حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے مکرر عرض کردوں کہ ”آزاد کشمیر” کی انتخابی مہم میں پاکستانی سیاست کے رنگ ڈھنگ اپنا نے اور تلخ نوائیوں سے اجتناب بہت ضروری ہے ۔ پیپلز پارٹی اگر یہ سمجھتی ہے کہ نون لیگ بارے ان کی جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو درست باتیں کر رہے ہیں تو پھر لازم یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نون لیگ سے سیاسی اشتراک(پی ڈی ایم والے) پر قوم سے معذرت کرے۔
کیونکہ درست یا غلط آپ کی مرضی سے نہیں ہوسکتا ۔
اس طرح جناب شاہد خاقان عباسی کو بھی زبان پر قابو رکھنا ہو گا جوابی غزل چھڑی تو بات دور تلک جائے گی۔
ڈیل کے لئے کس نے کوششیں کیں کون کب کس سے حضور حاضر ہوا اور کیا تجاویز پیش کیں اس بارے فقط ملاقاتیں کرنے والے ہی نہیں جانتے اور بھی کچھ لوگ ”سن گن” رکھتے ہیں۔
بہت احترام سے عرض ہے ۔
بات شروع ہوئی تو آغاز فلسطینیوں کے بلیک ستمبر سے شروع ہو گا جس میں مرحوم جنرل ضیاء الحق اور شاہد خاقان عباسی کے مرحوم والد خاقان عباسی کا کردار بہت ”روشن” ہے۔
خیر آگے بڑھتے ہیں آج کل ہمارے محبان آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے لئے بہت مشکل دن ہیں انہیں ایک ہی وقت میں حب الوطنی ‘ انصافیت اور طالبانیت کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے ۔
کالے کو سفید بنا کر پیش کرتے ہوئے خود کو یکتا سمجھنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں بہت ہیں کاش ان سے عبرت حاصل کی جائے ۔
حبس اور گرمی کے اس موسم میں اس سے زیادہ مزید کیا لکھا جائے کہ اب حالت یہ ہو گئی ہے دلیل پر مکالمہ اٹھانے کی بجائے ننگی گالیوں اور فتووں کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔
دو وفاقی وزراء نے چھوٹی گاڑیوں کو سستا کرنے کے لئے حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ روز بتایا گاڑیوں کی قیمتوں میں دو لاکھ تیس ہزار روپے تک کمی کر دی گئی ہے سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ گاڑیاں تعویز دھاگے پر چلیں گی یا پانی پر؟
پٹرولیم مصنوعات جتنی مہنگی ہیں عام آدمی کے لئے موٹر سائیکل کی سواری مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں لوگوں کو پیدل چلنے کی عادت ڈالنا چاہیے اس سے صحت بھی اچھی رہتی ہے
چلیں اب ایک خط کے حوالے سے کچھ باتیں ہوجائیں مکتوب نگار ابرار خان کا ایک شکوہ تو وہی ہے جو بہت سارے دوسرے لوگوں کو ہے کہ میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرتا ہوں
میرے ان تمام محترم لوگوں نے کبھی کسی دوسرے تحریر نویس کو خط لکھا کہ آپ نون ‘ ق یا انصافی ، آستانہ عالیہ آبپارہ شریف اور جماعت اسلامی کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟
پیپلز پارٹی اسی ملک کے لوگوں کی جماعت ہے اس کے ووٹرز واہگہ یاکھوکھرا پار سے ووٹ ڈالنے نہیں آتے ۔ یہ انسانوں کی جماعت ہے فرشتوں کو جماعت سازی کی ضرورت ہی کیا ہے خوبیاں خامیاں تھیں ‘ ہیں اور رہیں گی۔
بھٹو صاحب بھی انسان ہی تھے گنج بخش یا قطب بغداد ہر گز نہیں۔ معاملہ پسند و ناپسند کا ہے آپ کو وہ خامیوں کا مجموعہ لگتے ہیں اس تحریر نویس کا خیال ہے کہ خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے ۔
یہ بھی عرض کردوں کہ یہ بحث اس وقت ہی ردی کی ٹوکری کا حصہ بن گئی تھی جب 1973کا دستور بن رہا تھا۔بحث یہ تھی کہ کیا سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ مغربی پاکستان جو اب پاکستان قرار پایا ہے سے 1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والوں کو بطور رکن قومی اسمبلی کے برقرار رکھا جا سکتا ہے یہ بھی کیا کہ کیا یہ اسمبلی دستور سازی کا حق رکھتی ہے ؟
اس وقت کی سیاسی قیادت نے اتفاق کیا کہ نئے انتخابات کی ضرورت نہیں اسمبلی برقرار رہنے اور دستور سازی کے ضمن میں ہوئے اس فیصلے پر تنہا بھٹو کو کوسنا انصاف نہیں ہوگا کیونکہ سیاسی قیادت اگر معروضی حالات کے پیش نظر کوئی فیصلہ کرتی ہے اور فیصلہ اجتماعی مفاد میں ہو تو تسلیم کیا جاتا ہے ۔
بلاشبہ ایف ایس ایف نامی ادارہ بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا کچھ اور غلطیاں بھی سرزد ہوئیں لیکن مقابلتاً بہتری بھی آئی ہاں یہ ضرور ہے کہ اس وقت کے رجعت پسند دانشور صحافی سیاست کار مذہبی طبقہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی کا ایک حصہ چونکہ ان کا مخالف تھا اس لئے خوب پروپیگنڈہ ہوا
پھر جنرل ضیاء کے گیارہ سال منہ پھاڑ کر الزام تراشی ہوتی رہیں ہوا کیا لے دے کر قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا اس عدالتی فیصلے کو دنیا کی کوئی مہذب کیا غیر مہذب عدالت بھی نظیر کے طور پر تسلیم نہیں کرتی ۔
ہمارے اسلام پسند دوستوں نے 1971 سے اگست 1988 کے درمیان اٹھارہ برسوں کے دوران بھٹو پر جتنے الزامات لگائے ان کے محبوب و مرشد جنرل ضیاء الحق ان میں سے کسی ایک ا لزام میں بھی ان (بھٹو) کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہمت نہ کر پائے ۔ ایک ستم یہ ہے کہ ایک اخباری سرخی”ادھر تم ادھر ہم” پر ایمان لانے والوں نے کبھی مینار پاکستان پر بھٹو کی تقریر کا دستیاب متن نہیں پڑھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نیوز ایڈیٹر سید عباس اطہر نے یہ سرخی لگائی تھی وہ ساری عمر اس کی وضاحت کرتے رہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ آستانوں اور رجعت پسندوں کے پروپیگنڈے پر آسمان سر پر اٹھانے والے کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ایک قومی کمیشن بنایا جائے جو سقوط مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی اور اس کی مسلح تنظیموں کے کردار کی چھان بین کرے ۔ آخری بات یہ ہے کہ تاریخ(وہ جو دستیاب ہو) پر مکالمہ ہوتا ہے درست وغلط تک رسائی کے لئے تاریخ کو لاٹھی بنا کر دوسروں سے اپنی بات نہیں منوائی جاتی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر