سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرِ عزیز محسن حسن لودھرا کی تحریک پر آج ایک منفرد اکٹھ میں بیٹھنے کا موقع میسر ہوا. جولائی کا مہینہ یوں تو گرمی کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے تاہم ملتان میں اس کی چھَپ نرالی ہوتی ہے. اب جولائی کا مہینہ اور سہ پہر کا وقت، ذرا سوچئے کہ دن بھر سورج کی مار سہ چکی فضا کا بدن کیسا تپتا ہوگا. ہوا دم سادھے ساکت تھی اور پور پور سے بہتا پسینہ بدن سے بھاپ بن کے اڑتا تھا.
ایسے میں گلگشت کے گول باغ کے اک گوشے میں ایک بڑا سا دائرہ ہے جس میں کچھ خواتین اور بیش تر حضرات بیٹھے ہیں، گویا کسی خانقاہ میں زاویہ کا حلقہ ہو. ایک لمبی کھچڑی ریش و بروت والا شخص ہے جس نے ٹراؤزر پر کرتا پہن رکھا ہے. داڑھی سینے کو اور مونچھیں دہن کو ڈھانکتی ہیں. بڑے شستہ لہجے میں اردو بولتا ہے اور بیچ بیچ میں پنجابی کا تڑکا بھی لگاتا ہے. سوال ہوتے ہیں، یہ جواب دیتا ہے، دائرے کی جنوب مغربی قوس میں بیٹھے ایک ڈریس پینٹ شرٹ والے باوقار سے صاحب ان جوابات میں ترامیم و اضافے کرتے ہیں تو دائرے میں قہقہہ پڑتا ہے.
یہ داڑھی والا حسنین جمال ہے، جس کا قول ہے کہ اس معاشرے میں بنا جھوٹ بولے بہتر زندگی نہیں گزاری جا سکتی سو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے تھوڑا جھوٹ بھی سکھانا چاہیے. ڈریس پینٹ شرٹ والے جمال صاجب ہیں، داڑھی والے کے ابا. وہ شاید داڑھی والے کے اس قول سے متفق نہیں کہ پرانی وضع کی تربیت پائے ہوئے ہیں. سو داڑھی والا جہاں جھوٹ بولتا ہے، وہاں وہ گرفت کرتے ہیں. کبھی وہ گواہی لینے کی کوشش کرتا ہے "ہے نا ابا آپ کو یاد ہے ایسا ہی ہوا تھا نا” وہ فوراً کہتے ہیں "میاں! مجمع کا فائدہ اٹھا کر جھوٹی گواہیاں تو نہ دلواؤ” ایسے میں قہقہ پڑتا ہے اور داڑھی والا کچھ کھسیانا ہوتا ہے مگر فوری سنبھل جاتا ہے.
اس زاویہ میں ہم نے (میں اور میری اہلیہ عالیہ) بیس پچیس منٹ گزارے. داڑھی والا تو ٹھہرا گرمی کا رسیا کہ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتا ہے "ہاں، سردیوں کا موسم بالکل پسند نہیں، دھند سے نفرت ہے. بہار اوکے ہے. گرمی زندہ باد” مگر سچی بات ہے کہ اس دائرے میں گفتگو کی پھوار کچھ ایسی دل آویز اور مسحور کن تھی کہ کسی کو گرمی کا احساس نہیں تھا. باپ بیٹے میں یہ دوستی خال ہی نظر آتی ہے. ہر طرح کی بے تکلفی (فرینک نیس) کے باوصف والد کے وقار اور بیٹے کے مؤدب پن پر کوئی حرف نہیں کہا جاسکتا.
داڑھی والے کے ساتھ لوگ تصاویر بنواتے، کتاب پر دست خط لیتے. وہ بخوشی اور پورے دل کے ساتھ تصویریں بنواتا اور محبت سے کتابوں پر دست خط ثبت کرتا. جدید لباسوں اور بقول اکبر نئی تہذیب کے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کی موجودی میں بھی اس مجلس نے درویشی کا رنگ اوڑھا ہوا تھا. اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہاں کسی کی خبر نہیں لی جا رہی تھی، بس اپنی بات ہوتی تھی. حاضرین میں سے کسی نے ایک آدھ گزر چکے اور کچھ حاضر سروس لکھنے والوں کا تبرا کرنا چاہا مگر داڑھی والے نے اس کو بجا طور پر رد کیا.
برادرِ خورد محسن حسن لودھرا کہ عالیہ کے کزن ہیں اور دیسِ فرنگ میں قیام پذیر. انہوں نے اس مجلس کا بتایا تھا اور جانے کی تاکید کی تھی. کتاب "داڑھی والا” بھی محسن کا تحفہ ہے جو داڑھی والے کے دست خط سے داڑھی والے ہی کے ہاتھوں ملا. Mohsin Hassan Lodhra کا خصوصی شکریہ کہ اس کی وساطت سے ایک تخلیق کار درویش یعنی داڑھی والا سے ملاقات ہوئی. کتاب پر تبصرہ ظاہر ہے خواندگی کے بعد انشاءاللہ. ابھی تو بس اس مجلس کا احوال لکھنا مقصود تھا اور محسن کو رسید دینا.
ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ بھی موجود تھیں اور بیش تر وقت فیس بک پر لائیو. یہ ویڈیو اسی لائیو کا ٹکڑا ہے جس میں عالیہ اور میں داڑھی والے سے ملتے نظر آتے ہیں. یہ ٹکڑا Zari Ashraf صاحبہ کے شکریہ کے ساتھ یہاں چسپاں کیا ہے. مجلس کے سحر میں تصویر بنوانے کا ہوش ہی نہیں رہا.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر