حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ”اہل دانش” کی طرح سوشل میڈیائی مجاہدین بھی پاکستانی سیاست کی تاریخ کے اس حصے سے رزق پاتے ہیں جس کے ہر صفحہ پر سیاست دانوں کے ”جرائم” لکھے ہیں اور”نجات دہندوں” کی خدمات ‘ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ تاریخ کے حوالے سے ہم پسند وناپسند سے زیادہ اس مرض کا شکار ہیں کہ ہمارا فرمایا ہوا”سچ” ہے اور باقی سب جھوٹ ‘ ایسا کیوں ہے؟
اس کی وجہ بہت صاف اور سادہ ہے وہ یہ کہ کسی قسم کے اختلافی نقطہ نظر کے جواب میں ہم مذہب و عقیدے اور حب الوطنی کو لے آتے ہیں۔
اس ملک میں آپ سیاستدانوں اور لولی لنگڑی جمہوریتوں کو جو مرضی کہہ لیجئے لیکن اگر کبھی آپ نے یہ سوال کیا کہ دستور کی پاسداری کیوں نہیں ہو پائی چار بار ملک میں مارشل لاء کیوں لگا ‘ آئین منسوخ کیوں ہوئے تو آپ کی حب الوطنی مشکوک ہو جائے گی۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی نظریات بھی اب مذہبی عقائد جیسے بن چکے ۔ ہر شخص کے نزدیک اس کی پسندیدہ سیاسی جماعت ”اوتاروں” کی جماعت ہے اور دیگر کرپٹ ملک دشمن اور وہ سب کچھ جو ” نجات دہندوں” نے بتایا سمجھایا۔
پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب ہم اس حقیقت کو سمجھ پائیں گے کہ ریاستوں کی ناکامی اور بکھرنے کی بنیادی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ‘ وسائل پر بالادست طبقات کی اجارہ داری ‘ طبقاتی خلیج میں اضافہ اور قانون کی بالا دستی کا نہ ہونا ہوتا ہے ۔
آپ پوری انسانی تاریخ چھان کردیکھ لیجئے خلافتوں ‘ بادشاہوں اور دیگر بنیادوں پر قائم مملکتوں کے بکھرنے کی وجہ جان لیں گے ۔
ایک ستم یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں تمام تر ابتری ، خامیوں اور مسائل کے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ کچھ یوں بھی فرماتے ہیں کہ سمجھوتوں ‘ بندھے اقتداروں نے لیڈر شپ بننے ہی نہیں دی ۔
دونوں باتوں میں بظاہر بہت کشش ہے ۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا غیر فطری بٹوارے پر آپ فطرت کے عین مطابق نظام کی عمارت اٹھا سکتے ہیں؟ ۔
ثانیاً یہ کہ جب بہتر برسوں میں لگ بھگ 34 برس براہ راست شخصی حکمرانی رہی ہو تو سارے جرائم سیاستدانوں کے کھاتے میں کیسے لکھ دیئے جائیں۔
ثالثاً یہ کہ ہم میں تو اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کا معروضی حالات میں تجزیہ کر سکیں۔
وجہ یہ ہے کہ اگر معروضی حالات کی روشنی میں تجزیہ ہوا تو بہت سارے بہت تقدس مآب اپنا مقام و مرتبہ کھو دیں گے ۔
مان لیجے کے ہم زمانے بھر کے دردوں سے دامن بھرے ہوئے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی ریاست کی عدم مساوات پر مبنی پالیسیوں پر بات نہیں کی۔
ہم کچھ آگے بڑھتے ہیں کیا یہ غلط نہیں ہے کہ مذہب و عقیدے کو ریاست نے بہتر برسوں سے ہتھیار بنا رکھا ہے ؟ ۔
اور ان برسوں کے دوران ہم ایک حقیقی قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کی طرف چند تو کیا ایک قدم بھی نہیں بڑھ پائے ۔
جمہوریت کے نظام پر طبقاتی نظام مسلط تھا اور ہے کیا رائے دہندہ کے ووٹ سے نمائندگی ہی جمہوریت ہے؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے ۔ میرے نزدیک جمہوریت کا مطلب جمہور کا حق حکمرانی ہے ۔
ہمارا انتخابی نظام کاروباری اصولوں پراستوار ہے بدقسمتی سے اسے بہتر بنانے اور عام آدمی کی انتخابی عمل میں رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے دستیاب سیاسی جماعتوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں۔
آسان زبان میں وہ باتیں کچھ یوں ہیں
اولاً سیاسی جماعتوں کی نظریات کی بجائے شخصی وفاداری پر منظم ہونا ثانیاً سیاسی عمل میں اخلاص وقربانی کی جگہ طبقاتی شناخت ‘ یعنی یہ سمجھ لیا گیا یا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ سیاست تو پیسے والوں کا کام ہے ‘ یہ تسلیم کرنے میں امر مانع ہر گز نہیں کہ جمہوریت غیر طبقاتی نظام کو نہیں کہتے لیکن جمہوریت کا مطلب طبقاتی نظام بھی ہر گز نہیں ۔
جمہوریت تو تبھی ہوگی جب طبقات کو مساوی کردار ملے گا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچے ہیں جمہوریت کتنی ہے؟
اس سوال پر ایک دن ہمارے ایک صاحب علم دوست نے کہا اگر جماعتوں کے اندر انتخابی عمل ہو تو ایجنسیوں کے لوگ قابض ہو جائیں گے ۔
اس جواب پر میں نہ ہنس پایا نہ کھل کے روسکا۔
بات صرف اتنی ہے کہ جس معاشرے میں لوٹا گردی ہنر بن جائے ۔ سیاسی کارکن کی جگہ چھوٹے موٹے ٹھیکیدار لے لیں ۔ نچلی سطح تک کے جماعتی عہدے حیثیت دیکھ کر عنایت ہوتے ہوں وہاں شکوہ کیسا؟۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ہے ۔
جی نہیں غیر سیاسی ادوار میں تخلیق کی گئی قیادتوں کا سیاسی جماعتوں پر قبضہ اصل وجہ ہے ۔
ایک حیران کن بات یہ ہے کہ کوئی شخص سابق دور کی طرح اگلے دور میں بھی نئے رنگ روپ سے وزیر بن جائے اور توپوں کا رخ سابق دور کی طرف کر دے تو سچ کیسے پروان چڑھے گا۔
ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے بھی گھبراتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کون کرواتا ہے اور وہ کون ہے جو اس توڑ پھوڑ سے نئی کنگ پارٹی بنواتا ہے ۔
آخری بات یہ ہے کہ دستیاب سیاسی جماعتیں جیسی بھی ہیں انہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتیں لوٹا گردی بند کرادیں کسی بھی شخص یا طرم خان کو پارٹی میں شامل ہونے کے بعد سات سال تک جماعتی منصب دیں نا منتخب ایوانوں کے لئے امیدوار بنائیں۔ جماعتوں کے اندر جمہوریت کو پروان چڑھایا جائے ۔
سیاسی جماعتیں میثاق جمہوریت کریں کہ نظام حکومت میں مذاہب وعقائد کا عمل دخل نہیں ہو گا اور یہ کے دستور کشی کا ساتھ دینے والوں کو کوئی جماعت قبول نہیں کرے گی
اصلاح احوال کا اس سے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور ناہی جعلی نجات دہندوں کو ان کی حد میں رکھنے کا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر