. مجھے اپنی کم علمی کا شدت سے احساس ہے اسلئے اس کتاب کے ترجمہ میں کوئی بے ربطگی یا سقم وغیرہ ہو تو محض ایک طالبعلم کی کاوش سمجھتے ہوئے نظرانداز فرمائیں اور آپکی تصحیح، اور مشورے میرے لئے انتہائی کارآمد آئیندہ ایڈیشن کیلئے ان غلطیوں سے گریز کا باعث ہونگے)
محض ایک ابھی چند صفحات ہی مکمل ہوئے تھے کہ میری یو ایس اے امیگریشن کا مرحلہ آگیا اور میں نے اپنا آشیانہ مستقل امریکہ آن بسایا اور یوں ترجمہ کے سلسلہ کی تان ٹوٹ گئی….
کئی سالوں بعد پاکستان آنا ہوا تو آبائی گھر کی شفٹنگ کیوجہ سے میری لائیبریری وغیرہ کا سامان دو تین جگہوں پر سٹوریج رومز میں منقسم تھا وقت کی کمی کی وجہ سے کتابوں اور دیگر اشیاء کی ترتیب دینا ممکن نہ رہا یوں اس کتاب تک رسائی ممکن نہ رہی. اس کتاب کا تاخیر سے ترجمہ ہونیکی یہ بھی ایک وجہ تھی بقول شاعر.

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا..

Image  ریاض ہاشمی اور انکی تصنیف بابت بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کے تآثرات

بعدازاں رہبر سرائیکی بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ مرحوم جو میرے اس پراجیکٹ سے پہلے آگاہ تھے کچھ عرصہ کیلئے لندن گئے وہاں میرے ان سے پہلے ای میل بعد ازاں فون پر عرصہ دراز کے بعد رابطے بحال ہوئے تو انہوں نے ترجمہ بابت استفسار فرمایا تو میں تمام صورتحال انہیں بتائی تو کہنے لگے یہ کوئی عذر نہیں کہ آپکو یو ایس اے میں کتاب دستیاب نہیں میں اسکی کاپی لندن سے بھیجتا ہوں اور اسکی ایک کاپی میرے پاس یہاں لندن میں موجود ہے میں آپکو بھیجتا ہوں. جوکہ بذریعہ محترمہ نخبہ لنگاہ صاحبہ بیرسٹر صاحب نے کتاب کی کاپی عنائیت فرمائی.
یوں ترجمہ کا سلسلہ دو دہائیوں قبل جہاں سے منقطع ہوا تھا وہیں سے شروع کیا. ہمہ قسم کی مصروفیات اور روزمرہ زندگی کے روایتی معاملات کیساتھ ساتھ چیونٹی کی رفتار کے مصداق یہ سلسلہ چلتا رہا اور یوں آج یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا.

بیرسٹر تاج خان لنگاہ صاحب مرحوم ریاض ہاشمی کا انتہائی احترام کرتے اور انکی سیاسی بصیرت کے معترف تھے اور انہیں سرائیکی قومیتی تحریک کا بانی کہتے تھے. بیرسٹر صاحب مختلف نشستوں یں بارہا فرماتے تھے لوگ قومیتی کارکن تو جیسے تیسے بن گئے ہیں مگر انہیں سیاسی کارکن بننے میں وقت لگے گا، قومیتی سیاسی کارکن بننے کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے.
ہاشمی صاحب کی اس کتاب کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ یہ کتاب سرائیکی قومیتی تحریک کی ایک انتہائی اہم اور بنیادی دستاویز ہے جسمیں دنیا بھر سے صوبوں کی تحریک کا موازنہ کیا گیا ہے. بیرسٹر صاحب کی تجویز اور خواہش تھی کہ اس کتاب کا ترجمہ کرکے وسیب کے ہر فرد خصوصا سرائیکی قومیتی تحریک کے کارکنوں کو ضرور پڑھنی چاہئیے.
بیرسٹر تاج لنگاہ صاحب ہمیشہ مجھ سے انتہائی شفقت فرماتے. مجھے یہ شرف اور اعزاز حاصل ہے زمانہ طالبعلمی کے دوران تنظیمی معاملات کیوجہ مجھ پر جھوٹے اور سنگین مقدمات قائم کئے گئے.زندگی کے اس مشکل ترین دور میں کچھ سرائیکی رہنما وعدہ معاف گواہ بھی بنے اور کچھ نے بھرپور طور پر جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا عمل کیا اور ہر قدم پر سازشوں میں مصروف رہے.
مگر صف اول کی سرائیکی قومیتی تحریکی قیادت خصوصا عبد المجید کانجو، منیر دھریجہ مرحوم،مرحوم سجاد حیدر رحمانی، حمید اصغر شاہین مرحوم، افضل مسعود ایڈووکیٹ مرحوم نے پارٹی وابستگیوں کو بالاطاق رکھتے ہوئے میرا ہر فورم پر ساتھ دیا، مقدمات کی عدالتی پیروی کیلئے بیرسٹر تاج لنگاہ صاحب اپنے مصروف ترین تنظیمی،سیاسی اور پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود تشریف لاتے رہے اور وکلاء کے پینل کی سربراہی کرتے ہوئے میرے مقدمات کی وکالت کی میں تادم ان تمام رہنماؤں کا مشکور رہونگا.

=====================================
کتاب کی اشاعت کے وقت معروضی حالات

Brief for Bahawalpur province
یعنی مقدمہ صوبہ بہاولپور( سرائیکستان) ریاض ہاشمی صاحب کی سیاسی سرگرمیوں اور خطہ بہاولپور مع سرائیکی وسیب پر مشتمل علیحدہ صوبہ کیوں ہونا چاہئے، اس سیاسی جدوجہد کا تاریخی پس منظر کا تفصیلی ذکر کیا ہے.
نواب آف بہاولپور کے 16دسمبر 1954 کے پاکستان سے غیر آئینی الحاق کے پس منظر، اعلی عدالتوں میں اس حکمنامے کوچیلینج کرنے اور عدالتی درخوستوں بمع فیصلہ جات کی تفصیلات اگلے صفحات پر ذکر ہوگا.

ون یونٹ یا صوبہ مغربی پاکستان کے غیر منصافہ قیام کے عمل بابت رائے عامہ ہموار کرنا اور اپوزیشن کی انٹی ون یونٹ کمیٹی کے قیام کیلئے جسطرح مرحوم ریاض ہاشمی نے کوششیں کیں آپکی نظر سے گزریں گی.
لیفٹ کے چند متعصب پنجابی قائیدین نے کسطرح بہاولپور کے ایشو کو جسطرح نظر انداز کیا اور علیحدہ صوبہ کی اس تحریک کو اپوزیشن کے بنیادی ایجنڈے سے ہٹوانے کی سر توڑ کوششوں کا کسطرح ہر ممکن توڑ کیا اور دیگر احوال مرحوم ریاض ہاشمی نے قلمبند کئے ہیں.

بہاول پور( سرائیکی وسیب )کو کن وجوہات کی بنیاد پر علیحدہ صوبہ ہونا چاہئے؟ تاریخی، جغرافیائی، لسانی، معاشی، سیاسی حقائق دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والے نئی ریاستوں، ملکوں، صوبوں کے قیام کو انکے لسانی، جغرافیائی و دیگر حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے تفصیلات بیان کی ہیں.

=====================================
کتاب کے ٹائٹل سے متعلق

یہاں ایک چیز کی وضاحت کرنا ضروری چاہونگا کہ کتاب کے عنوان میں ہم نے لفظ سرائیکستان کا اضافہ اسلئے کیا ہے کہ مرحوم ریاض ہاشمی بادی النظر میں قومیتی، جفرافیائی اور لسانی صوبہ بنیادوں پر صوبہ سرائیکستان کا قیام چاہتے تھے اور بہاولپور صوبہ کے قیام کو وسیع تر صوبہ سرائیکستان کے کا آغاز سمجھتے تھے آگے چل آپ دیکھیں گے کہ اس بات کا انہوں نے اظہار کتاب ہذا میں متعدد مرتبہ کیا ہے.اس امر کو تقویت کتاب کا سرورق( Title) اور آخری صفحہ( Back page) پر نظر آتی ہے سرائیکستان کو بہاولپور صوبہ کا تسلسل سمجھتے ہوئے کتاب کے آغاز پر بہاولپور کا نقشہ اور back page پر صوبہ سرائیکستان کا نقشہ پیش کیا. یاد رہے یہ کہ مجوزہ سرائیکستان کا سب سے پہلے شائع ہونیوالا نقشہ تھا اوراسی طرح لفظ سرائیکستان کا تعارف بھی سب سے پہلے اسی کتاب میں مرحوم ریاض ہاشمی نے کرایا.

دوران ترجمہ ہم نے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی کہ اصل مسودےاور موضوع سے ہٹے بغیر اپنی اس کاوش میں مد نظر رکھا. قارئین کے ذوق کو مد نظر رکھتے ہوئے چند تاریخی حقائق، دستاویزات اور تصاویر شامل کی ہیں.

ریاض ہاشمی مرحوم نے اس کتاب میں سابق ریاست بہاولپور اور سرائیکی وسیب پر مشتمل وسیع تر صوبہ سرائیکستان کے قیام تصور پیش کیا نیز مجوزہ صوبہ سرائیکستان کا نقشہ بھی شائع کیا. اسلئے بجا طور پر ریاض ہاشمی مرحوم کو مصور سرائیکستان اور بانی سرائیکی قومیتی تحریک بھی کہا جاتا ہے.
=====================================

سرائیکی قومیتی تحریک اور سیاسی جماعتوں کا رویہ

پاکستان کے سیاسی پس منظر میں قریبا ہر الیکشن کے موقع پر مختلف سیاسی جماعتیں سرائیکی اور بہاولپور صوبہ کے ایشوز کو بطور الیشن سٹنٹ یا سلوگن کے استعمال کرتی ہیں. 70 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بہاولپور صوبہ کا اپنا پارٹی کیلئے صوبائی یونٹ بھی قائیم کیا جسکے سیکریٹری جنرل معروف سرائیکی قومپرست رہنما افضل مسعود ایڈوکیٹ مرحوم تھے جو بعدازاں پاکستان سرائیکی پارٹی کے متعدد مرکزی عہدوں پر بھی فائز رہے. مارچ 1975 کو ملتان میں منعقد ہونیوالی تین روزہ آل پاکستان سرائیکی ادبی کانفرنس کو بھی کسی حد تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتی سرپرستی حاصل تھی، اس کانفرنس کے بہت دوررس نتائج حاصل ہوئے جسکے باعث سرائیکی زبان و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ وسیب میں سرائیکی سیاسی قومیتی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا.
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 اور 2013 کے انتخابات میں اپنے منشور میں سرائیکی وسیب پر مشتمل علیحدہ صوبے کا اعلان کرچکی ہے. 2008 کے دور حکومت کے دوران پیپلز پارٹی نے صوبہ کمیشن بنایا جسنے پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان کے سرائیکی اسپیکنگ علاقوں کی بنیاد پر سرائیکی کو پاکستان میں سب سے زیادہ اور چاروں صوبوں میں بولی جانیوالی زبان قرار دیا اور علیحدہ صوبہ سرائیکستان کے قیام کی تجویز پیش کی. علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کی مرکزی سینٹرل کمیٹی صوبہ سرائیکستان کے قیام کا مطالبہ کر چکی ہے. پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ میں صوبہ سرائیکستان کے قیام کی حمائت کیلئے بھر پور انداز میں آواز اٹھا چکے ہیں مگر دوسری طرف یہ کہ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں صوبہ سرائیکستان کی بجائے جنوبی پنجاب کی اصطلاح کو استعمال کیا ہے. سینٹ میں قومی زبانوں کے بل میں پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی کا کو ذکر کیا مگر جان بوجھ کر سرائیکی اور براہوی کو نظر انداز کیا گیا جسپر پورے سرائیکی وسیب نے ناراضگی کا اظہار کیا.
پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے نام سے اپنا صوبائی یونٹ بھی قائم کر رکھا ہے جسکے سربراہ مخدوم احمد محمود ہیں جو اس سے قبل بہاولپور صوبہ کے پرزور حامی تھے. سرائیکی وسیب کے عوام کو جنوبی پنجاب کے نام سے شدید تحفظات ہیں اور مختلف فورمز پر پارٹی قیادت سے جنوبی پنجاب صوبائی تنظیم کے نام کی تبدیلی کے مطالبات کئے ہیں.
علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ( ن) کے دباؤ پر دو صوبوں( بہاولپور اور جنوبی پنجاب) کے قیام کیلئے قراد داد منظور ہو چکی ہے. یاد رہے کہ مسلم لیگ نون وسیب میں دو صوبوں کا قیام چاہتی ہے اور اس نکتے کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بھی بنا چکی ہے. دلچسپ امر یہ ہے کہ نون لیگ نے دوران برسر اقتدار کبھی بھی نئے صوبے یا اپنے منشور کیمطابق دو صوبوں کیلئے کبھی عملی بنیادوں پر قدم نہیں اٹھایا بلکہ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نون لیگ نے ہمیشہ اپنے دور اقتدار میں سرائیکی وسیب کا بد ترین استحصال کیا اور وسیب کو ہر شعبہ مہں اپنے جائز حق اور حصہ سے محروم رکھا. جب بھی نئے صوبہ کے قیام کیلئے کوئی مؤثر آواز یا فیصلہ کن موڑ آتا ہے نون لیگ ہمیشہ دو صوبوں کا شوشہ چھوڑ کر نئے صوبہ کے قیام میں رکاوٹیں ڈالتی ہے. بظاہر نون لیگ وسیب میں اپنے سپورٹرز جنکی کثیر تعداد نان سرائیکی اسپکینگ پر مشتمل ہے کو یہ تآثر دینے کی ناکام کوشش کرتی ہے کہ نون لیگ صوبہ کہ قیام میں رکاٹیں ڈال کر انکا( اپنے سپورٹرز ) کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے در حقیقت نون لیگ سرائیکی وسیب پر اپنا تسلط تادیر قائم رکھنا چاہتی ہے تاکہ وسیب کا استحصال جاری رکھ سکے.اسکی ایک مثال یہ ہے کہ نون لیگ قومی، صوبائی کی مخصوص اور سینیٹ کی نشستوں کیلئے تقریبا 99 فیصد نمائیندگی کیلئے لاہور شہر کو نوازتی ہے.

اسی طرح 2018 کے انتخابات کے نتیجہ میں پہلی بار حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف نے نون لیگ کیطرح وسیب کا تسلسل جاری رکھتے بیشتر مخصوص نشستیں لاہور شہر ہی کو نوازی ہیں.
پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی PTI) نے بھی 2018 کے انتخابات کے اپنے انتخابی منشور میں سو دن کے اندر نئے صوبہ کے قیام کا وعدہ کیا مگر ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی نے صوبہ کے قیام کا دور و نزدیک کوئی امکان نظر نہیں آرہا.
2018 الیکشن کے مووع پر چند Electables نے پارٹی تبدیل کرتے ہوئے جنوبی پنجاب محاذ کے قیام کا اعلان کیا اور PTI سے سو دن کے اندر صوبہ کے قیام کا معاہدہ کیا جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ جسکا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا اور نہ ہی اس محاذ کے اراکین نے پی ٹی آئی کو یاد دہانی کرائی ہو یا ایوانوں میں کبھی اپنا مطالبہ دہرایا ہو.

گزشتہ بیس برس سے کم و بیش ہر الیکشن کے موقع پر سیاسی جماعتیں سرائیکی صوبہ کے حوالہ سے شوشہ چھوڑ کر وسیب کے سادہ لوح عوام سے دھوکہ اور گمراہ کرتی ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد صوبہ تو ایک طرف سرائیکی وسیب کے جائیز حقوق سے بھی چشم پوشی کرتی ہیں. اسی طرح کچھ سیاستدان انفرادی طور پر بھی صوبہ کے ایشو کو بطور Bargain tool استعمال کرتے ہیں جسکی چند واضح مثالیں مخدوم احمد محمود اور دیرہ غازیخان سے لغاری برادران ہیں.
مخدوم احمد محمود جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اسوقت پیپلز پارٹی میں ہیں. پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل بہت عرصہ تک مسلم لیگ نون میں رہے. 1990 کے الیکشن میں پارٹی کیجانب سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے اپنے عزیز سید تسنیم نواز گردیزی کے ساتھ بہاولپور نیشنل فرنٹ بنانے اعلان کیا بعد ازاں الیکشن کے بعد دونوں حضرات نے صوبہ کے ایشو کو استعمال کرتے ہوئے وزارتیں حاصل کیں اور طویل عرصہ تک سرائیکی وسیب کے استحصال پرمجرمانہ خاموشی اختیار رکھی.
بعد ازاں یہی احمد محمود 2011/12 کے دوران مسلم لیگ فنکشنل کے پلیٹ فارم پر بہاولپور صوبہ کا ایشو لیکر نمودار ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری سال گورنر پنجاب بن گئے اور ہنوز کسی بھی نئے صوبہ کے حوالہ سے خاموش ہیں.
اسی طرح لغاری برادران بھی اپنے اپوزیشن کے دنوں
میں سرائیکی صوبہ کا مطالبہ شد و مد سے کرتے رہے مختلف ٹی ٹاک شوز میں سرائیکی صوبہ کی حمائت میں شتیک ہوتے رہے. 2018 کے انتخابات میں نون لیگ میں شامل ہونیکی وجہ سے صوبہ کی مخالفت میں کھڑے ہوئے اور آجکل چونکہ اپوزیشن میں ہیں اسلئے پھر صوبہ کا مطالبہ کی آواز اٹھا کر پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں.

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ سرائیکی وسیب میں کسی بھی فورم پر جنوبی پنجاب نامی صوبہ کے قیام کیا کا مطالبہ نہیں کیا.
اس ساری بحث کا ذکر کرکے صرف یہ باور کرانا مقصود تھا کہ Main stream political parties اور Electables سرائیکی وسیب کے نام پر نئے صوبے کیلئے قطعی مخلص یا سنجیدہ کوشش نہیں کرتے بلکہ سیاسی مفاد کیلئے بطور ایک نعرہ استعمال کرتے ہیں.

علاوہ ازیں عوامی نیشنل پارٹی اور( سابقہ) پاکستان نیشنل پارٹی جسکے بانی سربراہ میر غوث بخش بزنجو تھے نے اپنے پارٹی منشور میں سرائیکی قومیت تسلیم کرتے ہوئے سرائیکی یونٹس بنائے. عوامی نیشنل پارٹی سرائیکی یونٹ کے سربراہ عبدالمجید کانجو بنے جو ایک سینئر سرائیکی رہنما ہیں اور سرائیکی نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں. عوامی نیشنل پارٹی کا سرائیکی یونٹ آج بھی قائیم ہے اور اسکے عہدیداران کی تفصیل عوامی نیشنل پارٹی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے.
پاکستان نیشنل پارٹی سرائیکی وحدت کے سربراہ سید ولائت گردیزی تھے بزنجو صاحب کی وفات کے بعد یہ پارٹی تحلیل ہو چکی ہے.
ریاض ہاشمی کی کاوشوں ہی سے ماضی کے اپوزیشن رہنما اصغر خان نے اپنی پارٹی تحریک استقلال میں بہاولپور صوبہ کا یونٹ قائم کیا جو کہ پارٹی کی تحلیل تک فعال رہا.
=====================================

ریاض ہاشمی کی انتھک عملی سیاسی جدوجہد

=====================================

مرحوم نے ساری زندگی سرائیکی وسیب بالخصوص بہاولپور کے سیاسی، معاشی اور آئینی حقوق کیلئے ساری زندگی تادم مرگ جدوجہد جاری رکھی. اپنے دور کے ہر چھوٹے بڑے سیاسی ایونٹس میں ہمیشہ سرائیکی ایشو کو اجاگر کیا اور انکی جدوجہد کے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں کیلئے خطہ بہاولپور کے ایشو کو نظر انداز کرنا تقریبا نا ممکن رہا.

کتاب میں ون یونٹ کے قیام کیخلاف قائیم کی جانیوالی انٹی ون یونٹ کمیٹی میں مرحوم ریاض ہاشمی نے اپوزیشن لیڈروں کیساتھ ملکر بھر پور حصہ لیکر کلیدی کردار ادا کیا. انٹی ون کمیٹی کی مشترکہ جدودجہد ہی کے نتیجہ میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا سندھ، پنجاب اور سرحد کے صوبے بحال ہوئے، بلوچستان کو نیا صوبہ بنایا گیا مگر بد قسمتی سے بہاولپور( سرائیکی وسیب) کو صوبہ کا درجہ نہ دیا گیا. اسکے بعد نئے صوبہ کے قیام کیلئے کی جانیوالی جدوجہد کا احوال، پنجاب اور تخت لاہور سے تعلق رکھنے والی لیفٹ کی قیادت نے ہر فورم پر جسطرح کی رکاوٹیں ڈالیں انکا احوال قارئین کیلئے چونکا دے گا.
بہاولپور( سرائیکی وسیب ) کے عوام کی منشا اور رائے کے بغیر وفاق پاکستان سے غیر آئینی معاہدوں کو چیلینج کرنیکے عدالتی فیصلہ جات کی تفصیل اور دوران سماعت عدالت کا رویہ، نواب آف بہاولپور کیجانب سے چند ذاتی مراعات کے عوض ریاست کے عوام کے حقوق کو یکسر نظر انداز اور عوام کی رائے لئے بغیر پسمانگی اور استحصال کی جو طویل اندھیری رات جسکا تسلسل آجتک جاری ہے ریاض ہاشمی کی سیاسی بصیرت اس سے آگاہ تھی اور انہوں نے بروقت عملی سیاسی جدوجہد کے ذریعے بہاولپور( سرائیکی وسیب ) کے استحصال کی ہر ممکن کوشش کی مگر انکا اندیشہ درست ثابت ہوا اسی استحصال اور جابرانہ لوٹ کھسوٹ کیوجہ سے آج بہاولپور اور سرائیکی وسیب کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے.
=====================================

موجودہ سیاسی تناظر میں کتاب ہذا کی اہمیت

جب بھی کسی موقع پر سرائیکی صوبہ کا ایشو نمایاں ہوتا ہے. سرائیکی صوبہ کے مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ مختلف ہتھکنڈوں سے رکاوٹیں ڈالتے ہیں. مجوزہ صوبہ کا دارالحکومت، مسلکی تفرقہ بازی، برادری ازم، لوکل نان لوکل ، بلوچ اور غیر بلوچ ایشوز کیساتھ ساتھ سرائیکی صوبہ کے مخالفین کا فیورٹ ایشو بہاولپور اور جنوبی پنجاب ہے.

ایک تآثر دیا جاتا ہے کہ بہاولپور کبھی ایک صوبہ رہا ہے اسکی بحالی کافی آسان ہے بنسبت نئے صوبہ بنانے کے.
اس مفروضہ اور خام خیالی کو یہ کتاب غلط ثابت کرتی ہے کہ بہاولپور کبھی ایک صوبہ تھا. البتہ اس بات سے انکاز نہیں کہ بطور ریاست اور پاکستان کے اتحادی کے بہاولپور کی ریاستی لیجیسلیٹو اسمبلی موجود تھی. جسکو نظر انداز کرکے غیر قانونی طور پر نواب آف بہاولپور نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے آئین کے تابع کیا.

