نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ۔ دوطرفہ دعوے (5)||حیدر جاوید سید

’’10ٹریلین ڈالر کی معدنیات کے لالچ میں آئے امریکہ نے 8ٹریلین ڈالر جنگی مصارف پر جھونکے اور اب خالی ہاتھ واپس جارہا ہے‘‘۔ ہمارے پاس ایسے نابغوں کی کمی نہیں جو صبح و شام عالم اسلام کے خلاف یہودوہنود کی سازشوں کا چورن بیچتے رہتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغان امور کے تجزیہ نگار عقیل یوسفزئی لکھتے ہیں
’’افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد نوے (1990ء) کی دہائی کی طرح کی خانہ جنگی اور بڑی تبدیلیوں کے یقینی خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے حوالے سے قبول عام تجزیوں کے برعکس افغانستان کی لسانی اور جغرافیائی تقسیم کے ایک عالمی ایجنڈے کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں”۔
عقیل یوسفزئی نے افغانستان میں 10ٹریلین ڈالر کی معدنیات کو فساد کی جڑ قرار دیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خطرہ یہ ہے کہ
”  اصلاح احوال نہ ہوئی تو پورا خطہ وار زون بن جائے گا‘‘۔

افغانستان میں معدنیات اور مالیت کے تخمینہ کی بات اول اول 1997ء میں ہوئی تھی جب یہ کہا گیا کہ امریکی کمپنی اور طالبان کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں اس معاہدے، معدنیات اور چند دیگر امور کے حوالے سے بہت سارے مقامی و غیرملکی تجزیہ نگاروں (ان میں ہمارے فدائین بھی شامل تھے) نے لمبی لمبی تحریریں لکھیں۔ پھر ایک دن بتایا گیا کہ طالبان اور امریکی کمپنی کا معاہدہ ناکام ہوگیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ امریکی ساری معدنیات سات سمندر پار لے جانا چاہتے تھے اور طالبان مصر تھے کہ سارا پراسس افغانستان میں مکمل کیا جائے۔

خبریں اور تجزیے چلتے رہے پھر 9/11 ہوگیا اور امریکہ بہادر افغانستان تشریف لے آیا۔ 9/11سے قبل طالبان کی حکومت کو سعودی عرب، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور امریکہ بہادر کی پرجوش حمایت حاصل تھی لیکن راتوں رات منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ 9/11 کے المیے نے امریکہ کو باور کروایا کہ طالبان تو امن عالم، انسانی حقوق، مذہبی آزادیوں سمیت نصف درجن دیگر چیزوں کے قاتل تھے۔
بہرطور اب صورت یہ ہے کہ لگ بھگ 8ٹریلین ڈالر کے جنگی مصارف اور 20سالہ قیام افغانستان کے بعد امریکی انخلا کا عمل شروع ہوچکا۔ انخلا کے اس عمل کو ستمبر میں مکمل ہونا ہے۔

سادہ لفظوں میں فدائین کے تجزیوں اور انکشافات پر یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ
’’10ٹریلین ڈالر کی معدنیات کے لالچ میں آئے امریکہ نے 8ٹریلین ڈالر جنگی مصارف پر جھونکے اور اب خالی ہاتھ واپس جارہا ہے‘‘۔ ہمارے پاس ایسے نابغوں کی کمی نہیں جو صبح و شام عالم اسلام کے خلاف یہودوہنود کی سازشوں کا چورن بیچتے رہتے ہیں۔
سازشی تھیوریوں سے رزق اور تاریخ دونوں کی رونق بڑھتی ہے یقین نہ ہو تو مسلم تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ قبضہ گیری کے لئے ہماری لشکر کشی رضائے خدا کے لئے رہی اور شکستیں یہودونصاریٰ کی سازشوں کا نتیجہ۔ اب ہم یہ چورن فروخت کریں گے کہ 20سال امریکہ افغانستان میں رہا اور نامرادوں کی طرح رخصت ہورہا ہے۔

کیا ہمارے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ امریکہ جب افغانستان میں وارد ہوا تو 20سال بعد اسے نامراد بھیجنے والوں نے اس کا مقابلہ کیوں نہ کیااور راتوں رات کابل سے بھاگ کیوں کھڑے ہوئے؟
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ افغان حکومت نے تین دن قبل 16اضلاع کو طالبان کے قبضے سے چھڑانے کی تصدیق کی تھی جواباً طالبان نے مزید 56اضلاع پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس دوران ذرائع ابلاغ نے یہ دوطرفہ دعوے بھی پیش کئے کہ سینکڑوں طالبان نے نیشنل آرمی کے سامنے ہتھیار ڈالے اور سکیورٹی فورسز کے سینکڑوں اہلکاروں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
طرفین نے اپنے دعوئوں کے ثبوت میں ویڈیوز بھی جاری کیں۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں امریکی ذرائع ابلاغ  طالبان کو ناقابل شکست اور مسلسل فتوحات کرتا ہوا  دیکھااور پیش کررہے ہیں۔ آپ کو امریکی ذرائع ابلاغ کی یہ خبریں عجیب نہیں لگتیں؟
ادھر ہمارے ذرائع ابلاغ والے تو ہر شب  طالبان کو کابل کے دروازے پر چھوڑ کر سوتے ہیں لیکن اگلی صبح بیدار ہوتے ہیں تو صورتحال ان کی توقعات، خبروں اور تجزیوں کے برعکس ہوتی ہے۔ فقیر راحموں کے بقول
”  پھر وہ اپنی بوٹیاں نوچنے لگتے ہیں "۔
یہاں ساعت بھر کیلئے رکئے، افغان حکومت جو کابل سے واشنگٹن تک طالبان کی انسان کشی کا رونا روتی پھر رہی ہے خود اس کی اپنی داخلی پالیسی کا حال یہ ہے کہ گزشتہ ماہ جب ہزارہ قبیلے نے طالبان کی بعض کارروائیوں کے جواب میں عسکری ردعمل کا مظاہرہ کیا تو افغان فضائیہ نے طالبان کے خلاف کارروائی کی جائے ہزارہ ملیشیا کے مراکز پر بمباری کی۔
کابل میں مقیم سیاسیات کے استاد عبدالرسول تاجک کہتے ہیں اشرف غنی حکومت کا یہ اقدام ’’پشتون ولی‘‘ کا حصہ تھا۔ یعنی ہزارہ کے حوالے سے طالبان اور اشرف غنی ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔
ہم ایک بار افغان امور کہ تجزیہ نگار عقیل یوسفزئی کے اٹھائے اس نکتے پر غور کرتے ہیں کہ
’’افغانستان کی نسلی اور جغرافیائی تقسیم کے عالمی ایجنڈے کا شور سنائی دے رہا ہے‘‘۔
عقیل یوسفزئی ان چند پاکستانی صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں کابل کے ایوان صدر میں رسائی حاصل ہے اور وہ اپنی اطلاعات کے ماخذ کے حوالے سے ہمیشہ مطمئن رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ دنوں میں  طالبان کے خلاف پشتون و غیر پشتون علاقوں میں جو ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے وہ آگے چل کر پشتون علاقوں میں کمزور پڑے گا اور غیر پشتون علاقوں میں مزید ہوگا اور یہی اس تجزیہ کی بنیاد ہے کہ لسانی و جغرافیائی تقسیم کا ایجنڈا بھی ہے؟
میری دانست میں فوری طور پر ایسا ممکن نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں کے دوران کے مختلف واقعات ہمیں سمجھاتے ہیں کہ معاملات اتنے سادہ اور کابل ایسا تر نوالہ بھی نہیں جیسا کہ بتایا دیکھایا جارہا ہے۔

جس بنیادی سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبانائزیشن کے گہرے ہوتے سائے روس، چین، ایران اور افغانستان کی پڑوسی وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے غیریقینی صورتحال کا اندیشہ پیدا نہیں کریں گے؟
یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر بہت ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ
’’بھارت اور طالبان میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ ان کی وزارت کے ترجمان نے رواں ماہ کے آغاز پر کہا تھا بھارتی نمائندوں کے طالبان سے ملنے ملانے یا کسی اور کی ملاقات پر ہم بھلا کیسے اعتراض کرسکتے ہیں‘‘۔
عجیب بات ہے دنیا بھر کے سفارتی اور صحافتی ذرائع طالبان سے بھارتی نمائندوں کی تین عدد ملاقاتوں کی باضابطہ تصدیق کررہے ہیں ان میں 2ملاقاتیں قطر اور ایک افغانستان کی حدود میں ہوئی لیکن ہمارے وزیر خارجہ اس سے لاعلم ہی نہیں بلکہ تردید فرمارہے ہیں کس برتے پر یہ وہی جانتے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author