یہ کتاب واضح طور پر یہ بیان کرتی ہے کہ موجودہ سرائیکی قومیتی اور سرائیکی صوبہ کی تحریک ماضی کی بہاولپور صوبہ تحریک کا ہی تسلسل ہے. 1970 کی بہاولپور صوبہ تحریک کے قائیدین اور بیشتر اکابرین نے سرائیکی صوبہ تحریک کی بنیاد رکھی.
موجودہ دور میں آبادکار ایم این اے چوہدری طارق بشیر چیمہ ( جسکے والد بشیر چیمہ بہاولپور ریاستی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے) اپنے اور اپنے حوارین اور سیاسی اتحادیوں کے چولستان کی وسیع اراضی پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بہاولپور صوبہ کا شوشہ چھوڑتا ہے اور اسکا ایک بھائی طاہر بشیر چیمہ جنوبی پنجاب صوبہ کا داعی ہے. والد ماضی کی بہاولپور صوبہ کی تحریک میں بادل نخواستہ شامل رہا مگر عین موقع پر دغا کرتے ہوئے انجمن الحاق پنجاب بنائی اور جسوقت وسیب زادے فوجی ایکشن اور گولیوں کا سامنے کر رہے تھے یہ لوگ مٹھائیاں بانٹ کر جشن منانے میں مصروف تھے.
موجودہ حالات میں اس کتاب کے ترجمہ کی اہمیت اور ضرورت اسلئے بھی نہائت اہم ہے کہ موجودہ بہاولپور صوبہ کی نامنہاد تحریک صرف سرائیکی قومیتی شناخت اور سرائیکی صوبہ کی تحریک کو سبوتاژ کرنے جبکہ ماضی کی حقیقی بہاولپور صوبہ تحریک کی جدید شکل موجودہ سرائیکی قومیتی و صوبائی تحریک ہے. ماضی کی بہاولپور صوبہ تحریک کے دوران شہادت پانے والے عظیم بخش مرحوم کا خاندان آج بھی سرائیکی تحریک سے وابستہ ہےاور پاکستان سرائیکی پارٹی میں شامل ہے.

تصنیف ہذا کے ترجمہ کیلئے محترم سئیں عاشق بزدار اور پروفیسر رفعت صاحب کا انتہائی شکور ہوں جنہوں نے اس پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے بھرپور داد اور حوصلہ افزائی کی جوکہ میرے لئے ( بطور سرائیکی کارکن) ایک اعزاز ہے.
میں اس موقع پر بطور خاص محترم عباس ڈاہر صاحب المعروف نازک نورپوری کا شکرگزار ہوں جنہوں نے نہ صرف اس کتاب کے تمام مراحل میں ہر قدم پر مسلسل رہنمائی اور مدد کی، اپنی تمام مصروفیات کے باوجود اس کتاب کی کمپوزنگ کو سرائیکی قومی کاز سمجھتے ہوئے اولین ترجیح دی بلکہ مجھ سے مسلسل رابطہ رکھا، کتاب میں شامل مواد بارے ریسرچ میں جب بھی مجھے ضرورت پڑی عباس ڈاہر صاحب دستیاب رہے. مختلف مواقع پر جب بھی میری سستی اور مصروفیات سامنے آئیں انہوں نے مجھے گاہے بگاہے یاد دہانی کرائی اور Motivate کیا. انکی دلچسپی اور تعاون کے بغیر شائید اس کتاب کا پبلش ہونا محض ایک خواہش اور خواب رہتا.

احباب کی ہمت اور حوصلہ افزائی

ریاض ہاشمی تا دم مرگ سرائیکی صوبہ کے قیام کیلئے متحرک رہے. سرائیکی وسیب کی محرومیوں کے ازالہ کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائی.
انگریزی کو ذریعہ تحریر بنایا. اردو خود نہیں لکھتے تھے Dictate کر کے لکھواتے. زیادہ تر تحریری کام انگریزی میں لکھا.

8اپریل 1984 کو ملتان میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاھ اور ریاض ہاشمی نے اپنے اپنے صوبہ محاذوں کو سرائیکی صوبہ محاذ میں ضم کیا جسکے پہلے صدر بیرسٹر تاج محمد خان لنگاھ اور جنرل سیکریٹری قاری نور الحق قریشی منتخب ہوئے، ریاض ہاشمی اپنی وفات تک اس محاذ کی سے وابستہ رہ کر اسکی سرپرستی کرتے رہے.

متعدد کتابوں کے مسودوں پر کام کر رہے تھے مگر انکی وفات کے باعث آج تک نہ ہی اکٹھا کیا جا سکا اور نہ ہی چھپ سکا.
ریاض ہاشمی 3 جولائی 1988 کو علالت کے باعث انتقال فرما گئے. انہیں بہاولپور کے نرسری قبرستان ماڈل ٹاؤن اے میں دفن کیا گیا.
ریاض ہاشمی نے سرائیکی وسیب کی محرومیوں کے خاتمہ اور صوبہ سرائیکستان کے قیام کا جو خواب دیکھا تھا انشاءاللہ بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوگا.

عبید خواجہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: